مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی جانب سے کشمیر حل کےلئے حریت کانفرنس اور پاکستان سے بات چیت کی پیشکش کو حریت کانفرنس کی طرف سے بہ یک جنبش قلم مسترد کرنے کی بجائے محتاط ردعمل کے اظہار پر سنجیدہ فکر حلقے اس حوالے سے پُر امید ہیں کہ ہو نہ ہو اب کی بار یخ پگھلنے میں کچھ پیش رفت ہو۔ حالیہ ایام میں کم ا زکم دو باتیں صاف ہوئیں ہیں ۔ ایک تو یہ کہ وزیر داخلہ نے صاف لفظوں میں کہا کہ مزاکرات کےلئے یکساں سوچ کا ہونا ضروری نہیں بلکہ صحیح الفکر ہونا اہم ہے۔ اسی طرح متحدہ مزاحمتی قیادت کے اہم رکن اور حریت کانفرنس (ع) کے سربراہ میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ اگر یہ حالات کی تبدیلی کے تئیں ردعمل کی بجائے نئی دہلی کی پالیسی میں تبدیلی کا نتیجہ ہے تو اسکا خیر مقدم کیا جائے گا۔انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ یہ کشمیر کے نوجوان طبقہ کی جانب سے جاری مضبوط مزاحمت کا نتیجہ ہے کہ مرکزی حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ میرواعظ نے راجناتھ کی پیشکش کو مسترد نہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی جلد بازی نہیں کی جائے گی بلکہ پوری طرح صلاح و مشورہ کے بعد ہی واضح ردعمل ظاہر کیا جائے گا۔ مرکز اور حریت کی اس تازہ پوسچرنگ نے مثبت سوچ کے فروغ کے امکانات کا راستہ ہموار کیا ہے، جس کےلئے فریقین کی جانب سے مثبت ردعمل کی ضرور ت ہے، جبھی اس تباہ کن صورتحال سے نجات ممکن ہے جو ریاستی عوام کا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ایک طویل عرصہ سے جہاں کشمیر کے اندر ہلاکتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے وہیں حد متارکہ پر آئے روز شہری آبادیوں کو نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے جنگ جیسی صورتحال کا سامنا ہے اور دونوں صورتوں میں بے گناہ شہریوں کی جانوں کا اتلاف عمل میں آرہا ہے اور یہ صورتحال حالات میں سدھار کی کسی صورت کو سامنے نہیں آنے دے رہی ہے۔ بھلے ہی حکومت ریاست کے اندر شہری ہلاکتوں کو جائز ٹھہرانے کےلئے مختلف اور متنوع قسم کے دلائل پیش کرے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملک بھر میں مثبت اور جمہوری سوچ رکھنے والے عناصر کسی بھی صورت میں اسے تسلیم کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں اور تو اور بین الاقوامی سطح پر جس فورم میں بھی جموںوکشمیر کی صورتحال کا ذکر چھڑتا ہے تو بھارت اور پاکستان پر واضح لفظوں میں یہ باور کیا جاتا ہے کہ وہ مثبت طرز فکر اختیار کرکے تعمیری خطوط پر مذاکرات کے ذریعہ صورتحال کی شدت کم کرنے کی کوشش کریں۔چنانچہ مرکز کی طرف سے ماہ رمضان کے دوران فوجی آپریشن روکنے کے اعلان کا کم و بیش سبھی سیاسی و سماجی حلقوں نے اسکا خیر مقدم کرکے یہ اُمید ظاہر کی کہ سیز فائر کو رمضان کے بعد بھی وسعت دیدی جائے گی اور اب تک کے اندازوں کے مطابق حکومتی و سیکورٹی حلقوں میں بھی یہ سوچ پنپ رہی ہے۔ کیونکہ آنے والے ایام میں امر ناتھ یاترا شروع ہونے جارہی ہے اور ہر کوئی شخص اسکے بحفاظت انجام پانے کا متمنی ہے۔ اب چونکہ وزیر داخلہ کے بیان سے یہ بات واضح ہونے لگی ہے کہ مرکزی حکومت صورتحال کو سنبھالا دینے میںکسی حد تک سنجیدہ نظر آرہی ہے تو لازمی ہے کہ وہ بھی بات چیت کے ماحول کو پروان چڑھانے کےلئے مسئلہ کشمیر کے بنیادی حقائق کا اعتراف کرکے ایسے ماحول کی تشکیل میں معاونت کرے، جس میں علیحدگی پسند خیمے کا سامنے آنا یقینی بن سکے۔ وگرنہ اگر مسئلہ کشمیر کا حل صرف پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے حصول سے منسلک کرکے، کشمیر کے اس حصہ کو اٹوٹ انگ قرار دینے کی منطق برقرار رکھی گئی تو ظاہر بات ہے کہ ایسی صورت میں پاکستان یا پھر مزاحمتی خیمہ کےلئے سامنے آنے کے راہیں مسدود ہوجائینگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی دہلی اپنے روایتی مؤقف میں لچک پیدا کرکے مسئلے کے بنیادی پہلوئوں کو زیر بحث لانے کی کوشش کرے تو یقینی طور پر بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں اگر کوئی یہ سوچنے بیٹھے کہ مزاحمتی خیمہ وزیر داخلہ کے اظہار پر دوڑتے دوڑتے سامنے آئے تو شاید درست نہیں ہوگا۔من حیث المجموع سبھی حلقوں کو اپنے مواقف میں اس قدر نرمی لانی ہوگی جو ایک دوسرے کو مذاکراتی ماحول میں کھڑا رہنے کا موقع اور حوصلہ بخشے۔ اس کےلئے فوری طور پر سیاسی بیان بازیوں کے ذریعے پوائنٹ سکورنگ سے احتراز کرنے کی ضرورت ہے۔وزیراعلیٰ سے لیکر وزیراعظم تک سبھی اُن عوامل سے بخوبی باخبر ہیں جو کشمیر کے اندر اور سرحدوںپرکشیدگی کے باعث بن جاتے ہیں۔اگر اُن عوامل کو ایڈرس کیا جاتا ہے تو کشیدگی خود بخود ختم ہوسکتی ہے تاہم اس کیلئے جرأتمندانہ اقدامات کی ضرورت ہےفی الوقت یہی کہا جاسکتا ہے کہ ملکی سطح پر کشمیر کے حوالے سے جارحانہ مؤاقف سے احتراز کرکے ریاستی عوام کے جذبات کو ایڈرس کرنے کی ضرورت ہے اور خلوص و سنجیدگی سے ہی مفاہمت مخاصمت پر غالب آسکتی ہے اور امن و خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔ چونکہ مرکزی حکومت اور مزاحمتی قیادت کی جانب سے مثبت انداز فکر کا حامل محتاط طریقۂ کار سامنےآنے لگا، لہٰذا اسکا ہر صورت میں خیر مقدم کرنا لازمی ہے۔