ہندوستان ، ایک کثیر الاقوام اور کثیر اللسانی ملک ہے۔یہاں ہندو،مسلمان ، سکھ،عیسائی،جین ، پارسی اور بدھ مت کے لوگ صدیوں سے مل جل کر رہتے آئے ہیں۔یہاں کی تہذیب وثقافت رنگین اور پرکشش رہی ہے۔مختلف دھرموں،عقیدوں اور زبانوںکے بولنے والے یہاں آباد ہیں۔ہندوستان کو یہ شرف حاصل رہا ہے کہ یہاں بڑے بڑے صوفی،سنت اور بزگان دین پیداہوئے جنھوں نے بلا لحاظ مذہب وملت عالم انسانیت کا پرچم لہرایا اور خود بینی وخود آگہی کے ساتھ ساتھ مساوات،بھائی چارے اور اخوت کا درس دیا ۔ہندو،مسلم اور سکھ بھائی چارے کی ایک زندہ اور عمدہ مثال اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ ا ن تینوں فرقوں نے انگریزوں کی ظالمانہ حکومت کا تختہ الٹ دیااور انہیں تقریبا ڈیڑھ سو برس یہاں حکومت کرنے کے بعد ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا ۔
جب تک کسی ملک میں بسنے والے لوگوں میں اتفاق واتحاد کی نعمت عظمیٰ باقی رہتی ہے تو وہ ملک خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن رہتا ہے اور سچ پوچھیے تو خالق کائنات کو بھی اپنی جاندار مخلوقات میںاتفاق واتحادسے زندگی بسر کرنا پسند ہے۔اسی لیے تو اس نے اپنی برگزیدہ ہستیوں کو دنیا میں مبعوث فرمایا لیکن جب کوئی ملک یا قوم اتفاق واتحاد جیسی عظیم نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے تو پھر وہ بری طر ح زوال پذیرہونے لگتی ہے۔آپسی نفرت،کدورت،ذات پات،چھوت چھات،رنگ ونسل،بھید بھاو،اونچ نیچ،تعصّب اور علاقائیت کا زہر اس قدر پھیل جاتا ہے کہ پھر معمولی معمولی باتوں پر گالی گلوچ اور دنگے فساد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔اس کی بھی ایک زندہ اور لرزہ خیز مثال1947میں ہندوستان کا بٹوارہ ہے کہ جس میں لاکھوں انسانی جانیںتلف ہوئیں،لاکھوں گھر اجڑے اور کتنے ہی خون کے دریا بہائے گئے۔پہلی اور دوسری عالم گیر جنگوں نے اپنے اپنے وقت میں انسانی بستیوں پر جو قہر برپا کیا اس کے آثار اس روئے زمیں پرآج بھی موجود ہیں۔اس وقت بھی چند ملکوں نے اتفاق واتحاد کی نعمت کھوئی تھی۔جس کے نتیجے میں بے قصور خدائی مخلوق کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹایا گیا ۔گویا معلوم یہ ہوا کہ جو مزہ امن وسلامتی ،آپسی میل ملاپ،رواداری اور اتفاق واتحاد میں ہے، وہ آپسی نفرت وکدورت ،فرقہ پرستی،بغض وعناد ،تعصب اور کئی طرح کی ذہنی خباثتوں میں نہیں ہے۔آج بھی ہندوستان میں کئی فرقہ پرست اور غیر سیکولر تنظیمیںہماری قومی ایکتا اور ہندو مسلم اور سکھ اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا خطراہ بنی ہوئی ہیں۔کہیں علاقائیت،کہیں دھرم اور کہیں سیاسی مصلحت کی بنیاد پر نفرت وتعصّب کے بیج بوئے جارہے ہیں۔آدمی سے انسانیت رخصت ہوچکی ہے اور دلوں میں عداوت،بغض اور حسد کا لاوہ اندر ہی اندر پک رہا ہے جو کسی بھی وقت آتش فشاں کی صورت میں پھٹ سکتا ہے اور کتنے ہی معصوم و بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کا باعث بن سکتا ہے۔اس لیے ایسے تشویشناک حالات میں اہل علم وفن اور سنجیدہ سیاسی رہنماوں اور اہل زبان حضرات کو چاہیے کہ وہ حتی المقدور ہندو،مسلم اور سکھ بھائی چارے کو قائم رکھنے کے لیے اپنااہم انقلابی رول ادا کریں تاکہ انسانی دلوں میںنفرت، تعصّب اور فرقہ پرستی کا خاتمہ ہو۔
