سوال نمبر1۔ ہمارے یہاں لوگ رمضان المبارک میں زکوٰۃ ،صدقات ادا کرتے ہیں اور اس سب کی بناء پروہ اپنے آپ کو اجر کا مستحق سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند ضروری اور اہم مسائل کا حل فرما دیں تاکہ امت مسلمہ کی یہ مالی امداد انکے اوپر لازم زکوٰۃ و صدقات ان کیلئے ذریعہ نجات بن سکے۔
(۱) زکوٰۃ کے لازم ہونے کیلئے سونے کا کیا نصاب ہے؟
(۲) زکوٰۃ کے لازم ہونے کیلئے چاندی کا کیا نصاب ہے؟
(۳) سونے اور چاندی کے علاوہ دیگر اموال کا نصاب کیا ہے اور ان پر زکوٰۃ کے لازم ہونے کیلئے کیا کیا شرائط ہیں؟
(۴) زکوٰۃ کا مصرف کیا ہے( یعنی زکوٰۃ کن مدوں پر خرچ کی جائے)؟
(۵) کیا زکوٰۃ تعمیرات( چاہئے مسجد کی تعمیر ہو یا درسگاہ کی تعمیر ہو یا کسی فلاحی ادارے کی تعمیر ہو یا سڑک وغیرہ کی) میں خرچ کرنا جائز ہے ؟
سوال نمبر2 کیا اہل مدارس کا چندہ جمع کرنے کیلئے سفیر رکھنا درست ہے۔ اگر ہے تو اسکی کیا حیثیت ہے؟اس سفیر کے ساتھ معاملہ کس طرح کا ہوگا یعنی اس کیلئے یومیہ یا ماہانہ اجرت طے کرنی ہے یا اسکے ساتھ چند فیصد کمیشن طے کرنا صحیح ہے؟ یا اسکے ساتھ یوں معاملہ کرنا صحیح ہوگا کہ ہمیں اتنا جمع کرکے دے دو باقی جتنا تم جمع کروگے چاہئے کم ہو یا زیادہ ہو وہ سب تمہارا ہے۔ ان مذکورہ صورتوں میں کونسی صورت مطابق شرع اور درست ہے اور کونسی صورت خلاف شرع ہے اور جو صورتیں خلاف شرع ہیں کیا ان صورتوں میں زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہو گی یا نہیں۔ نیز یہ رہنمائی بھی فرمائیں کہ اس سلسلے میں سب سے بہترین صورت کیا ہے۔؟
فیاض احمد گنائی
ساکن درد پورہ لولاب
مساجد اور مشاہروں پر زکوٰۃ خرچ کرنا درست نہیں
جواب:۔ زکوٰۃ سونے، چاندی، نقدی رقوم اور اموال تجارت پر لازم ہوتی ہے۔ سونا ساڑے سات تولے یعنی جب سونا 87گرام480ملی گرام ہو یا چاندی612 گرام 360مالی گرام ہو تو زکوٰۃ لازم ہوگی۔ اگر کچھ سونا اور کچھ چاندی ہو تو دونوں کو ملاکر اُن کی قیمت نکالی جائے ۔ اگر قیمت چاندی کے نصاب کے بقدر ہو جائے تو زکوٰۃ لازم ہوگی ۔ اسی طرح نقدی یا مال تجارت کا حکم ہے۔ زکوٰۃ لازم ہونے کیلئے اتنے مال پر سال گذرنا شرط ہے۔ اسی طرح قرض سے بری ہونا بھی ضروری ہے۔زکوٰۃ صرف غرباء و مساکین کا حق ہے۔ چاہئے یہ غرباء گھروںمیں ہوں یا دینی مدارس میں پڑھنے والے طلباء ہوں، بلکہ دینی مدارس کے طلباء پر زکوٰۃ خرچ کرنے کے دو فائدے ہیں۔ ایک ادائیگی فریضہ، دوسرے علماء و ائمہ تیار کرنا، جو اشاعت دین کا کام کریں گے۔ چنانچہ برصغیر کے مدارس اسلامیہ عموماًزکوٰۃ کا بہترین مصرف ہیں۔ زکوٰۃ کی رقم تعمیرات پر ، تنخواہوں پر، فرنیچر خریدنے پر، سٹیشنری پر سڑک یا پُل کی تعمیر پر، کتب خانہ پر ، کارکنان کے مشاہروں پر خرچ کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح مساجد پر بھی زکوٰۃ خرچ کرنا درست نہیں ہے۔جو ادارے زکوٰۃ خرچ کرنے میں شرعی احکام کی پابندی نہیں کرتے اُن اداروں کو زکوٰۃ دینا بھی درست نہیں ہے اور جو لوگ غیر مصرف پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرتے ہیں وہ خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
مدارس کا چندہ… اجارۂ مجہورغیر درست
جواب:۔ مدارس اسلامیہ برصغیر میں حفاظت دین اور اشاعت دین کے سب سے کامیاب اور مفید ادارے ہیں ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مدارس نہ ہوتے تو بر صغیر میں اسلام کی بقاء ہی خطرے میں پڑ جائے گی ۔ مدارس کا سارا مالی نظام صر ف عام مسلمانوں کے چندے پر قائم ہے۔اسلئے اس کیلئے سفیر رکھنا درست بلکہ ضروری ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے اصول ہشتگانہ میں ایک اہم اصول یہی لکھا ہے کہ تکثیر چندہ کی سعی کی جائے لہٰذا سفیروں کا تقرر درست ہے تاکہ چندہ مہم منظم طرح چل پائے۔ لیکن ضروری ہے کہ اس کے لئے سفیر کو باقاعدہ ماہانہ تنخواہ پر مقرر کیا جائے۔
اگر کسی ادارے نے سفیر کا تقرر کمیشن پر کیا۔ مثلاً یہ کہا کہ جتنا چندہ لے کر آئو گے اس میں سے اتنے فیصد چندہ کرنے والے کا اور اتنے فیصد ادارے کا ہوگا۔ تو یہ کمیشن کا چندہ ناجائز اور غیر درست ہے۔
یا اس طرح معاملہ کیا جائے کہ تم چندہ کرکے اتنی رقم ہم کو دلا کر دے دو اس سے زائد جو رقم تم چندے میں جمع کروگے وہ تمہاری ہوگی یہ صورت بھی ناجائز ہے۔جوا دارے چاہئے وہ مدرسہ ہو، یتیم خانہ ہو یا فلاحی ادارہ ہو اس طرح کمیشن مقرر کرکے یا ٹھیکہ کے انداز پر چندہ کراتے ہیں ۔ اُن کا یہ طریقہ شرعاً درست نہیں ہے اس کو شریعت میں اجارۂ مجہور کہا جاتا ہے جو غیر درست ہے۔ چندہ کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ باقاعدہ ملازم رکھ کر اس کی تنخواہ مقرر کرکے پھر چندہ کرایا جائے۔چندہ کی اس کمیشن یا ٹھیکے میں زکوٰۃ ادا کرنے والوں کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی اس لئے جس شخص نے کمیشن کی بھی زکوٰۃ کی رقم خود کے لئے رکھ لی نہ معلوم وہ مستحق زکوٰۃ ہے بھی یا نہیں۔
سوال:۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے نصاب سونا اور چاندی ہے۔ اگر کسی کے پاس 30گرام سونا ، جو کہ سونے کے لحاظ سے نصاب سے کم ہے ،اور اس کے علاوہ نقدی10000روپے اور علاوہ ضرورت10000روپے کی مالیت کے برتن اور علاوہ ازیں ضرورت کے10000روپے مالیت کے بسترے بھی ہیں ،اسکے علاوہ گھر میں ٹی وی ، وی سی آر، کمپیوٹر اور ایک دو گاڑیاں بھی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس شخص کے لئے نصاب سونا بنے گا یا چاندی ۔دو ئم راقم نے سنا ہے کہ زکواۃ کے پیسوں کو سڑک ، تعمیر پل اور بیت الخلاء اور کتب خانے کے کتابوں پر خرچ کیوں نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہ بھی راہ عام کے کام ہیں ایسا کیوں ہے؟
