Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

زخمی

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: May 13, 2018 1:30 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
12 Min Read
SHARE
وہ زور زور سے کراہ رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے اُس کی دلخراش چیخیں دوُر دوُر تک سنائی دے رہی تھیں لیکن شاید پاس سے گُذرنے والوں پہ اسکی چیخوں اور کراہنے کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا ۔لگتا تھا اُن کے کان سُن ہوگئے ہیں اور آنکھوں پہ پٹی بندھی ہوئی ہے۔ کسی ایک نے بھی، پُوچھنا تو دور کنار، اُس کے قریب جانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی تھی۔ اب تو اُس کا کراہنا بھی دھیما ہوتا جارہا تھا، شاید سکت کم ہوتی جارہی تھی۔ وہ رحمت نگر کے چوراہے پر سڑک کے کنارے زخمی حالت میں پڑا ہوا تھا۔ ٹانگیں بازو اور کمر بُری طرح سے زخمی تھے۔ لگتا تھا کافی دیر سے اسی زخمی حالت میں پڑا ہے، خون کافی بہہ چکا تھا ۔زخمی شخص کے گلے سے اب ٹھیک سے آواز بھی نہیں نکل رہی تھی۔ 
رحمت نگر چوک شہر کے جنوب میں بائی پاس روڈ پہ ہے۔ اور شہر کے مصُروف ترین چوراہوں میں سے ایک ہے۔ صبح کے وقت یہاں ٹریفک کا دبائو خاصا کم ہوتا ہے۔ اِکا دُکاگاڑیاں چلتی ہیں ہاں البتہ پیدل چلنے والوں کی تعداد کافی ہوتی ہے، جن میں زیادہ تر صبح کی سیر کرنے والے اور ٹیوشن سینٹرز جانے والے بچے اور بچیاں ہوتے ہیں۔
اتنے لوگ اس زخمی کے سامنے سے گذر رہے تھے لیکن ہر کوئی منہ پھیر کے نکل جاتا تھا، شاید ہر کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ اُس کے قریب گئے تو مُصیبت میں پھنس جائیں گے۔ دراصل ہمارے تفتیشی اداروں کا طریقہ کار ہی کچھ ایسا ہے کہ ہر کوئی ایسے موقعوں پر دور بھاگتا ہے اور بلا وجہ اِن کے چُنگل میں پھنسنا نہیں چاہتا کیونکہ کئی بار ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ رپورٹ کرنے والا شخص سالہا سال پولیس اور عدالت کے چکر میں اُلجھ کے رہ گیا۔ لہٰذا لوگوں کو ایسے معاملات کی رپورٹ کرنا یا کسی کی مدد کرنا ’آبیل مجھے مار‘ کے مترادف لگتا ہے۔ 
سڑک کے کنارے پڑے ہوئے زخمی کی حالت ابتر ہوتی جارہی تھی کیونکہ وہاں سے گُذرنے والے کسی بھی شخص نے اُس کے پاس جاکر اُس کی مدد کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
کچھ دیر بعد پاس کے ایک محلے سے نو دس سال کا ایک لڑکا سکول کی وردی میں ملبوس کتابوں کا بستہ اُٹھائے گھر سے سکول جانے کیلئے نکلا، جونہی اس نے سڑک کے کنارے کراہتے ہوئے اِس زخمی شخص کو دیکھا تو وہ دوڑا دوڑا اُس کے پاس گیا اور پوچھا۔’’انکل آپ کو کیسے چوٹ لگی ہے؟ کس نے آپکی یہ حالت کردی ہے؟۔‘‘ زخمی شخص نے ہلکے سے آنکھیں کھولیں۔ چونکہ زبان بولنے سے قاصر تھی اس لئے اُس نے ہاتھ کے اشارے سے پانی مانگا۔ شاید اُس کا گلا خشک ہورہا تھا۔ چھوٹا لڑکا فوراً سمجھ گیا اور بھاگا بھاگا واپس گھر کی طرف دوڑا۔ گھر پہنچتے ہی اُس نے اپنے پاپا کو آواز دی اور خود کچن سے پانی کی بوتل اُٹھا لایا۔ اُس کا باپ گبھرایا ہوا نیچے آیا تو بچے نے بتایا کہ باہر سڑک کے کنارے ایک زخمی شخص پڑا ہوا ہے جو بول بھی نہیں سکتا مگر ہاتھ سے اشارے سے پانی مانگ رہا ہے۔ بچے نے باپ سے کہا ’’پاپا آپ جلدی سے گاڑی لے کر باہر آئو اور اُسے بچائو۔ پلیز پاپا۔‘‘ اپنے بچے کی عاجزی سے متاثر ہوکر باپ کو مجبوراََ گاڑی لے کے باہر آنا پڑا۔ ساتھ میں وہ اپنے گھریلو ملازم کو بھی لے آیا۔
