ٹیپو سلطان، اورنگ زیب عالمگیر اورمسٹر محمد علی جناح کو ہندوستان کی فرقہ پرستانہ تاریخ میں ہمیشہ منفی انداز میں یاد کیا جاتاہے ۔ اس لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جناح صاحب کی اسی سال تصویر پر پنگا لینا سنگھ پریوار کے لئے ایک نیا اشو ہے اور اس پر اعتدال نواز قوتوں اور انسانیت کے بہی خواہوں کو سٹپٹانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ حق یہ ہے کہ بانیٔ پاکستان کی تصویر علی گڑھ یونیورسٹی میںدیگر لیڈروں اور شخصیات کے ہمراہ بہ حیثیت لائف ممبر آٹھ دہائیوں سے آویزاں ہے ۔آج اگر بھگوا مہاپُرشوں کو یہ بُرا لگے اور وہ ہلڑ بازی پر اُتر آئیں تو اس پر کسی کو حیرانگی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ تاریخ کا بے عیب سچ یہ ہے کہ انہی متعصب عناصر نے بہ حیثیت متشدد فرقہ پرست قوت عوام کے اندر مذہب اور ذات پات کے نام پر زہر گھول دیا اور پھرسہانے سپنے دکھاکر جب یہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ گئے تو آمریت پسند ی کی حدیں توڑ کر ملک کو نفرت اور عناد کی بھینٹ چڑھادیا۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انگریز سے لڑا نہیں بلکہ دوستی کاسمجھوتہ کیا اور آگے جاکرملک کی تقسیم میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ واقعی اس طرزسیاستکے نتیجے میںبرصغیر کو اذیتیں، تکلیفیںاورمصیبتیں مقدر ہوئیں۔ ویر ساورکر، ڈاکٹر ہیڈ گوار ، گروگولوالکر، بالا صاحب دیورس ، انل نریندر، کے نریندر، سوامی شردھانند، سرسوتی دیا نند جیسے بڑے بڑے ہندتوا حامی نیتا بہت پہلے سے سر سید احمد خان، میر عثمان علی خان( دکن) مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر، سر محمد اقبال کے خلاف جلسے جلوس کرنے میں مصروف کار رہے تھے اور ۴۷ء سے قبل ہی ہندوتووادی بیشتر تنظیمیں اور سنگھٹن آزادی سے قبل مسلمانوں کی شدو مد سے مخالفت کرنے لگے ، یہاں تک کہ انڈین نیشنل کانگریس کے پرچم تلے اگرچہ ہندو اورمسلم مشترکہ طور انگریز سے برسر پیکار تھے لیکن یہاں سفید پوش سرکاری پارٹی میں سنگھ پریوار سے تال میل رکھنے والی کالی بھیڑ یں بھی چھپی ہوئی تھیں جو اندرونی طور آر ایس ایس کی آبیاری کر رہی تھیں۔ مسٹر جناح ایسے متنازعہ ماحول میں ایک مسلم اسٹیٹ یا الگ وطن کی مانگ اسی لئے کرنے لگے کہ ہندوتو کے نیتاؤں اور ان کے چیلوں کو ایک ساتھ بیٹھ کراور ایک تھال میں کھانا پینا گوارا نہ تھا۔ لہٰذا مستقبل کے خطرات بروقت بھانپتے ہوئے جناح صاحب نے مملکت پاکستان کی تشکیل کا بیڑہ اُٹھایا۔ انہی خطوط پر نتیجہ خیز سیاسی جدوجہدبرصغیر میں ملک و ملت کے دفاع کے لئے لازم و ملزوم تھی۔ یہ ایک تاریخی تقسیم تھی جو فرقہ پرستی کا توڑ تو نہ بنی لیکن اس کے بہت سارے درس تاریخ نے اپنے جذب کئے ۔ اب ستر سال میں اگر ہندو پاک کی قسمت کی نیا فرقہ پرستوں اور امن دشمنوں کی کارستانیوںسے اُلٹ گئی تو اس کے لئے گاندھی یا جناح کی عظیم قیادت کو موردِ الزام ٹھہرانا یا ان قائدین کو ہدفِ تنقیدبنانا منافقت ہی نہیں بلکہ سراسر حماقت کہلائی جا سکتی ہے۔ اسی نکتے کو سابق بی جے پی لیڈ اور سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اپنی کیاب ’’جناح ‘‘ میں ا ُبھارا تھااور تاریخ کا تجزیہ کر کے معروضی انداز میں بتایا کہ برصغیر کی تقسیم کا سہرا جناح کے سر نہیں بلکہ وقت کے دوسرے گرانڈیل سیاسی زعماء کے سرجاتا ہے ۔
قیصر الہٰ آبادی ۔۔۔ نئی دہلی