اساتذہ کو منسلک کرنے پر تعیناتی محکمہ تعلیم کے لئے ایک ایسا مسئلہ بن گیاہے جسے بارہا کوششوں کے باوجود بھی سلجھایا نہیںجاسکا اور اسی وجہ سے دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں قائم سکولوں کو تدریسی عملے کی شدید قلت کاسامناہے، جس کا نتیجہ براہ راست طلباء کی تعلیم و تربیت اور امتحانی نتائج پرپڑتاہے ۔سیاسی اثرورسوخ کی بناپر ہزاروں اساتذہ نے گائوں دیہات سے خود کو شہروںمیں منسلک کروا رکھا ہے اور محکمہ تعلیم چاہ کر بھی ان کی یہ اٹیچ منٹ ختم نہیں پایا ہے ۔حالانکہ وقت وقت ان اٹیچ منٹوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں ختم کرنے کیلئے کئی حکمنامے بھی جاری ہوتے رہے ہیں لیکن یہ عمل کم ہونے کے بجائے مزید فروغ پارہاہے ۔اٹیچ منٹوں پر اساتذہ کی تعیناتی کی سنگینی کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ محکمہ کے وزیر کو بھی خود یہ انکشاف کرناپڑاکہ جموں و سرینگر شہروںمیں پانچ سے چھ ہزار سے زائد اساتذہ اٹیچ منٹ پر تعینات ہیں۔وزیر موصوف کا بھی یہ مانناہے کہ محکمہ تعلیم میں بہت سارے مسائل کی وجہ یہی غیر قانونی اٹیچ منٹیں ہیںتاہم اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ وہ کس طرح سے ان کو ختم کرکے ٹرانسفرکے عمل میں معقولیت لائیںگے اور دوردراز علاقوںمیں چل رہے سکولوں میں تدریسی عملہ کی قلت کا مسئلہ حل ہوگا۔واضح رہے کہ دو روز قبل راجوری میں ذرائع ابلاغ کے نمائندگان سے بات کرتے ہوئے ریاستی وزیر تعلیم نے کہاتھاکہ جموں اور سرینگر شہروں میں پانچ سے چھ ہزار سے زائد اساتذہ اٹیچ منٹوں پر تعینات ہیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو محکمہ کے لئے دور دراز علاقوں کے سکولوں کیلئے تدریسی عملے کی کوئی قلت نہیں ہوتی۔ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اٹیچ منٹوں پر تعینات ہونے والے اساتذہ کی کارکر دگی عام طور پر مایوس کن ہوتی ہے۔ وہ گائوںسے بھاگ کر بہتر آسائش زندگی اور اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کیلئے شہروں میں پناہ تو لیتے ہیں لیکن شہروں کے سکولوں میں بھی ان کی خدمات قابل ذکر نہیں ہوتیں ۔وہ سیاسی طور پربااثر ہوتے ہیں اور اسی کی وجہ سے انہیں اپنے اصل فرائض کی زیادہ پرواہ نہیں ہوتی ۔اس کی واضح مثال راجوری قصبہ کے دو ہائراسکینڈری اور پسماندہ تعلیمی زون منڈی ہے ۔جہاں راجوری کے بائز وگرلز ہائراسکینڈری سکولوں میں 99ملازم تعینات ہیں وہیں منڈی کے ساوجیاں علاقے میں قائم 24مڈل سکولوںمیں محض تین ہیڈ ماسٹر تعینات ہیں جبکہ باقی تمام سکول ہیڈ ماسٹروں کے بغیر چل رہے ہیں ۔تاہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان دوسکولوں میں تعینات عملے کو سالانہ ساڑھے پانچ کروڑ روپے بطور تنخواہ ادا کی جارہی ہے لیکن اسکولوں کی کارکردگی کا یہ حال ہے کہ حالیہ نتائج 23.5 فیصد تک محدود رہے ہیں۔جو حال منڈی یا راجوری شہر کے سکولوں کا ہے ویسا ہی کچھ حال پیر پنچال اور چناب خطوں کے دیگر سکولوں کا بھی ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ یہ سب مسائل اساتذہ کی اٹیچ منٹوں کی ہی دین ہیں۔ہمارے تعلیمی نظام میں یہ ایک خطرناک رجحان بن گیاہے کہ ایک ٹیچر ہی بی ایل او ہے اور وہ ووٹر فہرستیں مرتب کرنے سے لیکر انتخابات کی مہم تک کے عمل میں سرگرمی سے شریک رہتاہے اور پھر الیکشن کے بعد اسے اپنی خدمات کا صلہ من پسند جگہ پر تعیناتی کی صورت میں دیاجاتاہے ۔اب ریاستی حکومت نئی تعلیمی پالیسی مرتب کرنے جارہی ہے اور یہ یقین دلایاجارہاہے کہ ہر ایک ٹیچر کو لازمی طور پردیہی علاقوں میں خدمات انجام دیناہوںگی تواس بات کو یقینی بنایاجاناچاہئے کہ شعبہ تعلیم کو سیاست سے مستثنیٰ رکھاجائے اور غیر قانونی اٹیچ منٹس ختم کرتے ہوئے اساتذہ کی تعیناتی سیاسی بنیاد پر نہیں بلکہ میرٹ کی بنیاد پر ہونی چاہئے، جس میں خصوصی طور پر دیہی علاقوں میں چل رہے سکولوں کا خاص خیال رکھاجائے کیوںکہ انہی علاقوں میں تدریسی عملہ کی شدید ضرورت رہتی ہے اور وہاں کوئی متبادل بھی نہیں ہوتا۔