بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدی تصادم آرائی ہر گزرنے والے دن کے ساتھ شدت اختیار کر تی جارہی ہے، حالانکہ گزشتہ ہفتہ دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان 2003 کے جنگبندی معاہدے کو مضبوط بنانے پر اتفاق ہوا تھا اور سبھی حلقوں کی جانب سے اسکا نہ صرف خیر مقدم کیا جارہا تھا بلکہ یہ اُمید بھی باندھی جارہی تھی کہ اس اتفاق رائے سے سرحدی علاقوں کے مکینوں کو راحت کا سانس لینے کا موقع ملیگا۔ لیکن ابھی اس مباحثے کی گرد بیٹھی بھی نہ تھی کہ اکھنور کے سرحدی علاقہ میں گولہ باری سے دو اہلکاروں کی ہلاکت اور دس شہریوں کے زخمی ہونے اور بھاری پیمانے پر املاک کی تباہی کے واقعات پیش آئے۔ یہ اور اس نوعید کے دیگر معاملات، جو انسانیت کی بنچ کنی کا کھلم کھلا اعلان ہیں، سیاست دانوں کو سیاست کرنے کا بھرپور موقع تو دیتے ہیں لیکن نوع انسانی کی تباہی و بربادی کے نام پر۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اسکے پس منظر میں جاکر حقایق کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کس وجہ سے ہو رہا ہے اسکے لئے گزری سات دہائیوں کے حالات واقعات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ احساس پیدا نہ کیا جائے کہ ایسے معاملات کی جڑیں تقسیم برصغیر کے واقعہ سے منسلک ہیں تب تک کوئی مثبت انداز فکر تشکیل دینے میں کامیابی نہیں مل سکتی۔موجودہ صورتحال کے چلتے آگے کیا ہوگا اس کے بارے میں کوئی دعویٰ کرنا یا اندازہ لگانا کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ گزشتہ کئی برسوں سے بھارت اور پاکستان کی جانب سے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ ہر حال میں عام انسان کے اتلاف کا مسلسل سبب بنتا جارہا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر 2003میں ہوئے جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی کے الزا مات عائد کررہے ہیں تاہم ان الزامات اور جوابی الزامات سے صرف نظر کرکے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرحد کی دونوں جانب نہ صرف انسانی جانوں کا زیاں ہورہا ہے بلکہ املاک کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے ۔گوکہ آرپار کی سیاسی و عسکری قیادت گولہ باری کے ان واقعات کو اشتعال انگیزی کانام دیکر ان ہلاکتوں کیلئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے میں لگی ہوئی ہے تاہم سیاست کئے بغیر اگر اس انسانی المیہ کے ہر زاویہ کا بغور اور غیر جانبدارانہ جائزہ لیاجائے توہر عقل و فہم رکھنے والا آدمی اسی نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ سرحدوں پر کشیدگی اور اس کشیدگی کے نتیجہ میں آرپار فوجی و سویلین ہلاکتیں دراصل اْس تنازعہ کانتیجہ ہے جوتقسیم برصغیر کے وقت سے ہی دونوں ممالک کے درمیان چلا آرہا ہے اور وہ مسئلہ بدقسمتی سے سرحد کے آرپار مقیم کشمیریوں سے ہی تعلق رکھتا ہے۔دراصل کشمیر تقسیم برصغیر کا وہ ادھو را ایجنڈا ہے جو نہ صرف ان دونوں ممالک کے درمیان اب تک کئی جنگجوں کا مؤجب بن چکا ہے بلکہ اس وقت بھی فی الواقع مخاصمت اور منافرت کابنیادی سبب تصور کیاجارہاہے۔اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ 2003میں پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف اور اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان سرحدوں پر جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جب سے اب تک تواتر کے ساتھ دونوں جانب سے سرحدی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی شکایات موصول ہوتی رہی ہیں۔ بھلے ہی دونوں جانب سے اس حقیقت کو کھلے عام تسلیم نہ کیا جائے لیکن برصغیر کے کروڑوں لوگ بخوبی واقف ہیں کہ جس رکاوٹ کا نام لینے میں دونوں ممالک ہچکچارہے ہیں ،وہ رکاوٹ 1947سے مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا ہے۔اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ دونوں ممالک انسانوں کے ہاتھوں بنی سرحدوں میں قید غیر منقسم ریاست کے لوگوں کوآزاد فضاء کا احساس دلانے کیلئے سرحدوں کو نرم کرنے اور آرپار آمدرفت و تجارت کو بڑھاوادینے کی باتیں کررہے ہیں تاہم نہ صرف عملی طور اس سمت میں کچھ حوصلہ افزاء ہورہا ہے اور نہ ہی بنیادی مسئلہ کے حل کی جانب کوئی قدم اٹھایا جارہا ہے۔اقوام متحدہ میں دونوں ممالک کے مندوبین کی چپقلشیں بھی اسی مسئلہ کی دین ہیں اور اگر یہ مسئلہ نہ ہوتا تو شاید آئے روز ایل او سی پر یا بین الاقوامی سرحد پر لوگوں کو تباہی کا سامنا نہیں دیکھنا پڑتااور نہ ہی سرحدوں کے آرپار آباد لوگوں کو ایک دوسرے کے انتہائی قریب ہونے کے باوجود کبھی نہ ملنے کا دردو کرب سہنا پڑتا۔سرحدوں پر اگلی چوکیوں کی تعمیر اور پھر ان چوکیوں میں چوکس رہنے والے فوجیوں پر روزانہ لاکھوں اور کروڑوںروپے کے خرچہ کی بنیادی وجہ بھی مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ سرحد کے آرپار انسانی ہلاکتیں دونوں ممالک کیلئے چشم کشاہونی چاہئیں اور دونوں ممالک کو مصلحتوں کی چادر اتارکر اپنے عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر کشمیر مسئلہ کو ہمیشہ کیلئے حل کرنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ جب تک یہ مسئلہ ہے ،نہ صرف سرحدوں پر دائمی سکوت ناممکن ہے بلکہ آرپار بھی خوشحالی اور امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔آرپار کشمیری دونوں ممالک کی رقابت کی وجہ سے مزید مصائب و مشکلات جھیلنے کے شاید متحمل نہیں ہوسکتے۔ سرحد کے آرپار فائرنگ کے ان واقعات کے خلاف عام لوگوں کا احتجاج اس ابھرتی سوچ کی عیاں علامت ہے اور اس سوچ سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے جس کیلئے دونوں ممالک کے سیاستدانوں کو روایتی پوزیشن چھوڑ کرووٹ بنک کی خاطر محض سیاست کرنے کی بجائے ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے جن کے ثمرات زمینی سطح پر منقسم ریاست کے لوگوں کو مل سکیںورنہ دلّی اور اسلام آباد میں دوستی کے کتنے ہی بگل کیوں نہ بجائے جائیں ،دوستی نہ ہوپائے گی اور دونوں ممالک مخاصمت کی بھٹی میں جھلستے رہیں گے۔