یہ سب لوگ جلدی سے زخمی شخص کے پاس پہنچے۔ وہ بُری طرح سے زخمی تھا لگتا تھا۔ اُس کی ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں، سر اور کمر بھی زخمی ہیں۔ خون کافی بہہ چکا تھا اور وہ تقریباً بے ہوش پڑا ہوا تھا۔ اُنہوں نے پہلے اُسے سہارا دے کر پانی پلایا پھر اچھی طرح ٹانگوں اور سر پر کو پرُانے کپڑے پٹیاں باندھیں تاکہ مزید خون نہ بہے۔ چھوٹے بچے کے باپ خلیل احمد نے دیکھا کہ زخمی شخص کوئی چالیس یا پنتالیس سال کا آدمی ہے اور غور سے دیکھا تو صورت جانی پہچانی لگی۔ شاید پاس ہی کسی محلے کا رہنے والا تھا کیونکہ خلیل احمد نے اُسے اپنے محلے کی سامنے والی سڑک پہ کئی بار آتے جاتے دیکھا تھا۔ اُس نے اور اُسکے نوکر نے اُسے بڑی مشکل سے اُٹھا کے گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ لٹا دیا۔ نوکر کو اُسکے ساتھ بٹھا کے اسے پکڑ کر رکھنے کو کہا۔ خلیل نے اپنے بچے سے کہا کہ سکول بس آنے والی ہوگی اس لئے وہ سکول جائے اور دلاسہ دیا کہ وہ اُس زخمی کو کہیں کسی قریبی ہسپتال لے جائیں گے۔
وہ زخمی کو قریب ہی ایک پرائیویٹ ہسپتال میں لے گئے۔ ہسپتال پہنچ کے سٹریچر پر لٹاکے جب اُسے اندر لے گئے تو ہسپتال کے عملے نے پہلے پولیس تھانے فون کیا کیونکہ بقول انکے یہ ایکسیڈنٹ کا کیس تھا اس لئے قانون اور پولیس کی ہدایت کے مطابق پہلے کیس رجسٹر کرانا پڑے گا۔
خلیل احمد نے مِنّت سماجت کی کہ زخمی شخص کی حالت بہت بُری ہے اس لئے اُس کا علاج شروع کیا جائے۔ اُس نے ہسپتال کے عملے سے کہا کہ کیس تو رجسٹر ہوتا رہے گا لیکن اس شخص کی زندگی زیادہ قیمتی ہے۔ کم از کم اسے فرسٹ ایڈ تو دیا جائے۔ مگر ہسپتال والوں نے پولیس کی اجازت کے بغیر زخمی کو ہاتھ لگانے سے انکار کر دیا۔ بادل ِ نخواستہ خلیل احمد خاموش ہوکے پولیس کا انتظار کرنے بیٹھ گیا۔ ہسپتال والوں نے کہا کہ گھریلو ملازم کو بھی پولیس پارٹی کے آنے تک یہیں روکے رکھیں۔
کوئی ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد پولیس تھانہ سے ایک اسٹنٹ سب انسپکٹر اور ایک سپاہی ہسپتال پہنچے۔ پولیس نے پہنچتے ہی پہلے زخمی شخص کو اندر سٹریچر پر دیکھا۔ چونکہ زخمی بیان دینے کی حالت میں نہیں تھا اس لئے انہوں نے خلیل صاحب کا بیان قلمبند کرنا شروع کردیا۔
آپکا نام؟
خلیل احمد 
ولدیت؟
محمد سُبحان 
سکونیت؟
فرنڈس کالونی رحمت نگر 
اور یہ آپکے ساتھ کون ہے؟
میرا گھریلو ملازم۔ رام سنگھ ولد شیرو ساکن مغربی بنگال۔
خلیل احمد نے بتا یا کہ زخمی کو اُٹھانے کی غرض سے گھریلو ملازم کو ساتھ لایا تھا۔
زخمی کا نام؟
معلوم نہیں۔
زخمی کہاں سے ملا؟
رحمت نگر چوک پہ سڑک کے کنارے گرڈ سٹیشن کے پاس۔
گرڈ سٹیشن والی سربیٹ روڈ پہ؟
جی نہیں گرڈ سٹیشن کے اُس پار صدر پورہ جاتی سڑک پہ
’’اوہو یہ تو کرہامہ پولیس سٹیشن کا کیس ہے۔‘‘ اے ایس آئی نے وضاحت کی کہ رحمت نگر چوراہے کے گرڈ سٹیشن کے اُس پار صدر پورہ کا علاقہ کرہمارے پولیس سٹیشن کے حد اختیار میں ہے۔ اس لئے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ بہتر ہوگا کہ آپ کرہامہ پولیس سٹیشن سے رابطہ قائم کریں۔‘‘
زخمی کو اسی تڑپتی اور کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ کے ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹو آفیسر نے اب کرہامہ پولیس سٹیشن کو مطلع کیا۔
