سرینگر// بشری حقوق کے ریاستی کمیشن نے پیلٹ متاثرین سے شکایات درج کرنے کیلئے کمیشن سے رجوع کرنے کی تلقین کی ہے،جبکہ کمیشن کے ذریعے اس معاملے میں لی گئی نوٹس ابھی زیر التواء ہے۔وادی میں2016اور 2017میں احتجاجی مظاہروں کے دوران سینکڑوں لوگ پیلٹ کے شکار بنے،جبکہ1500کے قریب ایسے لوگ تھے،جن کی آنکھیں پیلٹ سے متاثر ہوئیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ2016میں حزب کمانڈر برہانی وانی کے جان بحق ہونے کے بعد6 ماہ تک جاری رہنے والی احتجاجی لہر میں1027ٖٓ شہریوں کی آنکھیں پیلٹ سے متا ثر ہوئیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ امسال بھی قریب130 شہریوں کی آنکھیں پیلٹ سے متاثر ہوئیں تھی۔ ادھر بشری حقوق کے ریاستی کمیشن نے جمعہ کو ان تمام افراد کو مطلع کیا ،جن کی آنکھیں پیلٹ سے زخمی ہوئی ہے،وہ کمیشن میں اتوار اور سنیچر کے بغیر باقی دنوں میں دفتری اوقات کے دوران شکایات درج کریں۔کمیشن کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پہلے ہی معاملے پر از خود نوٹس لی گئی ہے،جو کہ فی الوقت زیر التواء ہے۔کمیشن نے اس سے قبل حکومت کوپیلٹ بندوق سے زخمی ہونے والے متاثرین کی معاونت کیلئے ٹھوس پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پیلٹ کے شکار ہوئے لوگوں کے کیس درج کے سمن جاری کرنا اور کیس کی سماعت معمول کا معاملہ بن گیا ہے۔ بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں 26 اپریل کوہیون شیری بارہمولہ کے ریئس احمد بٹ نامی21سالہ پیلٹ کے شکار ہوئے نوجوان کے کیس کی سماعت کے دوران انسانی حقوق کے مقامی کمیشن کے بینچ نے حکومت کو پیلٹ کے شکار ہوئے نوجوانوں کی مدد کیلئے ٹھوس اور محفوظ پالیسی مرتب کرنے پر زور دیا۔ کمیشن کے ممبر عبدالحمید نے کہا کہ اس کیس میں ریاستی پولیس کے سربراہ کی طرف سے رپورٹ کے علاوہ دیگر رپورٹیں بھی موصول ہوئیں۔انہوں نے کہا ’’بینچ کا نقطہ نظر ہے کہ محض کیس درج کے سمن جاری کرنا اور کیس میں فریقین کی دلائل سننا اب کار معمول بن چکا ہے، تاہم اس سے کیسوں کا موثر نپٹارہ نہیں ہو رہا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا تھاکہ یہ کافی وجہ بن چکی ہے کہ اب تک سرکار نے ظاہرً کوئی بھی ایسی پالیسی مرتب نہیں کی ہے،جس کے تحت وقت وقت پر پیلٹ کے شکار ہوئے لوگوں کی اعانت پر غور کیا جاسکے۔ بشری حقوق کے ڈویژن بینچ نے کہا تھاکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پیلٹ کے شکار ہوئے مختلف لوگوں کو جسم کے مختلف حصوں بالخصوص آنکھوں میں مختلف قسم کا نقصان پہنچتا ہے۔ بینچ نے کہا کہ کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے کیلئے کمیشن محسوس کرتا ہے کہ پیلٹ کے شکار ہوئے متاثرین کی موثر مدد،جن کی تعداد2ہزار کے قریب ہے،سرکار کو ضرورت ہے کہ وہ ایک ٹھوس اور محفوظ پالیسی مرتب کریں،تاکہ ان متاثرین کی اعانت کی جاسکیں۔ کمیشن نے مزید کہا تھا کہ یہ پالیسی ان چیزوں کو ملحوظ نظر رکھ کر ترتیب دی جائے،جو کمیشن کو مختلف اوقات میں مختلف کیسوں کے دوران سامنے آئیں۔ انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن نے کہا کہ اس میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کہ دونوں آنکھوں کے نور سے محروم ہوئے لوگوں،جن کی بنیائی واپس آنے کا کوئی بھی موقع نہ ہو،انکی مدد کا طریقہ کار وضع کیا جائے،جبکہ اسی طرح دونوں آنکھوں کی بنیائی سے محروم ہوئے لوگوں،جن کی ایک یا دونوں آنکھوں میں روشنی واپس آنے کا کوئی امکان ہو۔5نکاتی مشورے میں مزید کہا گیا کہ ایک آنکھ کی روشنی سے محروم ہوئے لوگوں کے علاوہ آنکھوں کے ارد گرد پیلٹ کا شکار ہوئے لوگوں،جس سے متاثرین ذہنء پریشانیوں میں مبتلا ہو سمیت جسم کے دیگر حصوں پر پیلٹ کے شکار ہوئے لوگوں کو ملحوظ نظر رکھا جائے۔اس سے قبل اس سلسلے میں انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین محمد احسن اونتو نے رئیس احمد نامی پیلٹ کا شکار ہوئے نوجوان کے حق میں عرضی دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ موصوف سرکاری بندوق سے پیلٹ کا شکار ہوگیا۔