گزشتہ ستر اسی سال تواریخِ کشمیر کی وروق گردانی سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سرزمین کشمیر ۱۹۳۱ء سے ماقبل اور مابعد بھی خنجروں اور زخموں کی آماج گاہ رہی ہے ۔اس مظلوم دھرتی کا وہ کوئی حصہ نہیںجومظلوموں کے لہو سے سرخ نہ ہوا ہو ، وہ کوئی گھر نہیں جس کے چراغ مصائب وشدائد کے سبب گل نہ ہوئے ہوں ،ایسا کوئی گائوں اور محلہ نہیں جہاں پر نامساعد حالات کے جنمے یتیم ویسیر ،بیوائیں اور اپاہچ نہ پائے جاتے ہوں ۔یہاں آج بھی بستیاں اور بازار تاخت و تاراج ہورہے ہیں، آج بھی ننھی کلیاںبے رحمی سے مسلی جارہی ہیں ، آج بھی اَدھ کھلے گلاب آج بھی دن دھاڑے موت کے گھاٹ اُتررہے ہیں ۔ خاص کر گزشتہ تیں آٹھائیس سال میں ایسا کوئی دن نہیں گزرا جب اخباروں میں کوئی دل دوز سانحہ کی خبر پڑھنے کو نہ ملی اورایسا کوئی لمحہ نہیں بیتا جب امن پسند اور انسانیت نواز قوتیں کشمیر کے ناگفتہ بہ حالات پر آہیں نہ بھرتی رہیں ۔ان حوالوں سے اگر ارض کشمیر کو عذابوں کی بستی کہا جا ئے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہ ہوگی ۔ نوے سے آگے یہاں آئے روز جو دلدوز سانحات وقوع پذ پر ہوتے رہے ہیں ، بسا اوقات ان روح فرسا واقعات کو قلم بند کرتے وقت قلم بھی خون کے آنسو روتا ہے ۔ اس میں دورائے نہیں کہ کشمیر میں رواں ظلم و ستم کی داستان سے دنیا ئے ا نسانیت آگاہی رکھتی ہے لیکن مفادات کی ماری دنیا محض اپنے مادی فوائد کی خاطر حق بات کہنے سے کتراتی ہے اور ظالم کی سرزنش کر نے یا مظلوم کی دادرسی کی توفیق نہیںپاتی ۔ اسی تلخ وتند حقیقت کے پس منظر میں اغیار کشمیر کے طول و عرض میں انسانی حقوق کی شرم ناک پامالیاں کر تے رہے ، اپنے وحشیانہ مظالم و شدائد کی پردہ پوشی کر تے رہے اور وہ وقتاً فوقتاً کشمیر میں خون کی ہولی کھیلنے کے لئے نت نئے حربے آزماتے رہے ۔ انہوں نے کبھی عفت مآب خواتین کی عصمتوں کو تار تار کی ، کبھی معصوم نوجوانوں کی لاشوں سے قبرستانوں کو آباد کیا لیکن جب یہ تمام ڈراؤنے حربے کشمیریوں کواپنی سیاسی مانگ سے باز رکھنے میں ناکام رہے تو میجر گگوئی جیسے وردی پوشوں کو ملت کی عفت مآب بیٹیوں کو کالے کرتوت کی بھینٹ چڑھانے کا ایجنڈا دیا تاکہ ہمارے اندر احساسِ شکست رَچ بس جائے ۔اسی طرح جب راست گولیوں کے بعد بھی مظلوم قوم کے نوجوان حق خودارادیت کے اپنے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئے تو ظالم وجابر قوتیں کشمیری عوام کو مارنے کے ایسے طریقے ایجاد کرتی رہیں کہ جن کا تصورکر کے انساان کی روح تڑپ اُٹھتی ہیں ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ افسپا کے بل پر ہم پر مسلط کرم فرماؤں نے اب وادیٔ کشمیر میں احتجاجیوں کوگاڑیوں کے نیچے کچلنے کا نیا طریقہ ایجاد کیا ہے ۔ غور طلب ہے کہ پہلے ماہ رمضان کی آمد کی مناسبت سے اعلان کیا گیا کہ اب کشمیرمیں آپریشن آل آؤٹ کی جگہ آپریشن ہالٹ نافذ العمل ہوگا ،مطلب یہ کہ وطن عزیز میں مسلح جھڑپیں اور سول کلنگس نہیں ہوں گی مگر اس اعلان کے باوجود نہ صرف مسلسل اُٹھ رہے ہیں بلکہ فورسز تادم تحریر دو نوجوانوں کو بھی گاڑیوں کے نیچے کچل کر ابدی نیند سلا چکے ہیں ۔ یہ گویا بغل میں چھری میں رام رام والی بات ہے اور فریق مخالف بزبان حال پیغام دے رہاہے کہ کشمیریوں کو قبروں میں اُتارنے کا حق ان کے پاس ہر حال میں موجود ہے ۔ چنانچہ پہلے ماہ رمضان سے قبل ایک نوجوان کو نور باغ سری نگر میں پولیس نے اپنی بکتر بند گاڑی کے نیچے لاکر جان بحق کر دیا اور پھرآنے والے جمعہ کو جب حسب معمول مرکزی جامع مسجد شہرخاص سرینگر میں لوگ جمعہ کی نماز میں مشغول تھے، مشتعل فورسز نے مظاہرین کا تعاقب کر تے ہوئے نہتے نمازیوں پر پیلٹ حملے اور شیلنگ کی۔اس کے نتیجے میں جامع مسجد کا فرش مردوزن اور معصوم بچوں کے پاک لہو سے لالہ زار ہوگیا ۔بر سر موقع چند باغیرت نوجوان ہمت اور حوصلہ سے زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا ، جب کہ کئی نوجوان جامع مسجد کے احاطے میں انسانی خون کے دھبوں کو صاف کرنے میں جُٹ گئے ۔ان ہی رضاکارنوجوانوں میں قیصر احمد نجار نامی نوجوان بھی شامل تھا جو فرش جامع پر پانی بہابہا کر خون کے داغ دھبے صاف کر رہا تھامگر ہائے افسوس! اس نیک طینت نوجوان کو کیا معلوم تھاکہ آنے والے جمعہ کو وہ خود بھی اس ظلم و بربریت کا شکار ہو کر داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دے گا۔
اس جمعہ کو حسب دستور جامع مسجد کے باہر لوگ ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے، ممکنہ طور پتھراؤ بھی جاری تھا کہ اسی اثناء میں سی آرپی کی ایک جپسی یکایک نمودار ہوئی اور ہجوم کو ٹکریں مارتے ہوئے جوان سال قیصر احمد نجار کو نیچے گراگئی ، وہ ٹائر کے نیچے آکرفوراً اللہ کو پیاراہوا۔ شہید قیصر کی کہانی بھی کچھ کے اذیت ناک نہیں ۔ اس کے سر سے پہلے ہی والدین کا سہارا اُٹھ گیا تھااور یہ ڈلگیٹ میں اپنی خالہ کے گھر میںاپنی دو بہنوں کے ساتھ یتیمی کی زندگی گزار رہا تھا۔اپنی دو بہنوں کا واحد سہارا قیصر نہیں جانتا تھا کہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اب فورسز کے غیر روایتی ظلم کا نشانہ بن کر اپنی دو بہنوں کو بے آسرا چھوڑ کر ہمیشہ جا رہا ہوں اور میری بہنیں میری میت دیکھ کر عمر بھر ترستی اور تڑپتی رہیں گی !
