ہندو پاک افواج کے درمیان سرحدی کشیدگی اور وادی کشمیر کے اندرونی حالات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ اگر جزیرہ نما کوریا کے دو بدترین دشمنوں میں پائی جارہی کئی دہائیوں کی جنگی صورتحال دوستی میں تبدیل ہوسکتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بھارت اور پاکستان مسائل کے حل کی خاطر سنجیدگی سے افہام و تفہیم کی راہ اختیار نہیں کرسکتے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ حال ہی میں کس طرح سے شمالی اور جنوبی کوریائی رہنماتمام تر تلخیوں کو مٹاتے ہوئے گرمجوشی سے ملے اور ایک دوسرے کو دوستی کا پیغام دیا۔ اس ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری پروپیگنڈہ جنگ کا خاتمہ ہوگیا اور اب وہ ایک ایک کرکے ان مسائل کے حل کی طرف قدم آگے بڑھا رہے ہیں جو ان کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان حالات میں تبدیلی سے جزیرہ نما کوریا میں امکانی طور پر شروع ہونے والی ایک تباہ کن جنگ یقینی طور پرٹل گئی ہے جس کی لپیٹ میں نہ صرف یہ دونوں ممالک بلکہ چین، جاپان اور امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک آسکتے تھے اور یہ ایک عالمی جنگ بھی بن سکتی تھیکیونکہ ماضی میںکوریائی کشیدگی کی وجہ سے وہ سارا خطہ برسوں تک تباہ کن جنگ میں مبتلا ء رہا ہے۔ کوریائی ممالک کے درمیان یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب دنیا کی کچھ بڑی طاقتوں کی طرف سے ان حالات کو جنگی سمت میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی تھیں اور ایک دوسرے کو نیوکلر طاقت کے ذریعہ تباہ کردینے کی دھمکیاں دینا روزانہ کا معمول بن چکا تھا۔ ہندو پاک کے درمیان ویسے تو روز اول سے ہی حالات سرد مہری کا شکار رہے ہیں تاہم پچھلے کچھ عرصہ سے دونوں ممالک کی افواج حد متارکہ اور بین الاقوامی سرحد پر حالت جنگ میں ہیں اور روزانہ شہری و فوجی ہلاکتوں کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ اس سرحدی کشیدگی نے سرحدی مکینوں کا جینا حرام کر دیا ہے اور ان کا دن و رات کا سکون غارت ہوچکاہے۔ نہ انہیں خوشی نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں آپسی غم بانٹنے کا موقعہ ملتا ہے۔ دوروز قبل پونچھ حد متارکہ پر ایک جواں سال عام شہری اس وقت اس کشیدگی کی بھینٹ چڑھ گیا جب وہ شادی کی ایک تقریب میں شرکت کررہاتھا۔ اس طرح سے پل بھر میں شادی کی یہ تقریب ماتم میں تبدیل ہوگئی۔ اسی طرح سے سرحدی طلاب کا مستقبل مخدوش بنا ہواہے جنہیں کشیدگی کی وجہ سے سکول جانے کا موقعہ ہی نہیں ملتا اور تعلیمی ادارے اکثر بند رہتے ہیں۔غرض سرحدی علاقوں میں زندگی بری طرح سے متاثر ہے اور ہر کسی کام میں رکاوٹیں درپیش ہیں۔ روز روز کی کشیدگی سے مقامی آبادی بھی بہت زیادہ تنگ آچکی ہے اور اب عوامی حلقوں کی طرف سے یہ سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں کہ جب شمالی اور جنوبی کوریا جیسے دو کٹر حریف اور ایک دوسرے کے دہائیوں کے دشمن سرحدیں پھلانگتے ہوئے آپس میں دوستی کرسکتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہندو پاک اس خونی لکیر کو اکھاڑنہیں سکتے جس نے آر پار آبادی کو ایسے زخم دیئے ہیں جس کی دنیا میں کہیںکوئی مثال نہیں ملتی اور جس کی وجہ سے صرف ریاست جموں و کشمیر ہی نہیںبلکہ پورے بر صغیر کا امن خطرات سے دوچار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے ہندوپاک دنیا کے موجودہ تنازعات کے حل سے سبق لیتے ہوئے خطے میں امن کی راہیں تلاش کریںاور تمام حل طلب مسائل کو سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات سے حل کیاجائے ۔