حکومتی مشینری میں بیرو کریسی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اور یہ بیروکریٹ ہی ہوتے ہیں جو فیصلہ ساز اداروں میں تعینات ہوتے ہیں ۔اعلیٰ عہدوں پر فائض بیروکریٹ حکومت کے وہ کل پرزے ہوتے ہیں جن کے بغیر اس انتظامی انجن کا چلنا محال ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ بیروکریسی انتظامی بندو بست کیلئے آکسیجن کی مانند ہے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ عملی طور پر یہی بیروکریٹ حکومت کو چلاتے بھی ہیں اور حکومت کے کام کاج کی دیکھ ریکھ بھی کرتے ہیں۔جہاں تک ریاست جموںوکشمیر کی بیروکریسی کا تعلق ہے تو ہماری بیروکریسی کیلئے بھی یہی حقائق صادق آتے ہیں تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بیروکریسی کے حوالے سے یہاں ماضی بعید سے ایک قضیہ چلا رہا ہے جو حل ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے اور اس قضیہ کے چلتے اب جو صورتحال ابھر کر سامنے آرہی ہے ،وہ انتہائی تشویشناک ہے ۔خصوصی آئینی مقام رکھنے کی وجہ سے ریاست کا بہت پہلے سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ بیروکریسی میں ریاستی امیدواروں کیلئے نصف کوٹامختص رکھاجائے تاہم ایسا کبھی نہیں ہوا جس کے نتیجہ میں بیشتر اوقات ریاستی بیروکریسی پر غیر ریاستی آفیسروں کا غلبہ رہا اور اس وقت بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے بلکہ اب کے جو تصویر ابھر کر سامنے آرہی ہے ،وہ انتہائی پریشان کن ہے ۔یہ کس قدر پریشانی کی بات ہے کہ فیصلہ ساز اداروں میںمجموعی طور پر 217اسامیوں پر کشمیر کے امیدواروں کی تعداد محض31رہ گئی ہے ۔بھلے ہی گزشتہ چند برسوں سے سیول سروسز امتحانات پاس کرنے والوں کو یہاں رول ماڈل کے طور پیش کیاگیاتاہم زمینی صورتحال یہ ہے کہ ہر سال کشمیر سے کئی نوجوانوں کی سیول سروسز میں شمولیت کے باوجود ریاستی بیروکریسی میں کشمیری افسران کی تعداد بتدریج گھٹ رہی ہے۔جہاں تک انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس یاIASکا تعلق ہے تو اس ضمن میں ریاست کیلئے منظور شدہ اسامیوں کی تعداد74ہے تاہم کشمیر کے صرف14افسران ہی آئی اے ایس کیڈر میں شامل ہیں ۔اسی طرح انڈین پولیس سروس یاIPSمیں منظور شدہ 77اسامیوں میں سے کشمیری امیدواروں کی تعداد محض9ہے جبکہ انڈین فارسٹ سروس یاIFSمیں منظور شدہ 66اسامیوں میں سے محض8کا تعلق کشمیر خطےسے ہے اور صورتحال کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ اس سال ستمبر کے آتے آتے 31افسران کی یہ قلیل تعداد مزید گھٹ کر 20رہ جائے گی کیونکہ باقی افسران ملازمت سے سبکدوش ہونے والے ہیں۔ فیصلہ ساز عہدوں پر تعیناتی کی یہ غیر متوازن شرح انتہائی خطرناک ہے اور اس کے دور رس اثرات نکل سکتے ہیں کیونکہ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح غیر ریاستی بیروکریسی نے کشمیر کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ہی الگ دنیا بسانے کی کوشش کی ۔مقامی افسران کی کمی کے نتیجہ میں یقینی طور پر ورک کلچر بھی متاثرہوگا کیونکہ غیر مقامی افسروں میں وہ جذبہ نہ ہوگا جو مقامی افسر وںمیں ہوتا ہے۔گو موجودہ تشویشناک صورتحال کیلئے کئی وجوہات ذمہ دار قرار دی جارہی ہیں تاہم اس پریشان کن صورتحال کی بڑی وجہ دلّی کی ہٹ دھرمی ہے جس نے کبھی بھی بیروکریسی میں مقامی و غیر مقامی افسران کے تناسب کو ہم آہنگ نہیں ہونے دیا بلکہ ایک منصوبہ کے تحت یہاں بیروکریسی امپورٹ کی جاتی رہی ہے جسکے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ کے اے ایس یا کشمیر ایڈمنسٹریٹیو سروس کے افسران کو آئی اے ایس میں انڈکٹ کرنے میں مسلسل لیت و لعل سے کام لیاجارہا ہے اور یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے کہ آئی اے ایس کیڈر میں کشمیری افسران کا تناسب نہ ہونے کے برابر رہا ہے ۔جہاں تک پولیس فورس کا تعلق ہے تو دفتر داخلہ کی عدم توجہی کی وجہ سے2010سے IPSکیڈر میں KPSافسران شامل ہی نہیں ہوپائے اور ایسا ہی کچھ IFSکا بھی ہے جہاں ایک منصوبہ کے تحت1984سے2011تک اسسٹنٹ کنزرویٹر فارسٹس کی اسامیوں پر بھرتیاں ہی نہیں ہوئیں اور نتیجہ کے طور پر کوئی بھی مقامی افسر IFSکیڈر میں شامل ہونے کے اہل ہی نہیں بن سکا ۔حکمران پی ڈی پی جب اپوزیشن میں تھی تو اس جماعت نے کیڈر پر نظر ثانی کی بڑی وکالت کی تھی لیکن آج جبکہ یہ جماعت بر سراقتدار ہے تو اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس غیر متوازن تناسب کو ختم کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ بیروکریسی میں کشمیری افسران کی شرح اگر زیادہ نہیں تو کم از کم قابل ذکر ہو تاکہ فیصلہ سازی کے عمل میں کشمیری شریک رہیں ورنہ صورتحال یہیں تک پہنچے گی کہ ہماری قسمت کے فیصلے غیر ریاستی بیروکریٹ کریں گے اور ہمیں آنسو بہانے کیلئے چھوڑ دیا جائے گا ۔ابھی بھی وقت ہے کہ ارباب بست و کشاد ہوش کے ناخن لیں او ر اس سنگین صورتحال کا کوئی فوری سدباب کریں تاکہ کشمیری عوام کو یہ احساس دلایا جاسکے کہ انہیں جان بوجھ کر فیصلہ سازی کے عمل سے محروم نہیں کیاجارہا ہے بلکہ انہیں اس میں شریک کیاجارہا ہے ۔اگر محرومی کا احساس غالب آیا تو یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہوگی ۔اسی لئے بہتری اسی میںہے کہ اصلاح احوال سے کام لیا جائے اور ہنگامی بنیادوںپر کیڈررویو کیا جائے اور اس غیر متوازن تناسب کو متوازن بنایا جائے تاکہ سیول سیکریٹریٹ میں مقامی بیروکریٹ بھی نظرآسکیں۔