ماہ رمضان شروع ہوتے ہی ریاست بالخصوص وادی کشمیر میں پالی تھین کے استعمال میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ ہر اور بازاروں میں خورد نوش کی ایسی اشیاء کی بہتات نظر آرہی ہے، جو پالیتھین میں پیک ہوتی ہیں۔ چنانچہ خریداروں کے پاس کوئی متبادل نہ ہونے کے بہ سبب وہ انہیں خریدنے کے لئے مجبور بھی کہے جاسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان اشیاء کے استعمال کے بعد یہ پیکنگ ہمارے گلی کوچوں سڑکوں اور چوراہوں پر لتھڑی پڑی ہوتی ہیں۔ اسکے علاوہ آنے والے ایام میں ایسی ہی پیکنگوں میں ملبوسات کی سیل میں بھی کئی گنا اضافہ ہونے کا امکان ہے، لہٰذا ایک سنجیدہ و متفکر سماج کی حثیت سے سبھوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے سرزمین کو اس تباہی سے محفوظ رکھیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وقت وقت پر انتظامیہ کو اس حوالے سے مطلع و متنبہ نہ کیا جاتا ہو کچھ عرصہ پہلے ہیعدالت عالیہ نےریاستی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ پالی تھین سے پاک جموں وکشمیر کا خواب شرمندہ تعبیر بنانے کیلئے لکھن پور ٹول پلازہ پر نگرانی نظام مزید سخت کرے تاکہ ریاست میں پالی تھین کی برآمد روکی جاسکے ۔مفاد عامہ کی ایک عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے عدلیہ کے ڈویژن بنچ نے حکومت کی جانب سے پالی تھین لفافوں کے استعمال کے اعتراف کے بعد کہا کہ پالی تھین کے استعمال سے ریاست کی خوبصورتی ماند پڑرہی ہے اور اگر حساس ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنا ہے تواس ناسور کا خاتمہ لازمی ہے ۔یہ پہلا موقع نہیںتھاجب عدلیہ نے پالی تھین کے استعمال کو لیکر ریاستی حکومت کی کھینچائی کی ہو بلکہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ عدلیہ کی جانب سے حکومت کو کھری کھری سننا پڑی اور سچ تو یہ ہے کہ عدلیہ کے دبائو کے نتیجہ میں ہی حکومت کو پالی تھین پر پابندی عائد کرنے کیلئے قانون سازی کرنا پڑی تاہم یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پابندی کا اطلاق قانون کی کتابوں تک ہی محدود رہا جبکہ عملی طور متعلقہ حکام کی ناک کے نیچے ریاست میں پالی تھین کا استعمال شدومد سے جاری ہے اور کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ پالی تھین پر پابندی ریاست میں ماحولیات کو تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں ایک اہم قدم تھا۔ حالانکہ ماحولیات کا تعلق صرف پالی تھین سے ہی نہیں ہے بلکہ کئی دیگر باتوں سے بھی ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں سے مسلسل ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تے آئے ہیں اور یہ سلسلہ شدو مد کے ساتھ جاری ہے۔ہماری جھلیں تباہ حال ہیں اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سکڑتی جارہی ہیں۔ ہمارے جنگلات لٹ رہے ہیں۔ ہمارا جہلم آلودہ ہو چکا ہے۔ ہماری بستیوں سے برآمد ہونے والا فضلہ آبگاہوں اور دریا ئوں میں چلا جاتا ہے۔ اس ریاست میں سڑکوں پر دوڑنے والی لاکھوں گاڑیاں زہریلا دھواں چھوڑتی ہوئی چلی جارہی ہیںاور بدقسمتی سے محکمہ ٹریفک میں افرادی قوت کی قلت کے باعث لاکھوں گاڑیوں کی پولیوشن چیکنگ تقریباً ایک ناممکن بات بن گئی ہے۔ ہماری زرخیز زمینیں کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ غرض کہ ہمارے یہاں ماحولیات کی بربادی کی ان گنت وجوہات دیکھنے کو ملتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس کے تدارک کیلئے ایک ہمہ گیر ، موثر اور زوردارحکومتی پالیسی کی ضرورت ہے لیکن پالی تھین لفافوں پر پابندی کے ایک چھوٹے سے قدم کا حشر دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ماحولیا ت سے جڑے دیگر منفی رجحانات کا تدارک کرنے میں کس طرح کے نتائج برآمد ہونگے۔ویسے بھی یہ بدقسمتی ہے کہ ریاست کے عوام میں تعلیم عام ہوجانے کے باوجود ماحولیات کے تئیں ذمہ داریوں کا احساس نہیں پایا جاتا ہے۔ہمارے اسلاف ہمارے مقابلے میں ان پڑھ تھے لیکن ماحولیات کے تئیں بہت حساس تھے۔ ان کے زمانے میں جہلم اور ڈل کا پانی پینے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔لیکن آج یہ آبی ذخائر آلودگی کی آماجگاہ بن چکے ہیں اور ان کے پانی پینا تو دور کی بات اس میں ہاتھ ڈالنا بھی بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ماحولیات کے تئیں عوام میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن اسکے لئے حکومت کا انتہائی سنجیدہ ہونا نہایت ضروری ہے۔ پالی تھین مخالف مہم کا جو حشر ہوا ہے ،وہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ حکومت نے یہ مہم سنجیدگی کے ساتھ شروع نہیں کی تھی ۔ بہر حال اگر حکومت واقعی جموں کشمیر میں ماحولیات کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے تو اسکے لئے موثر اور ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ زبانی جمع خرچ کے بجائے ماحولیات کے تحفظ کیلئے ٹھوس پالیسی اپنائے تاکہ اسکے مطلوبہ تنائج برآمد ہوں۔فوری طور پرمتعلقہ حکام پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ عدلیہ کے فیصلے کا اس کی روح کے ساتھ احترام کرکے پالی تھین لفافوں کو گاہکوں کے ہاتھوں میں تھمادینے والے دکانداروں اور خوانچہ فروشوں کے تئیں سختی سے پیش آئے ، مارکیٹ چیکنگ سکارڈ وںکو متحرک رکھے اور اْن لوگوں سے قانون کے مطابق نپٹے جو اس غیر قانونی اور مضرت رساں دھندے کو کسی نہ کسی صورت زندہ رکھنے کے درپے ہیں نیز عام لوگوں کی بھی فہمائش کی جانی چاہئے اور انہیں پالی تھین کے استعمال سے پیدا ہونے والے خطرات اور نقصانات کے بارے میں ذرائع ابلاغ کی وساطت سے مزید واقفیت دلائی جانی چاہئے۔ساری دنیا اس وقت دیکھ رہی ہے کہ کرۂ عرض میں کس نوعیت کی موسمیاتی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے کہیں یہ کھیت کھلیان سوکھ رہے ہیں اور کہیں کھڑی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ برصغیر ہندوپاک میں بھی حالیہ ایام کے دوران آندھی طوفان کے ریلوں میں اربوں روپے کا نقصان ہوا جبکہ بڑی تعداد میں لوگ بھی مر گئے۔ وادی کشمیر میں بھی گزشتہ تین ماہ سے وقت وقت پر ماحولیاتی تبدیلی اپنا منفی رنگ دکھا رہی ہے۔ بھاری پیمانے پر ژالہ باری سے پھلوں کے باغات میں تباہی مچ گئی ہے۔ان حوالوں سے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی ذمہ داری اول تاآخر میونسپل حکام پرعائد ہوتی ہے۔اْمید کی جانی چاہئے اس بارے میں ہاتھ بٹانے کے لئے نہ صرف معاشرے کے باشعور افراد بلکہ تمام ماحولیات دوست قوتیں بھی حتی المقدوراپنا کردار ادا کریں گی۔