مورخہ ۲۵ ؍ مئی کو جاں بحق ہونے کے روزقیصر حسب معمول نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے اپنے گھر سے جامع مسجد روانہ ہوا تھا ۔ نماز ادا کرنے کے بعد چند نوجوان جامع مسجد کے باہر فورسز کے ظلم و زیادتیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اسی دورآن آناً فاناً وہاں سی آر پی کی ایک جپسی نمودار ہوئی اور احتجاجی بھیڑ کو کچلتی چلی گئی ۔ پولیس ورشن کے مطابق اس جپسی کی وہاں کوئی deployment نہ تھی ، پھر یہ ہنگامہ خیز علاقے میں کیوںآگئی،ا س کا مقصدآمد کیا تھا ؟ یہ ابھی تک ایک لاینحل معہ ہے ۔ مذکورہ جپسی مظاہرین میں گھس گئی اور پلک جھپکتے ہی چند نوجوان کو اپنی زد میںلایا جو بری طرح زخمی ہوگئے۔ ان زخمیوں میںمعصوم قیصر بھی تھا جسے زخموں سے چور ہسپتال پہنچایا گیا مگر چند گھنٹے بعد ہی وہ جامِ شہادت نوش کر گیا۔ فورسزگاڑی سے کشمیری جوانوں کو کچلے جانے والا یہ دوسرا غم انگیز واقعہ ہے ۔ قبل ازیں گزشتہ ماہ سرینگر کے علاقے نورباغ میں پولیس کی گاڑی نے ایک نوجوان کو کچل کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جامع مسجد کا دردناک واقعہ اس لئے بھی ایک اُلجھی ہوئی گتھی ہے کہ اس سے دوچارروزقبل جامع مسجد کی انتظامیہ اور پولیس کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھاجس میں بتایا گیا تھا کہ جامع مسجد کے ارد گرد پولیس یا سیکورٹی فورسز کو تعینات نہیں کی جائیں گی جب کہ مسجد انتظامیہ کے رضاکار مظاہرین کو مسجد کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گی مگر افسوس کہ ابھی اس قول و قرار کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ فورسزنے معاہدہ شکنی کر کے قیصر احمدکو بے رحمی سے کچل کر اس کی جان لی ۔ اس کے بعد واقعہ کے حوالے سے پولیس او ر سی آرپی ایف کی طرف سے متضاد بیانات سامنے آئے۔ پویس کا کہنا تھا کہ فورسز کی گاڑی راستہ بھٹک گئی تھی جب کہ سی آرپی ایف کا علی الاعلان کہنا تھا کہ ہمارے افسر حالات کا جائزہ لینے جائے وارادت پر گئے ہوئے تھے اورجوں ہی وہ جامع مسجد کے پاس پہنچے تو سینکڑوں مظاہرین نے ان کی گاڑی کو دبوچ لیا ۔ یاد رہے کہ اسی طرح کا بیان نور باغ سری نگر المیے کے بارے میں پولیس نے دیا تھا کہ حادثاتی طور پر ایک نوجوان سڑک حادثے کی زد میں آکر ہلاک ہو گیا لیکن چندثانیوں میں پولیس کی رام کہانی کی پول کھل گئی جب اس مفروضے کی تکذیب کر تے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وارئیل ہوئی جو صاف صاف واضح کر رہی تھی کہ کس طرح پولیس کی بکتر بند گاڑی ( جسے کشمیری طنزاًتابوت گاڑی کہتے ہیں ) نے جان بوجھ کر ایک نہتے نوجوان کو کچل کر ہلاک کر ڈالا۔ بہر حال قیصر احمدکے دل دہلانے والے المیے کو لے کر سیاسی گلیاریوں میں فورسز کی کارستانیوںاور نام نہاد جنگ بندی پر حسب توقع بحث چھڑ گئی ۔ کشمیر کے ہند نوز سیاست دان سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنا پوائنٹ سکور کر نے کے لئے ایک ٹویٹ میں کہا ’’سیز فائز میں بندوق نہیں تو جیپ استعمال کرو۔ ‘‘ انہوں نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی پر چوٹ کر تے ہو ئے کہا:’’ پہلے نوجوانوں کو جیپ کے ساتھ باندھ دیاجاتا تھا اور اب ان کو جیپ تلے روندا جاتا ہے، محبوبہ صاحبہ! کیا آپ کا یہی نیا سیکورٹی ضابطہ ہے؟‘‘