’’زبان‘‘دنیا کے تمام علوم وفنون کے حصول کاواحد ذریعہ ہوتی ہے۔اسی سے تہذیب وشائستگی کی کونپل پھوٹتی ہے۔ہمارے جذبات واحساسات،تجربات ومشاہدات کی ترسیل اور افہام وتفہیم زبان کے بغیر ممکن نہیں۔سچ تو یہ ہے کہ اگر زبان نہ ہوتی تو سارا عالم گونگا ہوتا ۔زبان کی اہمیت وافادیت اپنی جگہ مسلّمہ مگر یہ بھی یاد رہے کہ زبان وہی زندہ رہتی ،پھلتی پھولتی اور ترقی کے زینے طے کرتی ہے جس میں لچک،تنّوع،نفاست، میٹھاس،نزاکت،ظرافت اور لطافت ہو اور جو دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے دامن میںپناہ دے۔اس کے علاوہ جسے بے حد عوامی مقبولیت حاصل ہو۔اس اعتبار سے دیکھیں تو اردو واحد ایک ایسی زبان ہے جس میں مذکورہ جملہ خوبیاں موجود ہیں۔
جہاں تک ہندو ،مسلم اور سکھ اتحاد میں اردو کے رول کاتعلق ہے تو اردو کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہ زبان اپنے آغاز ہی سے اتفاق واتحاد،میل ملاپ اور رواداری کی امین رہی ہے۔یہ وہ زبان ہے جس نے شروع ہی سے دلوں کو جیتا ہے۔زمانے کے کئی نشیب وفراز،بے شمار رکاوٹیںاور گردش لیل ونہار کی ہزاروں گھڑیاں اردو کی دلکشی،رعنائی اور اس کے مزاج کی اس خوشگواری کو ہمیشہ عیاں اور بیان کرتی رہی ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیںکہ اردو نے ہر دور میں محبت اور رواداری کے پیغام کو عام کیا ہے۔امن وسلامتی اور اتفاق واتحاد کی دعوت دی ہے۔اردو شعر وادب کا پوراسرمایہ اپنے ملک وقوم کی محبت سے بھرا پڑا ہے۔اردو نے ہمیشہ دلوں کو جوڑنے اور نگاہوں کو محبت کی روشنی سے سرشار کرنے کافریضہ بحسن وخوبی انجام دیا ہے ۔ سماج میں خوشگوار ماحول پیداکرنے میںزبان وادب کا ایک کلیدی رول ہوتا ہے۔وہ فکر وخیال کو بیدار کرتے ہیں۔جذبات واحساسات کوگویائی عطاکرتے ہیں۔انسانوں کے باہمی مشکلات ومسائل اور ان کے دکھ درد کوسمجھنے کی صلاحیت بخشتے ہیں کیوں کہ زبان وادب کاتعلق عوام سے ہوتا ہے۔اردو زبان وادب کا بہترین سرمایہ حب الوطنی،میل میلاپ اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی پر زور دیتا نظر آتا ہے۔اردو نظم کے حوالے سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نظیر اکبر آبادی نے سب سے پہلے اردو شاعری کو عوامی اسلوب وانداز اور رجحان ومزاج عطا کیا۔اسے انسانی دلوں کی دھٹرکنوںمیں شامل کیا اور محلوں کے بدلے اسے بازاروں میں پیش کرکے عوام سے متعارف کرایا۔عوام کو یہ بھی احساس ہواکہ نظیر ہمارے تہواروں، میلوں، بازاروں، رسموں، رواجوں، عقیدوں اور انسانی مسائل کو اس طرح پیش کررہے ہیںکہ جس سے محبت، اخوت،باہمی رواداری اور انسانی قدرومنزلت کاپیغام عام ہورہا ہے۔
