حضرت میرواعظ کشمیر مولانا محمد یوسف شاہ مرحوم، میر واعظ علامہ رسول شاہ ثانیؒ(جوبانی انجمن نصرۃ الاسلام کے دوسرے فرزند تھے) جو۱۳۱۳ھ شعبان المعظم کو تاریخی میرواعظ منزل سرینگر میںپیدا ہوئے۔
اپنی تعلیم کا آغاز اپنے نامور والد ،محسن قوم، سرسید کشمیر علامہ رسول شاہ صاحب ؒ سے کیا اور والد محترم اور عم مکرم کی نگرانی میں ابتدائی تعلیم کی تکمیل کی۔ خاندان کے ان بزرگوں کے علاوہ تفسیر و حدیث، فقہ ، اصول فقہ، صرف و نحو، معانی و بلاغت، منطق و فلسفہ اور تاریخ و ادب کی بہت سی کتابیں کشمیر کے نامور عالم دین مرحوم مولانا محمد حسین شاہ صاحبؒ وفائی سے پڑھیں۔ آپ ؒ کشمیر کے پہلے میر واعظ ہیں جو مزید حصول علم اور تکمیل فنون کیلئے کشمیر سے باہر تشریف لے گئے اور ازہر ہنددارالعلوم دیوبند میں شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ اسیر مالٹا اور امام العصرمحدث کبیر علامہ انور شاہ صاحب کشمیریؒ کے علاوہ اکابر اساتذہ علم و فن سے مسلسل آٹھ سال تک پور ے انہماک اور لگن کے ساتھ اپنی علمی پیاس بجھاتے رہے، آپ کے خاندان کے ساتھ تعارف اور زبردست دینی خدمات کے پیش نظر علامہ کشمیریؒ نے آپکی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ دی اور مرحوم میر واعظ نے ایک لمبی مدت تک اس چشمئہ علم و عرفان سے سیراب ہو کر فاضل دیوبند کی انتہائی سند لے کر وطن عزیز کا رْخ کیا، آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کی اعلیٰ سند بھی حاصل کی۔
میر واعظین کشمیر کی نگرانی میںمروجہ تعلیم کیلئے اسلامیہ ہائی سکول اور اس کے ماتحت تعلیمی درسگاہوں کے علاوہ ایک دینی درسگاہ مدرسہ عربیہ کی صورت میں قائم تھا۔ جو ابتدائی کتابیں شائقین کو پڑھانے کا انتظام کرتی تھی۔ جب مولیٰنا دیوبند سے تشریف لائے تو اپنے اکابر کے مشورہ کے بعد اس درسگاہ کو ترقی دے کر اس میں مولوی ، مولوی فاضل، منشی، منشی عالم اور منشی فاضل کے درجے قائم کئے اور اس کانام اسلامیہ اورینٹل کالج رکھا اور اس درسگاہ میں تشنگان علم کو قرآن و حدیث ، تفسیر و فقہ ، صرف و نحو فلسفہ و منطق اور تاریخ و ادب کے علوم و فنون کے درس و تدریس کا خاطر خواہ انتظام کر کے ریاست میں عربی اور فارسی علوم کو فروغ دیا اور اس طرح ریاست میں اماموں ، خطیبوں، معلموں اور مبلغوں کی تربیت یافتہ جماعت تیار کر کے ایک عظیم مثبت اور گراں قدرر خدمت انجام دی۔ اس کے علاوہ قصبہ بجبہاڑہ میں حضرت میر واعظ مرحوم نے دارالعلوم شرقیہ کی بنیاد ڈالی۔ جو آج کل اسلامیہ ہائی سکول نصرۃ الاسلام بیج بہاڑہ کے نام سے مشہور ہے اور کام کر رہا ہے۔ اور اسلام آباد میں بھی ایک سکول کی بنیاد ڈالی اور وہاں بھی آج کل انجمن نصرۃ الاسلام کے نام سے ایک ہائی سکول کام کر رہا ہے۔