بائیس برس عمر کامقتول قیصر احمد اپنی زندگی میں مشکلات ،مصائب ،آفتوں اور المیوں سے غیر مانوس نہیں تھا لیکن اب کی بار جو طوفان اس زندگی میںآیا،اس نے مقتول کے گھر انے کو روند ڈالا ِ خاص کر اُس کی دو معصوم بہنیں طیبہ اور عفت بے سہارا ہو گئیں۔ آج قیصر کی یہ دو بد نصیب بہنیں نیم بے ہوشی کی حالات میں اس دلدوز سانحہ پر ماتم کناں ہیں۔ انہیں دلاسہ دینے والی خواتین سچ کہتی ہیں کہ ان کی دنیا تو اُجڑ چکی ہے اور انہیں دلاسہ دینا مشق ِلاحاصل ہے۔ قیصر کی مغموم بہنیں تڑپتے اور بلکتے ہوئے درد انگیز نالہ زنیاں کر تی ہیں جو انسانی دل کو چیر کراس میں غم کی اَتھاہ ٹیسیں اٹھاتی ہیں۔ اس خون ِ ناحق پر سرکار کا روایتی گھسا پٹا ردعمل سامنے آیا کہ پولیس اسٹیشن نوہٹہ میںایک ایف آئی آر کاٹی گئی اور وقتی طور لوگوں کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے چند گھنٹے ڈرایئور کو تھانے میں رکھا گیا ا ور پھر ضمانت پر رہائی دی ۔ یوں سار ا قصہ تمام ہو ا۔ سوال ایہ ہے کہ اگر یہاں کبھی مظلوم کے ساتھ انصاف ہو اہوتا تو کنن پوشپورہ کی ماؤں اور بہنوں کے مجرموں کو کب کاا نصاف مل گیا ہوتا جن کی آرمی نے عصمتیں تار تار کیں۔ اگر ان کو انصاف ملا ہوتا تو لازماً ۲۰۰۸ ء کے قتل عام کامعاملہ گول نہ ہوجاتا اور ۲۰۰۹ء میں عمر عبداللہ کی حکومت کے زیر سایہ آسیہ اور نیلو فر کی عزتیں لوٹ کر ان کو بے دردی سے شہید نہ کیا گیاہوتا، اگر یہاں انصاف نام کی کوئی چیز ہوتی تو ۲۰۱۰ اور ۲۰۱۶ کے قتل عام میں ملوث فورسز اور ان کے سیاسی پشت پناہوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہوتا ، اگر یہاں نظم ونسق چلانے والوں میں عدل گستری کا تھوڑا سا بھی تصور دل کے کسی کونے کھدرے میں موجود ہوتا تو نور باغ کے مقتول نوجوان کے قاتل بکتر بند گاڑی ڈرائیور کی نشاندہی پولیس کے لئے تادم تحریر معمہ نہ ہوتی ،اگر ہم اوپر انصاف کاسایہ ہوتا تو آج ہمیں قیصر کا جنازہ پڑھنا پڑتا اورنہ میجر گگوئی کو ایک معصوم کشمیر ی کو انسانی ڈھال بنانے پر تمغہ دیا جاتاکے جرم میں سزا ملی ہوتی ۔ یہاں جب گنگا اُلٹی بہتی ہو تو یہی ہو گا جو ہم ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ یہاں میجر گگوئی جیسے مجرموں کو انعامات سے نوازاجاتا ہے، کنن پوش پورہ کے درندہ صفت مجرموں کی پردہ پوشی کی جاتی ہے ،آسیہ اور نیلو فر کے قاتلوں کے کھلے چہروں کو اپنی کرسی کی آڑ میں چھپا یا جاتا ہے ۔ امر واقع یہ ہے کہ جب کسی ریاست ومملکت میں بے انصافی کا بول بالا ہو تو وہاں مظلوم کو انصاف ملنے کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔
