سرینگر// 90عشرے کے ابتدائی ایام کے دوران خانیارسرینگرمیں پیش آئے خونین واقعہ پر پولیس نے 27برس بعدمحکمہ داخلہ سے ملزموں کے خلاف قانونی کاروائی کی منظوری طلب کی ہے۔ ریاستی پولیس سربراہ نے کہا ہے کہ اس کیس کو محکمہ داخلہ کو منظوری کیلئے بھیج دیا گیا ہے،تاکہ ملزموں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جاسکے۔ ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کی طرف سے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں پیش کی گئی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے’’کیس کو محکمہ داخلہ کے سامنے پیش کیا گیا ہے،تاکہ کیس زیر آیف آئی آر نمبر41/1991زیر دفعات 302,307,109 آر پی سی7/27ایمونیشن ایکٹ،پولیس تھانہ خانیار میں درج کیا گیا ہے،کے ملزموں کے خلاف کاروائی کی منظوری مل سکے‘۔‘اس سے قبل خانیار واقعے سے متعلق انسانی حقوق کارکن محمد احسن اونتو نے فروری2013میں کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ایک عرضی دائر کی تھی،جس میں کہا گیا’’ مذکورہ دن جب لوگ داچھی گام واقعے اور سعدہ کدل میں جان بحق لوگوں کی نعشوں کو سپرد خاک کرنے کیلئے لئے جا رہے تھے،تو علاقے میں موجود فورسز اہلکاروں نے اندھا دھند فائرینگ کی جس کے دوران 20افراد جان بحق جبکہ52زخمی ہوئے‘‘۔درخواست میں کہا گیا ’’ اس واقعے میں ایک شیر خوار بچہ،جس کی عمر2سال تھی،کے علاوہ اس کا والد بھی گولیوں سے جان بحق ہوا،جبکہ ایک ہی کنبے کے4 افراد بھی ہلاک ہوئے،جنکی لاشیں رات دیر گئے تک مسجد میں رہیں‘‘۔ عرضی گذارنے کہا کہ اس واقعے میں مرنے والوں کی تعداد کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا،جبکہ انہیں بعد میں بڑی مشکلات سے سپرد لحد کیا گیا،اور انتظامیہ نے مہلوکین کے مذہبی رسومات کو ادا کرنے کی اجازت تک نہیں دی۔ عرضی گذار نے مزید کہا کہ واقعے کے کچھ دیر بعد جب لوگوں نے گھروں کی راہ لی،تو نوہٹہ سے آنے والے فورسز اہلکاروں نے ان پر بھی فائرینگ کی،جس کی وجہ سے مزید ہلاکتیں ہوئیں اور کچھمزید لوگ زخمی ہوئے۔ عرضی میں کہا گیا کہ اس واقعے میں5خواتین بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔کمیشن نے گزشتہ سماعت کے دوران کہا تھاکہ پولیس سربراہ نے’’ تقریباً ملزمان(فورسز) کی غلطی کا اعتراف ہے،اور اس سلسلے میں کاروائی ہی باقی ہے‘‘۔شہر کے خانیار علاقے میں27 برس قبل ہوئے قتل عام سے متعلق کے نسبت سے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں سماعتکے دوران کمیشن کے ممبر عبدالحمید وانی نے واضح کہا کہ کمیشن کو ریاستی پولیس سربراہ اور محکمہ داخلہ کے درمیان ابتدائی خط و کتابت سے کوئی بھی سروکار نہیں بلکہ اس بات میں دلچسپی رکھتی ہے،کہ متاثرین کو انصاف ملے۔انہوں نے مزید کہا’’ یہ کیس اتنا پرانا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ،اور اس کیس کا کسی فرد کی طرف سے کیس کا تعاقب نہ کرنیکی وجہ سے ممکنہ طور پر فرسودہ ہوچکا ہے‘‘۔ کمیشن کے ممبر عبدالحمید وانی نے کہا تھاکہ اس حقیقت کے باوجود ریاستی پولیس کے سربراہ نے انسپکٹر جنرل کی رپورٹ زیر نمبر PHQ/SHRC-63/2013/4119 محرر16 جنوری 2018 کی بنیاد پر تقریباً ملزمان کی غلطی کا اعتراف کیا ہے،اور صرف اب محکمہ داخلہ کی طرف سے رسمی منظوری کے انتظار میں اب تک کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ ممبر کمیشن نے سرکار پر زور دیتے ہوئے کہاتھا’’ حکومت،بشمول محکمہ داخلہ و ڈائریکٹر جنرل پولیس کو،قانونی کاروائی عمل میں لانے کیلئے منظوری کے عمل میں تیزی لانے کی ضرورت ہے‘‘،بصورت دیگر پولیس کے مختلف افسران اور محکمہ داخلہ کے درمیان خط و کتابت کیلئے محض مداخلت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس سے قبل سرینگر کے خانیارعلاقے میں8مئی1991کو فورسز کی فائرینگ سے ہوئی ہلاکتوں پر بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں پولیس نے15جنوری کو تازہ رپورٹ پیش کی،جس میں کہا گیا کہ اس سانحہ کے حوالے سے تحقیقات مکمل کر کے چالان پیش کیا گیا،جبکہ فائل کو محکمہ داخلہ کے سامنے پیش کیا گیا،تاکہ سرکار ک طرف سے منظوری ملے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا’’ محکمہ داخلہ سے یہ کیس کچھ تاثرات اور سوالات کے ساتھ واپس بھیج دیا گیا،جبکہ ان کے جواب دیکر،فائل کو ایک مرتبہ پھر محکمہ داخلہ کے پاس سرکار کی طرف سے منظوری دینے کیلئے روانہ کیا گیا‘‘۔ پولیس کی طرف سے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں پیش کئی گئی رپورٹ میں کہا گیا محکمہ داخلہ کی طرف سے ایک مرتبہ پھر اس فائل کو14دسمبر2017کو واپس بھیج دیا گیا، اور ایف آئی آر، گواہوں کے بیانات،حتمی رپورٹ اور کیس میں شامل دیگر مواد کو انگریزی میں ترجمہ کرکے بھیجنے کی ہدایت دی گئی۔رپورٹ کے مطابق آئی جی پی کشمیر کی طرف سے محکمہ داخلہ کو مذکورہ فائل متعلقہ دستاویزات کا ترجمہ مکمل کرنے کے فوری بعد ایک مرتبہ پھر پیش کی جائے گی۔