میر واعظ مرحوم کے دارالعلوم دیوبند کے زمانہ قیام میں پورے ملک میں ’’تحریک خلافت‘‘ پورے زور اور شباب پر تھی۔ دیوبند کے اساتذہ اور طلبہ کی ایک بھاری جماعت عملاً اس تحریک میں پیش پیش تھی۔ میر واعظ مرحوم کا اس وقت کے حالات ، جذبات کیفیات اور ملت اسلامیہ ہند پر اس کے نتائج و ثمرات جو مرتب ہو رہے تھے اور متحدہ بھارت میں تحریک جس تیزی کے ساتھ رواں دواں تھی۔اس سے مولانا مرحوم کا متاثر ہونا قدرتی اور فطری امر تھا۔ چنانچہ ۱۹۲۵ میں جب آپ وطن تشریف لائے تو یہاں بھی ڈوگرہ شاہی مظالم کے خلاف لوگوں میں سیاسی بیداری پھیلانے کی خاطر لوگوں میں باقاعدہ جدوجہد شروع کی اور اس مقصد کے لئے خلافت کمیٹی کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس سے یہاں کے پچھڑے ہوئے عوام اور مظلوم لوگوں میں سیاسی شعور ، فکری بالیدگی اور احساس کی بلندی پیدا ہوئی ، اگرچہ اس تنظیم کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔اس کی بنیادی وجہ کیا تھی ، سراغ لگانے سے پتہ چلتا ہے کہ عوام کی اکثریت جہالت،ناخواندگی اور عدم واقفیت کی دلدل میں پھنسی ہوئی تھی۔ ان کی ذہنی سطح اس حد تک بلند نہیں تھی کہ وہ اپنے مستقبل اور وسیع تراجتماعی اور ملی مفادات کے تئیں ذرا اونچااٹھکر سوچتے، لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ۱۹۱۳ء میںریا ست میں جو سیاسی دھماکہ ہوا۔ اس کی خشت اوّل یہی خلافت کمیٹی تھی اور جس تحریک نے گذشتہ نصف صدی میں کئی ہنگامہ خیز مرحلے طے کئے اور آج کشمیری عوام اپنی تاریخی اور منصفانہ جدوجہد میں بے مثال جانی اور مالی قربانیاں دیکر حصول مقصد کیلئے غاصب قوتوں کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ اس کے بانی حضرت میر واعظ مرحوم مجاہد اول ہی تھے۔
۱۹۳۱میں سیاسی تحریک کو منظم طور چلا نے کے لئے خانقاہ معلی سرینگر میں ’’مسلم مجلس نمائندگان‘‘ جس میں سات نمائندے صوبہ کشمیر اور چار جموں سے منتخب کئے گئے، کی بنیاد رکھی گئی، تو اسکی صدارت کی ذمہ داری بھی آپ ؒ نے ہی سنبھالی، اس تنظیم نے ۱۹۳۱ء اور ۱۹۳۲ء کے درمیان حکومت اور عوام کے مابین تمام معرکے لڑے اور گلانسی سفارشات ، مڈلٹن کی تحقیقات، پریس پلیٹ فارم، انجمن سازی، اسمبلی کا قیام اوردوسرے تمام حقوق، جو مسلمانوں کو حاصل ہوئے ، وہ سب اسی مدت میں حاصل ہوئے اور یہی وہ رعایات تھیں جن کا استفادہ ۱۹۴۷ء تک کیا جاتا رہا۔
اسی طرح اوقاف اسلامیہ حضرت بل اور جامع مسجد سرینگر کے نظم و انتظام میں میر واعظ مرحوم نے بنیادی اور کلیدی رول ادا کیا۔ ۱۹۳۲ میں جب تحریک حریت کشمیرکو منظم طور چلانے کے لئے جموں و کشمیر مسلم کانفرنس قائم کی گئی تو مولانا مرحوم برابر اس میں شریک رہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اگر مولانا مرحوم بحیثیت میر واعظ کشمیر اپنے بے پناہ اثر و رسوخ اور عام لوگوں کی تائید کو اس تحریک کے لئے بھر پور تعاون کا قلعہ نہ بنا دیتے تو حکومت وقت کا تشدد پہلے ہی مرحلہ میں اس تحریک کو لقمہ اجل بنا ڈالتی۔