۔2مئی2018ء کو علی گڑھ مسلم یونیور سٹی میں سابق نائب صدر جمہوریہ ہند حامد انصاری صاحب کو لائف ٹائم ممبر شپ ایوارڈ دینے کا پروگرام تھا۔ واضح رہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اورسابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری ہمیشہ سنگھ کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے ہیں۔ حامد انصاری صاحب کو بھلے ہی اپنی مسلم شناخت دوئم درجہ کی لگتی ہو لیکن سنگھ کے لئے وہ صرف ملک مخالف مسلمان ہیں، جیسا کہ آر ایس ایس ایک عام مسلمان کے بارے میں سمجھتا ہے۔
حامد انصاری کے خلا ف آر ایس ایس اورفسطائی قوتوں کا غصہ اسی وقت سے بھڑکا ہوا ہے جب انہوں نے ’’دی وائر اردو پورٹل‘‘ کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت ملک کے اندر ایسے حالات پیدا کردئے گئے ہیں کہ ہندوستان کا مسلمان خود کو ڈراسہمااور غیر محفوظ محسوس کررہا ہے ۔آر ایس ایس اس سے قبل بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی مسلمان یا مسلم تعلیمی دانش گاہ ترقی پائے ،اس کی کامیابی کا دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا جائے ،وہ کسی تعمیری اورترقیاتی سرگرمیوں کے حوالے سے یاد کیا جائے ۔ان سب باتوں کے ساتھ ہی علی گڑھ کے پارلیمنٹ ممبرستیش گوتم کے حمایت یافتہ نوجوانوں اور یوگی آدتیہ ناتھ کی ہندو یوا واہنی کے تربیت یافتہ غنڈوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر حملہ آور ہوئے، مقصد یہ تھا کہ کیمپس کا ماحول خراب کر کے سابق نائب صدر حامد انصاری سے نفرت کا اظہار کیا جائے۔ہندویوواواہنی کے مسلح غنڈوں کی اس دیدہ دلیری کے ردعمل میں طلباء کا مشتعل ہونا ایک فطری امرتھا۔ غور طلب ہے کہ سنگھیوں اور ہندوتواوادی بلوائیوں کو مسلح کرکے مسلم یو نیورسٹی کے ماحول کو مکدر کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا مگر ساتھ ہی ہجومی یلغار میں مقامی پولیس بھی ان کے معاون کے طور کھلے بندوںکام کررہی تھی۔ یہ ایک چنتا کی بات ہے ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ بتاتی ہے کہ مقامی پولیس کبھی اس عظیم دانش گاہ کی ہمدرد اور محافظ نہیں رہی ہے بلکہ جب بھی موقع ملااس نے ظلم و بہیمیت کی یہی تاریخ یونیورسٹی کے خلاف رقم کی جس کا مظاہرہ2 مئی کو کیا گیا۔ جس وقت بھگوا بر گیڈکے ہمراہ یو نیورسٹی طلباء پر پولیس نے ہلہ بولاتھا اس وقت یہ طلبا احتجاج نہیں کررہے تھے بلکہ قریبی تھانہ میں حملے کی ایف آئی آر درج کرانے نکلے تھے مگر پولیس نے بیچ میں آکرنہتوں پر لاٹھیاں برسائیںاور دودرجن سے زائدطلباء کو شدید طورپر زخمی کردیا ۔ بعدازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہزاروں طلبہ نے ہندو واہنی کے غنڈوں کا کیمپس میں گھس کر طلبہ پر حملہ کرنے پر احتجاجی دھرنا دے کر معاملے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ۔خیال رہے کہ تادم تحریر اس صورت حال سے اے ایم یو کے اندر سراسیمگی اور بے چینی کا ماحول قائم ہے۔ فرقہ پرست غنڈوں نے کیمپس میں گھس کر اسی سال سے وہاں کسی دیوار پر آویزاں محمد علی جناح کی تصویر ہٹانے کا مطالبہ کیا اور طلبہ کی جانب سے مزاحمت پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ پولیس نے غنڈوں کو روکنے کے بجائے طلبہ ہی پر طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا اوراس کارروائی میں 30 طلبہ شدید طور زخمی کر کے چھوڑے ۔ یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ بابِ سید پر دھرنا دینے والے طلبہ مسلسل یہ مانگ کرتے رہے کہ ہمیں انصاف چاہئے اور فاشسٹ طاقتوں کے خلا ف انکار کے نعرے بدستور لگارہے ہیں۔