1857ء کا سال ہندوستان کے لیے ایک سیاسی انقلاب کا سال کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس سیاسی انقلاب نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ایک ایسی تبدیلی رونما ہوئی جس میں قدریں بدل گئیں۔سپنے چکنا چور ہوئے اور زبان وادب کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوا مگر اردو نے اس سیاسی اتھل پتھل کے دور میں بھی اپنی شمعء اتحاد کو مستحکم طور پر روشن رکھا۔سرسید احمد خان کی لیڈر شپ میں ملک وقوم کی تعمیرکا جو نقشہ بنایا گیا ہے اس نیک مقصد کی تکمیل کے لیے زبان وادب کو بنیادی وسیلہ قرار دیا گیا ۔چنانچہ اسی زمانے میں شعر وادب کی نئی راہیں تلاش کی گئیں۔سیاسی انقلاب کے زیر اثردلوں میں جودوریاںپیدا ہوئی تھیں انھیں اردو کی میٹھی بیانی اور جذبئہ اتحاد ومحبت سے کم کرنے کی سعئی کی گئی۔اپنے پیارے وطن کی عظمت،ہم وطنوں کی باہمی محبت اور انسان دوستی کے گیت گائے گئے۔اسی زمانے میں قومی شاعری کی لے تیز ہوئی اور غزل کی شان امتیازی کو قائم رکھتے ہوئے اسے عام انسانی فکر و اضطراب کا ترجمان بنایا گیا۔1857ء کے سیاسی انقلاب نے ہندوستانیوں میںجذبہء آزادی کو جگایا جس نے سرسید احمد خان کی تعلیمی تحریک اور اس عہد کے شعر وادب کے لیے مہمیز کاکام کیا اور کچھ ہی عرصے میں اردو کے نعرہء انقلاب نے انگریزوں کے نظام حکومت کے درودیوار ہلادیے۔نہ صرف ہندوستان بلکہ سارے عالم میں فکری انقلاب کی بازگشت سنائی دینے لگی۔اردو شعر وادب کا دامن اس سب سے مالا مال ہے۔اسی لیے ترقی پسند ادبی تحریک اور اس کا سیاسی ادب،سماجی وفکری شعور اورپوری دنیا کے تغیر پذیر نظریات ورجحانات کا عکاس مانا جاتا ہے۔اردو نے ہر دور میں اتفاق واتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے جذبے کو پروان چڑھایا ہے۔ملک وقوم کے رہنماوں نے اردو کے ذریعے اسی جذبہء اخوت وہمدردی کو عام کیا ہے۔ غالب ،سرسید،حالی،شبلی،محمد حسین آزاد،اقبال،نظیر اکبرآبادی،جوش ملیح آبادی،ابوالکلام آزاد اور محمد علی جوہر کے علمی،ادبی،سیاسی اور سماجی نظریات،افکار وخیالات میں انسان دوستی اور انسانی عظمت کاتصور قدر مشترک ہے۔یہ وہ علم وادب کا قافلہ تھاجو زندگی کی راہوں میں پھول برساتا رہا اور پورے ماحول وفضا کواپنی انسان دوستی اوربھائی چارے کی خوشبو سے معطّر کرتا رہا۔
1947ء میںہندوستان کو جہاں ایک طرف آزادی نصیب ہوئی تو وہیں دوسری طرف یہ ملک دوحصّوں میں تقسیم بھی ہوگیاجس کے دیر پا اثرات صدیوں پر بھاری ہیں۔اردو سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر اپنے ہی وطن میں غریب الوطن بنادی گئی مگر اس کا جذبہء محبت اور نظریہء اتحاد واتفاق نہ صرف بیدار رہا بلکہ خلوص اور متانت سے اپنا پیغام دہراتا رہا۔عوامی مشاعروں اور ادبی مجالس نے مشکل حالات میں بھی اردو کی اعلیٰ روایات کوزندہ رکھا۔شروع ہی سے اردو کے بہترین نظم وغزل گو شعرا ء اور نثر نگاروں نے اپنے ادبی شاہکاروں کی صورت میں گلستان اردو کو اپنے خون جگر سے سینچا ہے۔اردو کی مقبولیت کا یہ عالم رہا ہے کہ اس سے محبت کرنے والوں میں نہ صرف مسلمان ادبا وشعرا کی کثیر تعداد شامل رہی ہے بلکہ ہندو اور سکھ شعراء وادبا نے بھی بڑ ے جوش وولولے کے ساتھ اردو کی آبیاری کی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور انشااللہ جاری رہے گا۔