گرمی کی شدت میں اضافہ کے ساتھ روایتی آبی ذخائر سوکھ جانے کے نتیجہ میں گھروں میں پانی کی سپلائی کم پڑجانے پر ریاست بھر اور خاص طور پر خطہ پیر پنچال کے لوگ جاں بلب ہورہے ہیں اور نوجوان نسل گرمی سے نجات کیلئے مقامی ندی نالوں کارخ اختیار کررہی ہے جہاں نہانے کے دوران آئے روزغرقآبی کی وارداتوں میںان کمسن نوجوانوں کی اموات کے واقعات رونماہورہے ہیں۔خطہ پیر پنچال کے اضلاع راجوری اور پونچھ میں حالیہ چند دنوں میں متعدد کمسن نوجوان نہاتے ہوئے پانی میں ڈوب کر لقمہ اجل بن گئے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا بلکہ روزانہ ہی کوئی نیا واقعہ رونماہورہاہے ۔موسم گرما اور برسات کے ایام میں ہر سال ہی اس خطے میں ندی نالے عبور کرتے ہوئے یا گرمی سے نجات پانے کیلئے نہانے کے دوران کئی نوجوان غرقآب ہوکر جان سے ہاتھ دوبیٹھتے ہیں اور امسال بھی ہرروز دکھ بھرے واقعات رونماہورہے ہیں۔ کچھ روز قبل ان غم و اندوہ والے ان واقعات کا آغاز پونچھ سے ہواجہاں دریا میںنہاتے ہوئے تین کمسن ڈوب کر لقمہ اجل بن گئے ۔اس سانحہ پر پونچھ ہی نہیں بلکہ ضلع راجوری میں بھی غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی۔ اور اگرچہ انتظامیہ اور پولیس کی طرف سے ایسے حادثات پر روک لگانے کی کوشش کے طور پر ایڈوائزاری بھی جاری کی گئی لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہواوریکے بعد دیگرے کئی ایسے واقعات رونماہوچکے ہیں جن میں کئی نوجوان غرقآب ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔پچھلے چند دنوں میں راجوری ضلع میں روزانہ ہی ایسی اموات ہوئی ہیں ۔تشویشناک بات یہ ہے کہ ایسے حادثات میںمرنے والوں کی عمر چودہ سے اٹھارہ سال کے درمیان دیکھنے کو ملی ہے اور اُن والدین کی دنیا تاریک ہو گئی ہے۔پونچھ میں تین نوجوانوں کی ایک ساتھ اموات کے فوری بعد راجوری پولیس کی طرف سے یہ ایڈوائزری جاری کی گئی تھی کہ ان والدین کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی جو اپنے بچوں کو گہرے پانی میں نہانے کی اجازت دیتے ہیں۔اس ایڈوائزری میں یہ ہدایت دی گئی تھی کہ گہرے پانی میں کود کر نہانے سے گریز کرتے ہوئے برتن سے پانی اُٹھا کر بدن پر ڈالاجائے اور اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ کمسن بچے ان مقامات پر نہ نہائیں جہاں پانی کافی گہراہو کیونکہ ایسی جگہوں پر نہانا زندگی کیلئے خطرہ ہے۔ ہوناتو یہ چاہئے تھاکہ اس ایڈوائزری کے بعد ایسے واقعات پرروک لگ جاتی لیکن اس کے برعکس ضلع راجوری میں ہی یکے بعد دیگرے پانی میں ڈوب کر چار نوجوانوں کی موت ہوئی ہے ۔دوروز قبل ایک پندرہ سالہ لڑکا راجوری قصبہ کے نزدیک نہاتے ہوئے لقمہ اجل بن گیا جبکہ اس سے قبل نوشہرہ اور یگر مقامات پر تین نوجوان دم توڑ بیٹھے۔کمسن نوجوانوں کی مسلسل اموات ایک ایسا سنگین سماجی مسئلہ بن گیا ہے جس پرپولیس کی طرف سے کاغذی سطح پر ایڈوائزری جاری کرنے یا انتظامیہ کی ہدایت سے کوئی فرق نہیں آرہا ہے بلکہ ان اموات کے سلسلہ کو روکنے کیلئےعملی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور جہاں پولیس و انتظامیہ کو ندی نالوں میں گہرے پانی یا خطرناک جگہوں پر احتیاطی اقدامات کرنے ہوں گے وہیں والدین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کمسن بچوں کو ہر گز ایسے خطرات مول لینے کی اجازت نہ دیں جن سے ان کی جان بھی جاسکتی ہے۔یہ ہمارے سماج کیلئے پریشانی کا باعث ہے کہ کئی نوجوان پیری میں اپنے والدین کا سہارا بننے کے بجائے ندی نالوں میں ڈوب ڈوب کر لقمہ اجل بن رہے ہیں جنہیں بھی اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے سے گریز کرتے ہوئے یہ سمجھناچاہئے کہ چھلانگ لگانے یا کودنے کے بغیر بھی نہایا جاسکتاہے۔ اس کےلئے انتظامیہ کی ذمہ داریاں اپنی جگہ ہماری سول سوسائٹی خاص کر مذہبی روہنمائوں پر اہم ذمہ داری عائید ہوتی ہے کہ وہ ایک منظم مہم کے ذریعہ سماج میں بیداری پیدا کریں۔ گرمی میں شدت اور بارشوں کی قلت ایک ماحولیاتی مسئلہ ہے، جس سے اس وقت دنیا کے متعدد علاقے بُری طرح متاثر ہورہے ہیں اور وقت کا تقاضہ ہے کہ اس مسئلے سے ذمہ داری کے ساتھ نمٹا جائے۔