قائد کشمیر حضرت شہید ملت میر واعظ مولوی محمد فاروقؒ حریت و صداقت کے اس پلیٹ فارم سے کشمیر کاز کی حمایت میںزندگی کے آخری لمحات تک پْر عزم زور دار اور بے باک آوازبلند کر کے مظلوم اور نہتے کشمیریوں کی ترجمانی کرتے رہے۔ جس کی شہادت آج جامع مسجد کے بلند مینار اور درو دیوار بھی دے رہے ہیں۔۱۹۳۹ء میں جب مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میںتبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلم کانفرنس کے متعدد سرکردہ رہنمائوں خاص طور پرمرحوم چودھری غلام عباس خان، چودھری حمید اللہ خان ، محمد یوسف قریشی، اللہ رکھا ساغر ،مرحوم نے نیشنل کانفرنس کو چھوڑ دیا۔ ان تمام رہنمائوں نے مل کر میر واعظ مرحوم کے مشورہ اور سرکردگی میں از سر نو مسلم کانفرنس قائم کی۔ اس کو چلانے کا سارا کام مولانا مرحوم ہی کرتے رہے اور مولوی محمد امین صاحب مرحوم (شہید ملتؒ کے والد محترم) اس کے روح رواں رہے۔ تحریک آزادی کے اس مرد مجاہد نے ۱۹۳۲ تک شخصی راج کے خلاف اپنی جدوجہد برابر جاری رکھی اور اس دوران طرح طرح کے مصائب و آلام سہے اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔حضرت میر واعظ مرحوم زمانہ کے تقاضوں کو سمجھنے کی بھر پور خدا داد صلاحیت رکھتے تھے۔ آپ نے محسوس کیا کہ مظلوم قوم کے آہ و فغان کو دور دور تک پہونچانے کے لئے ایک چھاپ خانہ(پریس) کی ضرورت ہے، ایسا کرنا اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ بیرونی پریس کشمیر کی تحریک کے صحیح حالات کوشائع کرنے کے بجائے واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے جس سے تحریک کو بے حد نقصان پہونچتا ہے۔ آپ نے فوراً ایک پریس خرید لیا۔ یہ جموں و کشمیر میں پہلا قومی پریس تھا۔ اس کے فوراً بعد’’الاسلام ‘‘ کے نام سے ایک’’سہ روزہ اخبار جاری کیا جو اسی پریس میںچھپتا تھا۔ اخبار کی ادارت کا کام پنجاب کے مشہور ادیب علامہ حسین میر کو سونپا۔ چند سال بعد ایک اور اخبار’’رہنما‘‘ کا اجرا بھی عمل میں لایا۔ اس کے مدیر اعلیٰ مولانا نورالدین صاحب تھے۔ دونوں اخبار بے باکانہ طور پر ملک و ملت کی خدمت انجام دیتے رہے۔ لیکن جبر وتشدد کے ہاتھ بار بار ان کا گلہ دباتے رہے۔ اس لئے وہ اپنے وجود کو زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ سکے اور یہ دونوں اخبار سرکاری عتاب کی نذر ہو گئے۔
اب تک ۱۹۲۵سے لے کر۱۹۴۶ تک مرحوم میر واعظ کی زندگی کا مختصر سا خاکہ پیش کیا گیا۔ اب مرحوم کی زندگی کا دوسرا اورآخری دور اس وقت سے شروع ہوتا ہے۔جب ۱۹۴۶ء میں آپ کو وطن عزیز سے ہجرت کرنا پڑی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے عوام جن میںکانگریس جس کی سربراہی مہاتما گاندھی کر رہے تھے اور مسلم کانفرنس جس کی قیادت قائد اعظم محمدعلی جناحؒ کر رہے تھے، آزادی کے لئے بے پناہ قربانیاں دےرہے تھے اور ظلم و ستم برداشت کرتے آئے تھے، جب آزادی کا آخری مرحلہ قریب آگیا تھا اور ملک کی تقسیم منظر عام پر آرہی تھی۔ ملک کی آزادی کے ساتھ ساتھ کچھ ریاستوں جن میںریاست جموں و کشمیر بھی تھی اور جوانگریز دو ر حکومت میںکچھ راجوں اور مہاراجوں کی ذاتی ملکیت بنی ہوئی تھی تقسیم ملک کے دوران طے پایا گیا تھاکہ ان کا فیصلہ ان ریاستوں کے عوام ہی کریں گے۔ اس سلسلہ میںریاست جموں و کشمیر میںمسلم اکثریت کے پیش نظر قائد اعظم محمد علی جناح نے ۱۹۴۷ء سے پہلے ریاست کا دو بار تفصیلی دورہ کیا اور یہاں پر مرحوم میر واعظ ؒاور انکے دیگر رفقا سے ریاست کے مستقبل کے بارے میں بات چیت کی۔قائد اعظم ؒ کی ریاست میں آمد اور میر واعظ کشمیرؒ کے ساتھ ان کی گفت و شنید سے بعض عناصر اور مفاد پرست قوتیں مرحوم میر واعظ کی زبردست درپے ہو گئیں۔ چنانچہ مرحوم میر واعظ کو بعض ذرائع سے معلوم ہوا کہ ریاست میں سازش کا یک گہرا جال بچھایا جا رہا ہے، اس لئے وہ آزادی وطن، آزادی ملت اور آزادی قوم کی خاطر ایک عظیم جدوجہد کے پیش نظر اپنے وطن عزیز سے مہاجرت کر گئے۔میر واعظ مرحوم کی ہجرت کے بعد اس وادی گلپوش میں میرواعظ کے حامیوں اور محبوں کے ساتھ ظلم و ستم اور جبر و قہر کا یہ عالم تھا کہ انکے حامیوں کو رسیوں سے جکڑ کر شہر سرینگر میں بے شمار قائم کردہ تفتیشی مراکز میں ذہنی اور جسمانی اذیتیں پہنچائی جاتی تھیں۔ حد تو یہ ہے کہ مرحوم میرواعظ کی رہائش گاہ میرواعظ منزل کو سرکاری طور پر باقاعدہ مقفل کر دیاگیا اور کشمیر کے سب سے بڑے دینی مرکز جامع مسجد کے منبر و محراب کو خاموش کر دیا گیا۔پْر عزیمت زندگی کایہ دور بھی انتہائی تلخ اور صبر آزما رہا ہے۔ اگرچہ آپ آزاد کشمیر میںقائم شدہ حکومت کی وزارت تعلیم کے سربراہ کے عہدہ جلیل کے مرتبہ پر فائز کئے گئے اور بعد میں آزاد کشمیر حکومت کے صدر بھی بنائے گئے۔لیکن ان بڑے اور قابل فخرعہدوں پر رہ کر بھی اپنے دل دردمنداور فکر ارجمند کو اطمینان نہ دے سکے اور ریاست کے دونوںحصوں کی مکمل آزادی اور کشمیریوں کوعزت کامقام دلوانے کیلئے ہر وقت کوشان رہتے اور تمام عمر حق و انصاف کی آواز بلند کرتے رہے۔آزادی وطن کا یہی بے پناہ جذبہ تھا کہ حضرت مرحوم نے ۱۹۶۴ء میں مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک اور برطانیہ کے علاوہ مسلم ممالک کا دورہ کیا اور کشمیری عوام کا موقف واضح کر کے مسئلہ کشمیر کے پُر امن، مستقل حل ، وطن کی آزادی اور ریاستی عوام کے حق خودارادیت کے حصول کے لئے عالم اسلام کا تعاون حاصل کرنے کے لئے بھر پور کوششیں کیں۔عزم و ہمت اور اخلاق ومروت کے اس پیکر زیبا نے ۷۶ سالہ مصروف زندگی گذار کر۱۶ رمضان المبارک ۱۳۷۹ھ بروز شنبہ روزہ داری کی حالت میںعین افطا ر کے وقت راولپنڈی پاکستان میں داعی اجل کو لبیک کہہ کر جان جانِ آفرین کے سپرد کی اور ا س طرح عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ ملت اسلامیہ کے اس عظیم مجاہد اور قائد جلیل کی تربت پر رحمت و نور کی بارش برسائے اور ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ع
این دعا ازمن و از جملہ جہاں آمین باد