خوف اور محبت فطری داعیات ہیں لیکن ’ـــ’خوف خدا‘‘ چیزے دیگر یست۔ خوف خدا انسان کے اندر ایسی لذت آمیزکیفیت پیدا کر نے کا موجب بن جاتا ہے جو قرب الٰہی کا ذریعہ بن جا تا ہے اور جس سے انسانوں کے ساتھ محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ قربِ الٰہی معرفت الٰہی کا محرک بن جاتا ہے اور معرفت الٰہی وہ شئے ہے جو حکمت کو جنم دیتی ہے۔ حکمت سے متعلق ربانی ارشاد ہے کہ’’ جس کو حکمت دی گئی اس کو سب سے بڑا خزانہ دیا گیا‘‘ (البقرہ ۲۶۹)۔ قران کر یم حکمت کو خیر کشیر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جو دل معرفت الٰہی سے منّور ہو اسی کو’ ’دل زندہ‘‘ کہا جاتا ہے۔دل زندہ سے متعلق علامہ اقبال نے کیا خو ب فرما یا ہے ؎
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کرو دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
جو انسان دل زندہ کا پیکر ٹھہرا سمجھ لیجئے کہ اس کے اعضاء و جوارح سے صرف اور صرف نو ع انسانی کے حق میں خہر ہی کا صدور ہو گانہ کہ شر کا۔خو ف خدا سے لا زماً خو ف آخرت پیدا ہو تی ہے اور خوف آخرت کی وجہ سے انسان میں داورِ محشر کے حضور محاسبہ اور جوابدہی کا احساس جا گزیںہو جاتا ہے۔ احتساب کا احساس جذبۂ عمل کو متحرک(activate) کرنے کا نہایت مو ثر عامل ہے۔خو ف آخرت جو خو ف الٰہی کے بطن ہی سے پھو ٹتا ہے، انسان کو نیک عمل، سنجیدہ اور خوداحتسابی کا خوگر بنا تا ہے۔ کسی بھی فعل کا ارتکاب کر نے سے پہلے وہ اس عمل کے عواقب و نتائج پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غوروخوض کر تا ہے تاکہ یوم ِاحتساب پر اسے دوار محشر کے ہاں رسوائی اور ابدی عتاب و سزاکا سامنا نہ کرنا پڑے۔اسلام جو دین فطرت ہے،انسانی سماج کو ایسے ہی سنجیدہ افراد کا مجموعہ بنا دیتا ہے اور ایسا ہی صالح طبع وسنجیدہ مزاج سماج نو ع انسانی کے لئے خیراور صرف خیرکا موجب بن جا تا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسانی معاشرہ خیرو برکت ، مہرو مودت اور سکو ن و طمانیت کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ دُکھی انسانیت ایسے ہی مثالی معاشرہ میں کا مل آسودگی محسوس کرتی ہے ۔ اسلام جیسے آفاقی ، ابدی اورآخری دین ِخداوندی کا منشاء و مقصد ہی ایسے ہی مثالی معاشرہ کا قیام ہے تاکہ انسان اپنے خا لق و ما لک کی بند گی کا سر تا پا مجسمہ بن کر اپنے وجود مقصد کو پورا کرسکے ۔ آج دنیا میں دُکھی انسانیت کا انگ انگ بدی اور برائیوںاور ظلم و عدوان سے بیمار ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ہم اسلام کے دئے اصولوں کے مطابق اپنی ایک ایسی خوش گوار دنیا قائم کریں جس میں اول تاآخر خوف ِخدا اورحُبِ انسانیت پیوست ہو ، جس میںرحمت ورافت کا نظام ہواور عدل و انصاف کی مہک ہو ، جس میں نیک کام کے لئے حوصلہ افزائی کا سلیقہ ہو اور برے کام پر قانون کی سخت پکڑ کا بندوبست ہو ، جس میںمحبتیں ہوں منافرتیں نہیں ، جس میں سکون واطمینان ہو بدامنی ، بے ا نصافی وحق تلفی نہیں ۔ یہ حسین وجمیل دنیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہر فرد کے ضمیر کی ملکیتی زمین پر حُب ِانسانیت اور خوف ِ آخرت کے مٹی گارے سے تعمیر کی تو چشم فلک نے دیکھ لیا کہ انسانیت کس طرح تمام مشکلات ومصائب سے چھٹکارا پاگئی ، خوش حالی کی برکھا کس طرح عرب وعجم میں چھا گئی، تہذیب وتمدن کا سفر کس طرح امن وآشتی کی شاہراہ پر چلتا رہا، کس طرح اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ ؐ کی اتباع سے عالم ِ انسانیت نجات وفلاح سے ہمکنار ہوئی ۔ کلمہ طیبہ کے نام سے موسوم اس دنیا میں آپؐ کا شعار یہ تھا کہ اس کے باشندوں کے لئے ہر حال میں آسانی پیدا ہوں نہ کہ مشکلا ت تاکہ ان کی زندگیاں اللہ کی رحمت کے سائے میں باغ و بہار بن جائیں۔ چنانچہ آپؐ کا فرمان مبا رک ہے کہ’’ آسانی پیدا کرو سختی نہیں، بشارت دو ، نفرت نہ کرو اور بھائی بھائی بن کر آپس میں رہو‘‘ ۔ آج بھی اگر ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زند گی میں خوف ِ خدا،حُب ِانسانیت اورعفو درگزر کو اپنا وظیفہ حیات بنا ئیں گے تو نفرت،انتقام گیری،غصہ ، شرارتیں، قطع تعلق،کبرو غرور، جھو ٹی اناجیسے منفی خصائل جن سے دنیا جہنم زار بن چکی ہے ، ان کی آگیں بجھ جائیں گی ، نیک عملی کے باغ لہلا اٹھیں گے ، اچھائیوں کے کھیت کھلیان سر سبز وشاداب ہوجائیں گے ، احسا س ِ ذمہ داری کے ایوان عدل کے گہوارے بن جائیں گے ، اور ساتھ ہی ساتھ دنیا سے بدیوں اور برائیوں کا یکایک قلع قمع ہو جائے گا ۔اس سے نہ صرف ہماری انفرادی حیات ِمستعار کے ماہ و سال خوش گوار انداز میں گزریں گے بلکہ انسانی معاشرے کی زندگی جنت نظیر ، پُر لطف، مہرو محبت اور مودت و رحمت کی عملی تفسیر بن جائے گی ۔ موٹے طور پر اسلامی معاشرے کی غرض و غایت یہی کچھ ہے اس کی سنگ بنیاد خوف خدا اور حُب انسانیت پر ہے ؎
نہ کہیں جہاں میںاماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
میرے جرم خانہ خراب کو ، ترے عفو بندہ نواز میں
رابطہ9906603748