حال ہی میں چھتہ بل میں احتجاج کےدوران پولیس گاڑی سے ٹکر مار کر ایک نوجوان کی ہلاکت کے بعد جمعہ کے روز نوہٹہ میں سی آر پی ایف کی گاڑی کے ذریعے ایک اور نوجوان کے کچلے جانے کے واقع نے ایک نئی خوفناک صورتحال کو جنم دیا ہے، جس کی توجہی انتظامی ادارے اور مزاحمتی حلقے اپنے اپنے انداز میں کر رہے ہیں مگر مجموعی انداز میں دیکھا جائے تو ایسے واقعات کے لئے کسی بھی سنجیدہ اور سلجھی سوچ رکھنے والے سماج میں کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی۔ پولیس نے دونوں معاملات میں کیس درج تو کئے ہیں ، لیکن ان گاڑیوں کے ڈرائیوروں کےخلاف لاپرواہانہ تیز رفتار ڈرائیونگ کےالزامات عائید کئے گئے ہیں ، جبکہ نوہٹہ کے کیس میں نامعلوم افراد کےخلاف قاتلانہ حملے کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ چھتہ بل واقع کا ملزم ضمانت پر رہائی حاصل کر چکا ہے جبکہ سی آر پی ایف گاڑی ڈرائیور کے خلاف محض معاملہ درج ہوا ہے اور اس پرکاروائی کا کیا انجام ہوگا، اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، کیونکہ ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے کوئی مثبت اُمید نہیں باندھی جاسکتی۔ سنجیدہ فکر حلقوں کی جانب سے اس امر کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ مذکورہ گاڑی میں اس وقت مقامی سی آر پی ایف یونٹ کا نائب ذمہ دار بھی موجود تھا تو کیا اُنہیں بھی تحقیق و تفیش کے دائرے میں لایا جائیگایا نہیں، یہ دیکھنا باعث دلچسپی ہوگا کیونکہ عام حالات میں فورسز کی جانب سے روا رکھی جانی والی زیادتیوں کے معاملات کو آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس ایکٹ کی آڑ لیکر آیا گیاکرنے کی ایک ایسی مضبوط روایت ریاست میں موجود ہے، جو ہمیشہ نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ ملک کے اندر بھی سنجیدہ سوچ رکھنے والے طبقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ تاہم فورسز ادارے اس تنقیدی نکتہ نظر کو تسلیم کرنے میں ہمیشہ لیت و لعل کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں، جس سے پامالیٔ حقوق کے معاملات کو مزید تقویت ملتی رہی ہے۔ یہ بات فورسز ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ امن و قانون یا عسکریت سے متصادم و مقابلہ آراء ہونے کے معاملات میں سرکاری سطح پر تسلیم شدہ ایک معیاری ضابطہ ٔکار، جسے عرف عام میں SOPکہا جاتا ہے، موجود ہے اور اس کے چلتے کسی بھی ادارے یا اسکے رکن کی جانب سے نئی حکمت عملی کے نام پر قانونی ضوابط کی سنگین خلاف ورزیوں کو مستعدی کا نام دیکر جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ چھتہ بل اور نوہٹہ واقعات کے بارے میں جو تصاویر اور فوٹیج سامنے آئی ہیں، اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گاڑیوں میں سوار اہلکاروں کا ارادہ نوجوانوں کو کچلنے کا تھا نہ کہ کچھ اور ۔ ایسے میں اگر انکے خلاف لاپرواہانہ ڈرائیونگ کے قانون کے تحت کیس درج کئے جائیں تو کسی بھی طور منصفانہ اور عادلانہ اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس میں شک نہیں کہ حکمران اکائی بی جے پی کے کئی لیڈروں اور دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر کی جانب سے ان واقعات کےلئے صرف فورسز اداروں کی تعریف و توصیف کی گئی بلکہ اسے ایک جائز حکمت عملی قرار دینے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا۔ اور تو اور کئی بیانات میں کھلے بندوں یہ دلیل پیش کی گئی کہ اگر اسرائیلی حکومت فلسطینی مزاحمتکاروں کےخلاف اس نوعیت کی حکمت عملی اختیار کرسکتی ہے تو یہاں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا ؟ اس طرح مزاحمتی حلقوں کے ان الزامات کہ فورسز اداروں کی حکمت عملیوں پر صہیونی مملکت کی پالیسیاں محیط ہوتی جارہی ہیں،کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔اگر چہ ادارہ جاتی سطح پر اسکے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن انفرادی سطح پر فورسز اداروں کے ذمہ داروں کی طرف سے وقت وقت پر ایسی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں، جو ایک ایسے نظام کو فروغ دینے کی وکالت کرتی ہیں، جس میں سیکورٹی اداروں کی برأت کو قانونی حیثیت حاصل ہوسکتی ہے۔ حالانکہ دنیا کےطول و عرض میں ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ جہاں سرکاری اداروں، خواہ وہ انتظامی ہو یا سلامتی، کو ناقابل گرفت آزاد یاں عطا ہوئی ہیں، ان ممالک کا مقصد تباہی کے سوا کچھ نہیں ثابت ہوا۔ بہر حال ریاست کے اندر موجود ہ حالات کو اس کے تاریخی تناظر میں سمجھ کر اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور ریاستی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عام شہریوں کے حقوق کی پامالی کے حوالے سے کسی بھی ادارے کے دبائو میں آنے کے بجائے برملا اسکا اظہار کرے۔ کیونکہ آج نہیں تو کل سیاسی قائدین اور عوامی نمائندوں کو عوام کے سامنے کھڑا ہو کر ان باتوں کا جواب دینا ہوگا۔