مظاہرہ پر بیٹھے طلباء کا الزام تھاکہ یوگی آدتیہ ناتھ کی تنظیم ہندو یوا واہنی کے درجنوں مسلح کارکنوں نے پولیس کی نگرانی میں یونیورسٹی طلبہ حملہ بولا تھااور ہم انصاف کے لئے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں عرضداشت دائر کرنے کیلئے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے پاس جائیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی فرقہ پرست قوتوں کے نشانہ پر کیوں؟ قطع نظر اس کے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر کوئی ایشو تھا یا نہیں،حقیقت یہ ہے کہ 1938سے یہاں موجودجناح صاحب کی تصویر صرف ایک بہانہ ہے ،اصل مقصد فرقہ وارانہ تقسیم ہے ۔ یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے بھارت میں رہنے بسنے والے زیادہ تر مسلمانوں نے محمد جناح کو اس وقت بھی قبول نہیں کیا تھا جب وہ پاکستان کی تحریک چلارہے تھے ، توآج یہاں کے مسلمان جناح کو کیسے قبول کرسکتے ہیں ؟جو اپنی آ نکھوں سے پاکستان میں جہنم زدہ ماحول کو دیکھ رہے ہیں۔بہر حال جناح کی تصویر ویاں لائف ٹائم ممبروں کے ساتھ آٹھ دہائیوںسے ٹنگی ہوئی ہے ۔ سنگھیوں نے آج تک اس پر کوئی اختلاف درج نہیں کرایا وت آج انہیں کیوں اس کی یاد آئی۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جناح کے بہانے دراصل فسطائی قوتوں کو علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی اور اس جیسے دیگر اُن تمام تعلیمی اداروں سے جہاں سیکولرازم اور گنگا جمنی تہذیب ،بقائے باہم اور قومی اتحاد کی آوازبلند ہوتی ہے، دلی طور الرجی ہے۔یہ حملہ اسی الرجی کا ایک ٹرائل تھا۔علی گڑ ھ مسلم یونیورسٹی راست نشانے پر اس لئے بھی ہے کہ مسلم تشخص کی حامل اس تاریخی تعلیمی ادارہ کی ایک مخصوص شناخت ہے جوملک کی تاریخ، قیادت، علمی خدمات پر اثر انداز ہوتی رہی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جو کہ ہندوستان میں تقسیم سے پہلے کی دانش گاہوں میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے ایک ایسے کردار کی حامل ہے جو ہندوستانی معاشرہ کی تکثیری ہم آہنگی اور کثرت میں وحدت کے تصور کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اس تعلیمی و تہذیبی ادارے کا وجود اس حقیقت کا واشگاف اعلان ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں مذہبی بنیاد پر تقسیم عمل میں آ چکی ہے، وہاں اقلیتوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔یہ یونیورسٹی قومی تعمیر کے مشن کیلئے مردم سازی کی کارگاہ ہے ،جہاں ملک کی تعمیر وترقی کیلئے ہندومسلم اور دیگر تمام طبقات کے ہزاروں افراد تیار ہوئے ہیں۔ایسے بھی ہزاروں غیر مسلم طلبہ ہیں جن کی رسائی ملک کی دیگر مشہور زمانہ دانش گاہوں تک ممکن نہ تھی مگریہ طلبہ علی گڑھ کی سستی تعلیم، اعلی علمی ماحول اور حصولِ علم کے لئے سب کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے اصول کی بنا پر اس عظیم دانش گاہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ملک کے طول وعرض میں بسنے والے اعلی تعلیم کے خواستگار مسلم وغیرمسلم دلت طلبہ کی پہلی پسند ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے فارغین قومی تعمیر کی اہم ذمہ داریاں ملک میں اور بیرون ملک نبھا رہے ہیں۔ ریاست جموں وکشمیر، کیرالہ ، تمل ناڈو، بہار اور اسی طرح کی کچھ دیگر ریاستوں میں ہر تعلیم یافتہ مسلمان کا کسی نہ کسی قسم کا تعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ضرور ہوتا ہے۔ اس طرح بانی مسلم یونیورسٹی سر سید احمد خاں کا قوم کو پسماندگی اور پچھڑے پن سے نکالنے کا مشن پورا ہوتا نظر آتا ہے۔ایک مسلم ادارہ کے سائے میں قومی وملکی تعمیر کے لئے رجال کار تیار کئے جائیں یہ بات فسطائی قوتوں کو کبھی ہضم نہیں ہوسکتی ۔انہیں متعدد ریاستی انتخابات اور 2019کے عام انتخابات سے قبل سوسائٹی میں پولرائزیشن کیلئے راہ بھی ہموار کرنی ضروری تھی ،لہٰذا اس موقع کو غنیمت سمجھ کر انہوں نے اے ایم یو میں محمد علی جناح کی اسی سالہ پرانی تصویر کا نان اِشو زور وشور سے اُٹھالیا۔
09891759909