قوموںکا زوال اور ناکامی کا سبب ہمیشہ سے نفاق اور باہمی اختلافات ہی رہے ہیں ۔ کوئی قوم کامیابی و کامرانی سے تب ہی ہمکنار ہوسکتی ہے جب ان کے افراد میں باہمی اتحاد ہو۔ جس طرح سمندر پانی کے قطروں سے مل کر بنتا ہے اسی طرح انسانوں کے متحد اور مجتمع ہونے سے ایسی جماعت تشکیل پاتی ہے جس کو دیکھ کر دشمن لڑ کھڑا جاتے ہیں ۔ اجتماعیت ہی کی وجہ سے دشمن پر رعب و دبدبہ قائم ہوجاتا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ترجمہ۔ تم اس (طاقت وصف بندی) کے ذریعہ اپنے اور خدا کے دشمنوں کو خوف زدہ کرو۔ ‘‘ اس کی ایک مضبوط اور مستحکم صورت قرآن کے پیش نظر یہ ہے کہ ’’ اور تم سب مل اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘ گویا اتحاد امت کے لئے فرض قراردیا گیا ہے ۔ یہاں پوری امت سے خطاب ہے کہ جمیعا سب مل کر اللہ کی رسی کو پکڑو۔ مفسرین کرام کے نزدیک ’’حبل اللہ‘ ‘سے مراد کتاب اللہ و سنت رسول ؐ ہیں۔ یہی دو مضبوط بنیادیں ہیں جن کے ذریعے امتِ مسلمہ متحد ہوسکتی ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں ، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت ، جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے ، گمراہ نہ ہوگے‘‘دونوں مضبوط بنیادوں میں زندگی گزارنے کے طریقے متعین ہیں ۔ اتحاداور اتفاق کا یہ مطلب نہیں کہ تم اپنی انفرادی رائے دوسروں پر ٹھونس دو بلکہ ہر انسان اپنے اعتقادات پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کی رائے اور معتقدات کا احترام کرکے اتحادپرور ہونے کا واضح ثبوت دو بشرطیکہ عقیدئہ توحید ورسالت پہ کوئی آنچ نہ آنے پائے ۔ اتحاد اس چیز کا نام ہے کہ وسعتِ قلبی اور رواداری کا بھر پور مظاہرہ کرکے متعصبانہ رویوں سے پرہیز کیا جائے کیونکہ حسد ، بغض، کینہ ، تعصب وغیرہ سے تصادم آرائی جنم لیتی ہے۔ اصحابِ رسول ؐ اور قرونِ اولیٰ کے مسلمان باوجود اختلاف رائے ایک دوسرے کا بڑھ چڑھ کر احترام کرتے تھے۔ لیکن آج کل ہم اپنے درمیان نئے نئے اختلافات ایجاد کئے جاتے ہیں جن سے باہمی تصادم آرائیاں ہو نا طے ہے ۔اختلافات کو اچھالنے سے امت میں انتشار وافتراق کی رویں چلتی ہیں جن سے امت ِ واحدہ مختلف گروہوں میں منقسم ہوجاتی ہے ۔ پچھلے قوموں کی یہی کمزوری رہی ہے کہ وہ آپسی اختلافات میں پڑ گئے کہ ان کی ہوا اُکھڑ گئی جس کا ناجائز فائدہ غیر مسلموں نے اٹھایا۔ چونکہ اس وقت ہم ماہ ِ صیام کے متبرک ایام سے وداع لے رہے ہیں ۔ ہمیں غور کر نا چاہیے کہ کس طرح صیام میں مسلمانوں کو اللہ یہ موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ مل جل کر کھائیں پئیں ، اٹھے بیٹھیں ، اور عبادت کریں ۔ اس چیز کی گواہی ہمیں سحری اور افطاری کے حسین موقعوں پر ملتی رہی کہ کلمہ خوان ایک ہی آواز پر سحری اور ایک ہی آواز پر افطار کرتے ہیں۔ دین اسلام اتحاد پروراور پیغام اخوت ہے لیکن ہم ان اصولوں کو پش پشت ڈال کر فضول بحثوں میں الجھ جاتے ہیں کہ عمل بالاسلام سے غفلت برتنے کا گناہ اپنے سر لیتے ہیں ۔ بحث تو فضول خرچی ، بے حیائی ، بے شرمی، شراب خوری رشوت خوری ، بد دیانتی اوربدچلنی کی بیخ کنی پر ہونی چاہیے لیکن افسوس اس طرف کوئی دھیان ہی نہیں دیتا بلکہ فضولیات میں پڑکر صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں ۔ اس بیماری کوموثر علاج کر نا چاہیے ۔اسلام کی تمام عبادات اجتماعیت کا درس دیتی ہیں لیکن ہم ہیں کہ بے بنیاد چیزوں پر فتنے کھڑے کر دیتے ہیں ۔ افسوس صد افسوس !ہم نے اپنے دین کو مذاق بناڈالا ہے ۔ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کئی ایک جوشیلے مُقرر وعظ و تبلیغ کے نام پر لوگوں میں تضادات پیدا کرجاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ا نہیں کیا ضرورت ہے کہ اختلافی معاملات کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرتے پھریں ؟ کیا انہیں صرف اپنے اغراض ومقاصد کی خاطر لوگوں کو گمراہ کرنے اور سرپھٹول بڑھانے کے سوا کچھ اور نہیں آتا ؟ فیس بک پر بھی فتنہ بازیوں کا بازار گرم کیا جاتا ہے ۔ کوئی ایک مفروضہ کھڑا کر کے کہتا ہے کہ میں ثابت کرکے دوں گا کہ صرف میں ٹھیک ہوں باقی گمراہ وجاہل ہیں ، دوسرا کہتا ہے کہ میں مناظر ے کے لئے تیار ہوں ۔نتیجہ یہ کہ لوگ شکوک وشبہات اور غلط فہمیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے تضاد وعناد پیدا ہوجاتا ہے ۔ گزارش یہ ہے کہ جتنا فتنہ والی باتوں سے اجتناب کیا جائے اتنا ملت کے اتحاد کے لئے بہتر ہے ۔ ہم اور آپ یہ حدیث بار بار پڑھتے ہوں گے کہ ’’ فتنہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہوتاہے ‘‘اس لئے ہمیں ہر سطح پر مفتن قسم کے مُقررین کی سننے کی باجئے ان کی حوصلہ شکنی کر چاہیے اور اپنے درمیان اخوت ومحبت کی مٹھاس بانٹنی چاہیے تاکہ دین ِ وحدت کے فضائل سے ہم متمتع ہوں ۔
اس لئے عوام الناس سے گزارش ہے کہ جب بھی آپ کو لگے کہ کوئی مُقرر یا خطیب مسلمانوں میں نفاق ڈالنے والی باتوں کا پرچار کرتا ہے تو اس کا بڑے مہذب اور امن پرور طریقے پر بائیکاٹ کیا جائے اور کبھی کسی غلط پرو پگنڈے کا اثر دل ودماغ میں لینے سے اجتناب کیا جانا چاہیے ۔ ہمارے طرز عمل سے اگر خطیب صاحب ناراض بھی ہو لیکن اللہ ناراض نہ ہونا چاہیے ۔لوگوں کو خود سوچنا چاہیے کہ اتحا دکی خوشبو کس بات میں ہے اور نفاق کی بدبو کہاں سے آرہی ہے ۔ اللہ ہمیں اتحادواتفاق پہ ہمیشہ قائم رکھے۔ آمین ۔