ہم ایسی سرزمین پر رہتے ہیں جہاں المیے اُگتے ہیں ، المیے برستے ہیں ، مظالم کی بارشیں ہوتی ہیں ، مفاسد کی تجارت ہوتی ہے ۔ ظلم و ستم کی ان بھیانک آندھیوں کا توڑ کر نا ہو تو ہمیں چاہیے کہ پہلے اپنا اپنا محاسبہ کریں ،ہم ٹولیوں میں نہ بٹیں ،ظالم کی ہر سازش کا زیروبم تاڑیں، انفرادی اور اجتماعی سطح پر مسلکی اختلافات اور بھانت بھانت کی بولیاں ترک کرکے ایک حساس ذہن قوم بن جائیں ، تب جاکر ظالم کو بیک زبان کہہ سکیں گے تم ظلم پیشہ ہو ،تم ہمارے المیوں کے ذمہ دار ہو ، تم ہمیں خرید نہیں سکتے، تم ہمیں اپنی چکاچوند ی سے مرعوب نہیں کر سکتے۔ افسوس کہ ہم اس کے برعکس ظالم وجابر کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ،اس کی ہر چال کا مہرہ خوشی خوشی بنتے پھرتے ہیں ،اس کے ظالمانہ کردار پر اُسے برسرعام ٹوکنے کے بجائے ہمارے اپنے لوگ اسے کبھی مسلکی یونیورسٹی اور کبھی مسلکی عیدگاہ کے لئے زمینوں کی الاٹ منٹ کے لئے در خواستیں دیتے ہیں اوراس کا ماضی وحال فراموش کر کے اس کی دربای قصیدہ گوئی تک میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے ۔ ہمیں یہ دوغلی پالیسی ترک کر نا ہوگی تب جاکر قیصر احمد جیسے معصوم جوانوں کی بے چین روحوں کو قرار آسکتا ہے ۔ مزاحمتی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دے کر کشمیر یوں پر ڈھائے جا رہے مظالم کے خلاف ایک آوازبنے اور یہ واحد پیغام دنا کے گوشے گوشے میں پہنچادے کہ ہم پر امن قوم ہیں ، ہم پر دن کے اجالے اور رات کے اندھیرے میںاغیار حملہ زن ہیں لیکن ہم بے انتہا مظالم کا سامنا کرنے کے باوجود بھی مسئلہ کے پُرامن حل کا راستہ چھوڑنے کو تیار نہیں ، ہم انڈیا کے نہیں بلکہ ظلم وتشدد کے مخالف ہیں، ہم مذہبی تعصب سے پاک ہیں، ہم منافرتوں سے آزاد ہیں ، ہماری نفرت صرف ناحق سے ہے ، ہم افہام وتفہیم کے خواہش مندہیں لیکن اغیار ہمیں اس انداز میں پیش کر رہے ہیں جیسے وہ مظلوم اور ہم ظالم ہیں۔ یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ مزاحمتی قیادت کو دنیا پر باور کرانا ہوگا کہ کشمیر ہی نہیں بلکہ سارا برصغیر خدا نخواستہ ایک دوسرا ہیرو شیما اور ناگاساکی بن جائے گاکیونکہ بھارت اور پاکستان نیوکلیئر پاورز ہیں ۔ اگر کشمیر حل نہ ہوا تو ان دو ہمسایوں کے درمیان ایک ایسی بھیانک جنگ چھڑ سکتی ہے جو ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گی ۔اس ممکنہ محاربے کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت ہند کشمیر میں نت نئے ظالمانہ حربے آزمانے کے بجائے ، سنجیدہ فکری اور خلوصِ نیت سے ایک بڑھے بھائی کی طرح پاکستان اور کشمیر کی حقیقی لیڈر شپ کے ساتھ ٹھوس بات چیت کرنے کا آغاز کرے تاکہ متفقہ طور کشمیر حل حقیقت کا روپ دھارن کرے۔ اگر اب بھی دلی پاکستان سے کسی ٹھوس بات چیت کا آغاز نہیں کر تا تو نہ صرف نئے قیصروں کے ہمیں جنازے اٹھانے پڑیں گے بلکہ وہ وقت دور نہیں جب نفرت کی آندھیوں میں بہک کر آرپار وہ غیر معمولی تباہی ہوگی کہ کشمیر سمیت ہمیں ہند و پاک میں آدم زاد وں کو چراغ لے کر ڈھونڈنا پڑے گا۔اللہ ایسا نہ کرے ۔!
رابطہ9906664012