ابو عقیل…..دارپورہ زینہ گیر
زکواۃ: سونا چاندی اور گھریلو ساز وسامان
جواب:۔ گھر کے بستر، برتن ، گاڑی ، واشنگ مشین، فریج، سکوٹر وغیرہ پر زکوٰۃ لازم نہیں ہے۔ زکوٰۃ صرف سونے، چاندی، نقدم رقوم، تجارتی سامان، تجارتی زمین، بھیڑ بکریوں اور گائے بیل پر لازم ہے، اوروہ بھی اس وقت جب شریعت کا مقرر کردہ نصاب بھی پورا ہو ۔اگر کسی کے پاس کچھ سونا مثلاً تیس چالیس گرم، کچھ نقدی رقوم یا کچھ چاندی ہو تو اس صورت میں چاندی کی مقدار 612.360گرام کی جو قیمت ہوگی اگر اتنی قیمت کے برابر سونا اور نقد رقم جمع ہوگئی تو زکوٰۃ لازم ہو جائے گی۔اگر صرف سونا ہو تو 87 گرام 480 ملی گرام اوراگر صرف چاندی ہو تو612 گرام 360 ملی گرام ہونا ضروری ہے. تب زکوٰۃ لازم ہوگی۔ اگر اس سے کم ہو تو زکوٰۃ لازم نہ ہوگی۔زکوٰۃ کی رقوم سڑک پل کی تعمیر میں، مدرسہ یا یتیم خانہ کی عمارت میں، کتب خانے اوررفاہی کاموں میں خرچ کرنا درست نہیں ہے یہ صرف غریبوں کیلئے ہے اور انہی پر خرچ کرنا لازم ہے۔
سوال:۔ دور جدید میں غربت کو بڑھتی آبادی سے منسلک کیا جاتا ہے حالانکہ اسلام نےFamily Planningکو منع فرمایا ہے، اس صورتحال میں شریعت کی رو سے مفصل جواب فرمائیں؟
سید عبدالباسط……قاضی گنڈ اننت ناگ
دولت کی غیر منصفانہ تقسیم غربت کا اصل سبب
جواب:۔ یہ سوچ سراسر غلط ہے کہ آبادی کے بڑھنے اور اس کے پھیلائو کی وجہ سے غربت بڑھ رہی ہے یا غذائی بحران پید ا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم غربت کا اصل سبب ہے ۔چنانچہ ایک رپورٹ کے مطابق دولت کا اسی فیصد حصہ آبادی کے صرف چند فیصد لوگوں کے پاس ہے۔ جو لوگ ارب پتی اور کھرب پتی بنتے ہیںاور اُن کی تعداد بڑھتی رہتی ہے۔ ان ارب پتی افراد کے بڑھنے کی وجہ سے غربت بڑھتی ہے۔ کیونکہ دولت سمٹ کر محدود لوگوں تک پہنچتی ہے تو غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسلام میں اس کا حل بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ غیر اسلامی حصول دولت کے تمام ذارئع کو بند کیا جائے اور پھر جائز ذرائع سے جن کے پاس دولت آئے ان کو زکوٰۃ ،صدقہ ،عشر اور خیرات کا حکم دے کر غریبوں کو اوپر اٹھانے کا حکم دیا گیا۔ اس پوری تھیوری کی کامیابی کا واضح ثبوت خلافت راشدہ کا عہد ہے کہ کس طرح غربت کا خاتمہ ہوا۔ بہر حال فیملی پلاننگ اسلام کے بالکل خلاف ہے اور آبادی بڑھانا اسلام کا پسندیدہ راستہ ہے۔
………………..