1947کے بعد لسانی تعصّب کی بنیاد پر یہ چنگاری بھڑکادی گئی کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔یہ چنگاری اب تک نہیں بجھ رہی ہے۔حالانکہ آج بھی ہندوستان کے ہر شہر اور گاوں میں بہت سے ہندو اور سکھ اردو بولتے، لکھتے ا ور پڑھتے ہیں۔یہاں تک کہ کئی ہندو خواتین بھی اردو میں بہترین شاعری کرتی ہیں اور افسانے لکھتی ہیں۔یہ کہنا کہ اردوصرف مسلمانوں کی زبان ہے بالکل بے بنیاد بات ہے۔اردو نہ صرف مسلمانوں کی زبان ہے بلکہ یہ انسانوں کی زبان ہے۔دراصل فرقہ پرست تنظیموں ،دھرم اور سماج کے ٹھکیداروں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے عوام کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنا شروع کردیا ہے۔ہر شخص یہ جانتا ہے کہ اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی،یہیں پلی بڑھی اور یہیں اس نے عوام میںبے حد مقبولیت حاصل کی مسلمان شعرا و ادبا سے قطعء نظراگر غیر مسلم اردو شعرا وادبا کے ادبی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے اردو کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔
جب ہم اردو کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے معتبر اور قابل قدر مسلمان شعرا ء وادبا کے ساتھ ساتھ غیر مسلم شاعروں اور ادیبوں نے بھی اپنے ادبی فن پاروں کی صورت میںاپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے،انسانیت اور بھائی چارے کا پیغام دیا ہے۔ان میں پہلا نام پنڈت دیا شنکر نسیم کا ہے کہ جن کی مثنوی ’’گلزار نسیم‘‘اردو ادب میں اپنی مثال آپ ہے۔ان کے علاوہ سرور جہاں آبادی،للولال جی،نہال چند لاہوری،بینی نارائن جہاں،تارنی چرن مترا،ماسٹر رام چندر،پیارے لال آشوب جیسے چند ایسے اردو کے ستارے رہے ہیںجنہوں نے اردو کی بے لوث خدمت کی ہے۔انیسویں صدی کے اواخر میں پنڈت رتن ناتھ سرشا ر نے اردونا ول نگاری میںاپنا نام روشن کیا ۔بیسویں صدی کے شعر وادب پر جن ہندو شعروادباء نے اپنے تابناک نقوش چھوڑے ہیں۔ان میں منشی پریم چند ،سدرشن،اوپندر ناتھ اشک،دیندر ستیارتھی،کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی، تلوک چند محروم، فراق گورکھپوری،رام بابو سکسینہ،مالک رام، گیان چند جین،کالی داس گپتا رضا،دیوندر اسر،شانتی رنجن بھٹا چاریہ،اور اردو دنیا کی وہ مایہ ناز ہستی جسے اردو کے شیدائی پروفیسر گو پی چند نارنگ کے نام سے جانتے ہیں،وہ بلندپایہ مفکر،محقّق،نقاد،ماہر لسانیات،نظریہ سازاور نظریہ شناس کے طور پر مشہور معروف ہیںجن کی ہر تحریر سے تہذیب وشائستگی اور ادبی چاشنی ٹپکتی ہے۔ان کے علاوہ عابد پشاوری اور اردو فکشن کے اہم نام رام لعل،جوگندر پال،ہرچرن چاولہ،سردار رتن سنگھ،کنور سین،نند کشور وکرم،سریندر پرکاش،بلراج مینرااور گیان سنگھ شاطر کے علاوہ اور بھی نام ہیں۔