چونکہ اب صبح کے دس بج چکے تھی اس لئے خلیل احمد نے اپنے دفتر کو اطلاع دی کہ وہ کسی ضروری کام میں الجھ گئے ہیں اسلئے ذرا تاخیر سے پہنچیں گے۔
خلیل احمد ایک سرکاری محکمے میں منیجر تھے اور فرنڈس کالونی رحمت نگر میں رہتے تھے۔ گھر میں بوڑھے ماں باپ بیوی اور دو چھوٹے بچے تھے۔ لڑکا زاہد چوتھی جماعت میں بڑھتا تھا اور لڑکی حِنا ابھی یو کے جی میں تھی۔
بیٹے زاہد کی وجہ سے وہ خوامخواہ کی اس مصیبت میں اُلجھ گیا تھا اور اب اس سے چھٹکارا نہیں مل رہا تھا۔ حیرانگی کی بات یہ تھی کہ پولیس اور اُن کی حدود کے چکر میں بے چارے زخمی کو کوئی پوچھ نہیں رہا تھااور خلیل اس بات کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔
کوئی مزید ایک گھنٹے بعد کرہامہ پولیس سٹیشن کی پارٹی پہنچ گئی۔ سوال و جواب کا وہی سلسلہ پھر شروع ہوگیا۔ خلیل نے اسٹنٹ سب انسپکٹر سے درخواست کی کہ زخمی شخص علاج کیلئے پچھلے دو گھنٹوں سے یونہی پڑا ہے۔ اب سوال و جواب کا سلسلہ تو چلتا رہے گا اس لئے مہربانی کر کے ہسپتال عملے کو ہدایت دی جائے کہ وہ زخمی کا علاج شروع کریں۔ شاید اے ایس آئی کو خلیل کی بات پر ترس آیا اس لئے اُس نے ہسپتال کے عملے سے کہا کہ زخمی کا علاج شروع کیا جائے۔ اب یہاں پولیس پارٹی کے سوال و جواب چلتے رہے اور وہاں ڈاکٹروں نے آپریشن تھیٹرمیں زخمی کا علاج شروع کیا گیا۔
وقت کافی بیت چکا تھا۔ دن کے دو بج رہے تھے۔ خلیل احمد نے جانے سے پہلے زخمی کی حالت کے بارے میں پوچھا تو اُس کے پائوں تلے سے زمین کھسک گئی اور وہ دم بخود ہوگیا جب اُسے بتایا گیا کہ وہ بے چارہ آپریشن تھیٹر میں لئے جانے سے پہلے ہی زخموں کی تاب نہ لاکر مرچُکا تھا۔ شاید علاج میں دیر ہوگئی تھی۔ خلیل کو بتایا گیا کہ لاش کو پوسٹ مارٹم کیلئے پولیس کنٹرول روم بھیج دیا گیا ہے۔
خلیل یہ سنتے سکتے میں آگیا اور وہ سوچ رہا تھا کہ اس زخمی کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ جس نے اسے ٹکر مار کر زخمی کیا تھا یا وہ لوگ جنہوں نے اُسے سڑک کنارے زخمی حالت میں دیکھنے کے باوجود لاتعلقی کا مظاہرہ کیا تھا؟ یا ہسپتال کا عملہ جو پولیس پارٹی کے انتظار میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے مُنہ موڑ بیٹھا تھا؟ یا پھر وہ پولیس پارٹیاں جو حدود کے دائرہ اختیار کے چکر میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں یا انسانی فرائض کو بھول گئی تھیں؟ خلیل سوچنے لگا کہ نہ جانے روز کتنے لوگ ہماری سوچ، ہماری لاپرواہی یا قانون کے فضول لوازمات کی وجہ سے اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
 
راولپورہ سرینگر،رابطہ: 941911881
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

وزیر صحت سکینہ اِیتو کا بدھل اور سرنکوٹ اسمبلی حلقوں میں شعبہ صحت کے منظرنامے کا جائزہ ماہر ڈاکٹروں کی کمی پر سخت اظہارِ تشویش
جموں
’’کلین جموں گرین جموں مہم‘‘ ہائی کورٹ نے جانی پور کمپلیکس میں شجرکاری مہم کا انعقاد کیا
جموں
ادھم پور میں بس الٹنے سے سات مسافر زخمی
جموں
صوبائی کمشنر جموں کاسالانہ بسوہلی میلہ کی تیاریوں کا جائزہ خطے کی بھرپور ثقافت، روایات اور آرٹ و دستکاری نمائش میں کمیونٹی کی شرکت پر زور
جموں

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?