حد متارکہ پر تو پچھلے تین سال سے ہندو پاک افواج کے درمیان فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ روز کا معمول بنا ہوا ہے لیکن بین الاقوامی سرحدپر بھی حالات پر امن نہیں اور ہر کچھ عرصہ کے بعد فائرنگ اور گولہ باری کا ایسا شدید تبادلہ ہوتا ہے کہ جس کی تباہی کے نقوش ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ دوروز قبل جموں کے ہیرانگر،ارنیہ،آر ایس پورہ اور دیگر سیکٹروں میں دونوں ممالک کی افواج نے ایک دوسرے کے خلاف بھرپور طاقت آزمائی کی جس کے نتیجہ میں ایک بی ایس ایف اہلکار سمیت آر پار 9 افراد کی ہلاکت ہوئی اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے جبکہ املاک کی تباہی بھاری پیمانے پر ہوئی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی سرحد پر عام طورپر خوف و دہشت کی فضا میں حالات پرامن رہتے ہیں لیکن جب کبھی بھی کشیدگی شروع ہوجائے تو تباہی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی جیتی جاگتی مثال جوڑا فارم کی گوجر بستی ہے جہاں اسی سال جنوری میں آر پار فائرنگ اور شدید گولہ باری سے زیادہ تر کُلّے اور کچے مکانات جل کر خاکستر ہوگئے اور مقامی آبادی کی دو سو سے زائد بھینسیں ہلاک ہوگئیں جو ان کیلئے واحد ذریعہ معاش تھیں۔دوروز قبل ہوئی گولہ باری میں نشانہ بننے والی بستیوں کا کچھ ایسا ہی عالم ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جس کا سامناحد متارکہ کے مکینوں کو روزانہ اور بین الاقوامی سرحد پر رہ رہی آبادی کو ہر کچھ عرصہ کے بعد کرنا پڑتا ہے۔اگرچہ ریاست کی سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر مرکز کی جانب سے رمضان سیز فائر کئے جانے سے یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ شائد اب قتل و غارت کے واقعات میں کمی آئے مگر نہ ہی سرحد اور نہ ہی اندرون ریاست اس کے زیادہ مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے دونوں ممالک کی فوجی قیادت نے بھی حالیہ عرصہ میں کچھ حوصلہ افزا بیانات دے کر امن پسندی سے کام لینے کی ضرورت پر زور دیالیکن زمینی سطح پر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ۔بدقسمتی سے سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر جموں و کشمیرکے عوام، خاص طور پر سرحدی آبادی، کو دو نیوکلیائی طاقتوں کے بیچ جنگ کا میدان بنا کر رکھا گیا ہے اور ان مسائل سے چشم پوشی کی کوششیں کی جارہی ہیں جو دراصل دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی جڑ ہیں اور جس کی وجہ سے آج تک ہندو پاک کرگل سمیت 4جنگیں لڑ چکے ہیں اور سرحد پر طویل عرصہ سے ایک طرح سے جنگ کا ہی سماں ہے ۔ تاہم نہ ہی ماضی میں لڑی گئی جنگوں سے کچھ حاصل ہوا اور نہ ہی آج پائی جارہی کشیدگی سے کسی بھی فریق کا بھلا ہوگابلکہ دونوں کو ہی جانی و مالی نقصانات سے دوچار ہوناپڑے گا اور صف ماتم بھی بچھیںگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ رمضان سیز فائر کا دائرہ کار اندرون ریاست سے بڑھا کر سرحد تک لیجایاجائے اور ہندو پاک کی سیاسی و فوجی قیادتیں ایک دوسرے کو زیر کرنے کی پالیسی ترک کرکے باہمی اعتماد کی پالیسی اپناتے ہوئے بات چیت کے ذریعہ مسائل حل کرنے کیلئے قدم بڑھائیں نہیں تو سرحدی آبادی کا جان و مال اسی طرح سے برباد ہوتا رہے گااور دو پڑوسی ممالک کے تعلقات بھی بدسے بدتر ہوتے جائیںگے۔