سرینگر// حریت (گ)چیرمین سید علی گیلانی نے ہندنواز سیاست دانوں کا کل جماعتی اجلاس بُلائے جانے کو ڈرامہ بازی اور مکاری قرار دیتے ہوئے کہا کہ حقیقت میں یہی لوگ بھارت کے فوجی قبضے کے مقامی چہرے ہیں اور ان لوگوں نے ہی ہمیشہ غیرقانونی اور غیر اخلاقی قبضے کو سندِ جواز بخش کر ہمارے لیے مصیبتوں اور آزمائشوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کشمیر کا مطالعہ کریں تو اِن ابن الوقت لوگوں کی ایک لمبی فہرست اور اُن کے سیاہ کارناموں کی خوفناک داستانیں پڑھنے کو ملیں گی اور ہماری غلامی کی سیاہ رات کی شروعات ہی ان لوگوں کے آباء و اجداد کی طرف سے بھارت کے ساتھ کئے گئے غیر فطری الحاق سے ہوئی۔ تب سے کشمیر کے طول وعرض میں زرخرید ایجنٹوں اور ایسے طالع آزماؤں کی ایک اچھی خاصی کھیپ تیار ہوگئی، جنہوں نے بھارت کے ظالم اور خونخوار پنجے کشمیر میں گھاڑنے کے لیے ہمیشہ اپنا دستِ تعاون پیش کیا۔ حریت رہنما نے کہا کہ ہم بار ہا کہہ چکے ہیں کہ اقتدار میں رہ کر یہ اپنے آقاؤں کے احکام بجا لانے میں ہر اخلاقی، انسانی اور جمہوری اقدار کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں، لیکن اقتدار سے باہر یہ بہت پارسا اور عوام کا غمخوار بننے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ سات دہائیوں سے ظلم اور ستم ہر حربے کو ہماری نہتی قوم پر آزمایا گیا ۔ 2008ء ، 2010ء اور 2016ء میں سینکڑوں نونہالوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اُس وقت بھی یہی لوگ سڑکوں اور چوراہوں پر سینہ کوبی کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ یہ ان ابن الوقت سیاست دانوں کی آپس میں طے شدہ پالیسی ہے کہ کس کو کب خاک وخون میں غلطاں قوم کے غم میں بیان بازیوں کے تیرو تفنگ چلاکر عوام کو بیوقوف بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے دہلی کے آقاؤں کو بھی باور کرانا ہوتا ہے کہ ہم ہوتے تو شاید آزادی مانگنے والی کچھ اور گردنوں کو مروڈ کر نمک حلالی کا ثبوت فراہم کرتے۔ گیلانی نے کہا کہ آگ وآہن میں ڈوبی اس قوم کے زخموں پر مرہم کے بجائے ان پر نمک پاشی کرکے یہ مصنوعی غمخوار اُلٹا قوم کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے یہ استحصالی ٹولہ حالات کا رونا رو کر ہمدردی کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔ ان کو عوام کے مصائب اور مشکلات کا تھوڑا سا بھی احساس ہوتا تو یہ لوگ دہلی کے آقاؤں کی طرف سے بھیک میں ملی اس کرسی کو کب کا تیاگ دے چُکے ہوتے اور غمزدہ قوم کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اس رستے ناسور کا داعمی حل تلاش کرنے میں معاون ثابت ہوتے، لیکن یہ لوگ اپنا ضمیر اور اپنی غیرت اقتدار اور دنیاوی جاہ وحشمت کے عوض گروی رکھ کر پوری قوم کے لیے وبال جان بن چُکے ہیں اور قوم جتنی جلد ان سے چھٹکارا حاصل کرے گی اتنی ہی جلد ان کی مصیبتوں کا ازالہ ہوجائے گا۔