بیسویں صدی کی پہلی اور دوسری دہائی میں جن ہندو شعرا نے اردو میں پیار ومحبت اور بھائی چارے کی جوت جگائی ان میں برج نارائین چکبست، ،عرش ملسیانی،گوپی ناتھ امن،آنند نارائن ملاّ،پنڈت ہر ی چند اختر،گوپال متّل،بلراج کومل،جگن ناتھ آزاد،کنور مہندر سنگھ بیدی سحر،پرکاش فکری اور راج نارائن شامل ہیں۔ریاست جموں وکشمیر کے اردو ادب پر جب نظر جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کشمیری پنڈتوں نے شروع ہی سے اردو شعر وادب کی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ایک طویل فہرست مرتب ہوتی ہے جس کی شروعات پنڈت ہرگوپال کول خستہ ؔسے ہوتی ہے اور عصر حاضر تک سینکٹروں کشمیری پنڈتوں کی اردو دوستی سامنے آتی ہے۔موجودہ دور میں غیر مسلم شعرا،شاعرات اور نثرنگار اپنے قلم سے محبت ،امن وسلامتی،انسانیت اور آپسی میل ملاپ کا پیغام دے رہے ہیں۔ان میں کچھ کنیڈا، لندن ،جرمنی اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔
گلشن کھنہ برطانیہ میں رہتے ہوئے اردو میں افسانے لکھتے ہیں۔جتندر بلّو لندن میں ہیں اور کافی عرصے سے افسانہ نگاری کررہے ہیں۔اسی طرح ستیہ پال آنند ایک کہنہ مشق شاعر ہیں جنہوں نے اپنی جاندار شاعری سے اردو دنیا میں ایک دھوم مچادی ہے۔اس قت امریکہ میں قیام پذیر ہیں۔ان ادیبوں کے علاوہ ہندوستان کے طول وعرض میں اردو کے دیوانے موجود ہیںجن میں کشمیری لال ذاکر،جو اردو ادب میں ایک ستون کی حیثیت رکھتے ہیں،ان کے کئی ناول،افسانوں کے مجموعے ،ڈرامے،سفر نامے اور خاکے شائع ہوچکے ہیں۔ان کے علاوہ شرون کمار ورما،جن کا تعلق امرتسر سے ہے، اردو میں کئی ناول اور افسانے لکھ چکے ہیں ،کیول دھیر لدھیانہ میں رہتے ہوئے اردو کی خدمت کررہے ہیں۔ کاوش بدری تامل ناڈو میں رہ رہے ہیں لیکن اردو سے بے پناہ محبت کرتے ہیں،شاعر اور نقاد کی حیثیت سے مشہور ہیں۔کرشن کمار طور ہماچل پردیش کے باشندے ہیںلیکن اردو شاعری میں اپنی ایک پہچان بناچکے ہیں۔اسی طرح دیپک کنول ممبئی میں مقیم ہیں بڑے متاثر کن افسانے لکھتے ہیں۔ویریندر پٹواری دہلی میں ہیں ساری عمر اردو افسانہ نگاری اور ڈراما نویسی میں گزاری۔اسی طرح دیپک بدکی غازی آباد میں رہ رہے ہیں،ایک اچھے افسانہ نگار اور مبصّر کی حیثیت سے ادبی حلقوں میںجانے جاتے ہیں۔اردو خواتین میں اوشابھدرویہ ایک اچھی شاعرہ کی حیثیت سے معروف ہیں۔ان کاتعلق بھوپال سے ہے۔اندراشبنم اندو شاعری کے ساتھ ساتھ افسانے بھی لکھتی ہیں، علی گڑھ کی رہنے والی ہیں۔آشا پربھات کا تعلق بہار سے ہے۔اردو میں ان کا ایک ناول’’دھند میں اگا پیڑ‘‘چھپ چکا ہے اور مسلسل طور پر لکھ رہی ہیں۔رینو بہل،چندی گڑھ جیسے خوب صورت شہر میں رہ کر اردوادب کو اب تک چھ افسانوی مجموعے اور دو ناولوں سے نواز چکی ہیں۔ان کے قلم کی جولانی میں ابھی کوئی فرق نہیں آیا ہے۔یہاں یہ ذہن نشین رہے کہ یہ فہرست مکمل نہیں ہے کیونکہ فہرست سازی راقم الحروف کا مقصد نہیں ہے۔
اسسٹینٹ پروفیسر شعبئہ اردو باباغلام شا ہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
9419336120
(بقیہ بدھ کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)