دلال عرف مجاہد ملت 1916ء میں عیدالفطر کے دن شہر خاص روضہ بل خانیار میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اسلامیہ اسکول سے میٹرک پاس کیا اور پھر ایس پی کالج میں ایف ایس سی کے لئے داخلہ لیا۔ ان کو اپنے ساتھیوں سمیت کئی بار گرفتا کیا گیاکیونکہ وہ گاؤ کشی پر پابندی کے خلاف کافی سرگرم تھے۔1937میں دلال صاحب کافی مقبول ہوئے۔ کچھ شر پسند پنڈتوں کی طرف سے حضور ﷺ کی شان میںگستاخی پر انہوں نے زبردست احتجاج کیا،شہر میں جگہ جگہ تقریریں کیں اور حکام نے ایک بار پھر انہیںگر فتار کیا۔ اس بار وہ گیارہ ماہ بعد عہا کئے گئے۔ دلال صاحب کے والد عبدللہ جو چاہتے تھے کہ ان کا فرزند اپنا خاندانی پیشہ اختیار کریں لیکن انہیں پشمینہ تجارت سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس کے باوجود مہاراج گئج سری نگر میں واقع اپنی دوکان سنبھالی اور اچھے خاصے پشمینہ تاجر بنے مگر مصروفیات کے باو جود انہوں نے تحریکی سرگرمیا ں جاری رکھیں۔اسی دوران نامور حریت پسند عاشق حسین نے 9؍ مئی 1939 کو مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا۔ دلال صاحب پہلے اس کے جواینٹ سیکرٹری اور پھر جنرل سیکر ٹری بنے۔ وہ شعلہ بیان مقرر تھے ، جگہ جگہ جلسے اور تقریریں کر کے ا نہوں نے حکام کی نیندیں حرام کردیں۔ موصوف انجمن نصرت الااسلام کے ممبر بھی بنے اور کئی جگہ قالین بافوں، شال بافوں اور دیگر کاریگروں کے لئے اسکول کھولے جہاں شام کو درس و تدریس کا کام ہوتا تھا۔ ان اسکولوں کے تمام تر اخراجات دلال صاحب خود برداشت کرتے تھے۔ اسی دوران اُنہیں مجاہد ملت کے لقب سے نوازا گیا۔ دلال صاحب کی مقبولیت اور ذہانت دیکھ کر میر واعظ یوسف شاہ صاحب نے انہیں اپنا سیاسی مشیر بنایا ۔ دلال صاحب نے یہ ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھائی۔ میر واعظ کی ہجرت کے بعد ان کی تنظیمی مصروفیات میں کافی اضافہ ہوا۔ دلال صاحب کی شادی انہی ایام میںطے پائی۔ درگجن ڈل گیٹ کے شیخ غلام قادر کی بیٹی سے اُن کا نکاح ہوا جوخود بھی حریت پسند تھیں اور ہمیشہ دلال صاحب کا حوصلہ بڑھاتی رہی۔ قائد اعظم محمد علی جناح 1944میں کشمیر کے دورے پر آئے تو کچھ شرپسندوں نے اُن کے کارواں پر اوڑی کے نزدیک پتھر پھینکے ۔ مسلم کانفرنس ممبران کو یہ حرکت سخت ناگوار گزری اور بدلے کی ٹھان لی۔ اس کے بعد جب جواہر لال نہرو، خان عبدلغفار خان، مولانا آزاد کشمیر آئے۔ شیخ محمد عبدللہ نے ان کے استقبال کے لئے چھتہ بل ویر سے آبی جلوس کا اہتمام کیا۔ مسلم کانفرنس کے ممبراں جن میں محمد یوسف خان پیش پیش تھے ،نے موسیٰ گھاٹ سے نہرو اور دیگر لیڈران پر کوڑا کر کٹ اور جوتے و غیرہ پھینکے۔ بخشی غلام محمد نے اپنے غنڈے ساتھ لے کر مسلم کانفرنس والوں پر حملہ کردیا۔ کئی لوگ زخمی ہوئے جن میں مسلم کانفرنس کے جنرل سیکرٹری قریشی محمد یوسف بھی شامل تھے جب کہ ایک کارکن سلام درزی دم توڑ گیا۔ دلال صاحب کو اس کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا، پانچ سال کی قید سنائی گئی ،البتہ عدالت عالیہ نے اُنہیں بری گر دیا۔ ایک دن جب وہ عالی کدل کے غلام محمد وکیل کے ہاں ٹھہرے تھے پولیس نے چھاپہ مارا،دلال صاحب کھڑکی سے کود گئے۔ وہ گرفتاری سے بچ تو گئے لیکن اُن کو اندرونی چوٹیں لگیںجوجان لیوا ثابت ہوئیں۔ 13؍مئی1951ء کو فوت ہوئے اوررو ضہ بل میں سپر د خاک کئے گئے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ دلال صاحب کو اپنے سیاسی حریفوں نے زہر دے کر مار ڈالالیکن اُن کے مرحوم بیٹے ایڈوکیٹ رئوف صاحب اور رینہ واری کے پروفیسر مر حوم محی الدین شاہ اس کی تردید کر گئے۔ دلال صاحب کے بعد اُن کی بیو ہ کو آغا اشرف علی کی والدہ نے سرکاری نوکری دلادی۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648