سوال: گذارش یہ ہے کہ قرآن کریم بغیر وضو چھونے کی حدیث نقل فرمایئے۔ یہ حدیث کون کون سی کتاب میں ہے اور یہ بتائیے کہ چاروں اماموں میں سے کس امام نے اس کو جائز کہا ہے کہ قرآن بغیر وضو کے چھونے کی اجازت ہے۔ میں ایک کالج میں لیکچرار ہوں، کبھی کوئی آیت لکھنے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس ضمن میں یہ سوال پیدا ہوا ہے۔امید ہے کہ آپ تفصیلی و تحقیقی جواب سے فیضیاب فرمائیں گے ۔
فاروق احمد …لیکچرار گورنرنٹ ڈگری کالج جموں
قرآن کریم کو بلاوضو چھونے کی اجازت نہیں
جواب: بغیر وضو قرآن کریم ہاتھ میںلینا، چھونا،مَس کرنا یقینا ناجائز ہے۔ اس سلسلے میں حدیث ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قرآن کریم صرف باوضو انسان ہی چھوئے۔ یہ حدیث نسائی، دارمی، دارقطنی، موطا مالک صحیح ابن حبان،مستدرک حاکم اور مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن ابی شمبہ میں موجو د ہے نیز بیہقی اور معرفتہ السنن میں بھی ہے۔
شیخ الاسلام حضرت علامہ ابن تیمیہؒ کے فتاویٰ میں ہے کہ حضرت سے کسی نے سوال کیا کہ کیا بلاوضو قرآن کریم کو مس کرنا جائز ہے تو آپ نے جواب میں فرمایا:
چاروں اماموں کا مسلک یہ ہے کہ صحیفۂ قرآنی کو صرف وہ شخص ہاتھ لگائے جو باوضو اور طاہر ہو جیسے کہ اس مکتوب گرامی میں حکم تھا جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن حزمؓ کو لکھا تھا کہ قرآن کریم کو بلاوضو ہرگز نہ چھونا۔علامہ ابن تیمیہ نے آگے فرمایا کہ حضرت امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت نبی علیہ السلام نے عمرو بن حزم کو یہ لکھا تھا۔ یہ حضرت سلمان فارسی اور عبد اللہ بن عمر نے بھی یہی فرمایا ہے اور صحابہ میں سے کسی نے بھی اس رائے سے اختلاف نہیں کیا۔
پھر علامہ ابن تیمیہ سے پوچھاگیا:اگر کوئی شخص بے وضو ہو اور وہ اپنی آستین سے قرآن کریم کو اُٹھائے تو کیا یہ جائزہے؟ اس پر علامہؒ نے جواباً فرمایا:اگر انسان نے صحیفۂ مبارک اپنی آستین سے پکڑا ہو تو کوئی حرج نہیں مگر ہاتھ ہرگز نہ لگائے۔فتاویٰ کبریٰ۔بہرحال قرآن کریم ہرگز بلاوضو نہ چھوا جائے۔
خود قرآن کریم میں ارشاد ہے ترجمہ:قرآن کو مَس نہیں کرتے مگر پاک مخلوق(فرشتے) اس آیت کے متعلق تمام مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ فرشتوں کے بارے میں ہے۔جب فرشتے معصوم، تمام گناہوں کی گندگی سے بھی اور جسمانی نجاستوں سے بھی پاک مخلوق ہیں، ان کے متعلق کہاگیا کہ وہ پاک، مطہر اور منزہ مخلوق اس کو مس کرتی ہے تو اس سے خودبخود یہ معلوم ہوا کہ گناہوں کی پلیدی اور پیشاب پاخانہ کی نجاست میں ملوث ہونے والا انسان بھی قرآن کو پاک منزہ ہو کر ہی مس کرے لہٰذا باوضو با غسل ہو کر ہی قرآن کریم کو چھواجائے۔ ہاں اگر زبانی تلاوت کرنی ہو تو پھر وضو لازم نہیں ہے۔علامہ ابن تیمیہ کے مذکورہ ارشادات فتاویٰ ابن تیمیہ جلد 21میں ہیں جو ان کی شہرہ آفاق کتاب اور علوم اسلامیہ کا خزانہ ہے۔
lllll