۷؍جون ۲۰۱۸ء کا لوگ بڑی بے صبری سے انتظار کر رہے تھے کیونکہ سابق صدر جمہوریۂ ہند پرنب مکھرجی ناگپور میں واقع آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹرز میں اُن کے سالانہ جلسہ میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے تقریر کرنے والے تھے ۔جب انہوں نے آر ایس چیف موہن بھاگوت کی دعوت قبول کی تھی اُسی وقت سے واویلا مچا ہوا تھا ۔ اِس پیش رفت سے سب سے زیادہ کانگریسی پریشان تھے کیونکہ صدر سے پہلے وہ ایک کٹّر کانگریسی تھے اور کانگریس کی دور حکوت ہی میں انہیں صدر بنایا گیا تھا۔کچھ لوگوں کا ایسا خیال ہے کہ صدر جمہوریۂ ہندیا کسی صوبے کا گورنر ہو جانے کے بعد کسی مخصوص پارٹی سے وابستگی مناسب نہیں،اِس لئے پرنب دا کاآرایس ایس ہیڈ کوارٹرزجانا معیوب نہیں۔وہاں جاکر عالی جناب کیا کہتے ہیں ،اُس کی اہمیت زیادہ ہے۔جس حیثیت سے کانگریس جانی جاتی ہے یا کانگریس کی تربیت کے زیر اثر اگر وہ اپنی تقریر کرتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ اگر آرایس ایس کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں ،یہی دیکھنے کی بات ہوگی۔اسی لئے سب کی نظریں اُن کی تقریر کے متن پر مرکوز تھیں۔بھلا ہو ٹی وی چینلوں کا کہ انہوں نے پوری کارروائی کو راست نشر کیاجو آر ایس ایس کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی ۔وہ یوں کہ آرایس ایس کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہواکہ اس کے ہیڈکوارٹرز سے اس کا اجلاس تمام قومی چینلوں نے راست ٹیلی کاسٹ کیا۔اگر پرنب دا کے علاوہ کوئی اور شخص مدعو ہوتا تو کیا ایسا ہوتا؟شاید نہیں۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سَنگھ(آرایس ایس) نے بازی مار لی اور ملک بھر میں اپنا پیغام پہنچانے میں کامیابی حاصل کر لی چاہے وہ پیغام جو بھی ہو،واضح ہو کہ غیر واضح۔
اِدھر ۴؍برسوں سے جب سے مودی حکومت مرکز میں آئی ہے، یہ مسلسل دیکھا جا رہا ہے کہ ہر ٹی وی مباحثے میں بی جے پی کے ترجمان کے علاوہ ایک آر ایس ایس کا وِچارک بھی رہتا ہے۔کانگریس کے دور میں یا دوسری پارٹیوں کے دورِ حکومت میں ایسا کبھی نہیں ہوا جب کہ بعض اوقات ’سنگھ‘ سے وابستہ پارٹیاں حکومت میں بھی شامل رہیں۔حتیٰ کہ واجپئی کے دورِ حکومت میں بھی ایسا نہیں ہواکہ سنگھ کا کوئی نظریہ ساز ٹی وی اسٹوڈیو میں آتا ہو۔کبھی کبھار ایسا ہو گیا ہو تو اسے استثنیٰ ہی سمجھا جائے گا لیکن جس پابندی سے اب آرایس ایس کے نظریہ ساز مباحثے میں شرکت کے لئے بلائے جاتے ہیںاِس سے ملک میںاُس تبدیلی کا پتہ چلتا ہے جو چینلوں نے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹرز سے یہ کبھی نہیں کہا گیا ہوگا کہ اُن کے آدمیوں کو بلایا جائے، یہ چینل والے ہی ہیں جو اُن کو سبقت دے رہے ہیں ورنہ غور کرنے سے پتہ چلے گا کہ سیاسی معاملات میں آرایس ایس کا کیا کام ہے؟کیونکہ آرایس ایس خود کہتی ہے کہ وہ ایک ثقافتی تنظیم ہے لیکن مودی کی حکومت آنے کے بعد ہی ایسا کیوں کر ہوا کہ آرایس ایس کو اتنی اہمیت دیا جانے لگا۔اگر بی جے پی کو اکثریت نہیں ملی ہوتی تو ایسا کبھی نہیں ہوتا۔کہنے کو تو مرکز میں این ڈی اے کی حکومت ہے لیکن اِن ۴؍برسوں میں ملک نے جو مشاہدہ کیا ہے اُس کی رو سے یہ صرف اور صرف بی جے پی کی حکومت ہے ورنہ آج اس کے اتحادی اسے آنکھ نہیں دکھاتے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرتے۔دراصل بی جے پی جب بھی حکومت میں آتی ہے اسے جلدی بہت رہتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ جو اس کا ایجنڈا ہے وہ جد از جلد نافذ ہو جائے۔ظاہر ہے کہ اس کا ایجنڈا آرایس ایس کے ایجنڈے سے مختلف نہیں اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بی جے پی ،آرایس ایس کی سیاسی جماعت ہے اور دونوں میں کوئی فرق نہیں۔اپنے انہی ایجنڈوں کے نفاذ کے لئے اس نے اپنی اتحادی پارٹیوں کی کوئی پرواہ نہیں کی اور اپنی من مانی کرتی رہی۔ذرا صبر سے کام لیتی تو اسے یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے کیونکہ ایک ایک کرکے اس کی اتحادی پارٹیاں اس سے الگ ہو رہی ہیں۔اسی لئے شیو سینا کو منانے امیت شاہ ممبئی پہنچے اور دوسرے روز اکالی دل کو منانے پنجاب آئے۔ امیت شاہ آج کل مختلف قومی ہستیوں سے سمپرگ بنا رہے ہیں تاکہ بھاجپا۲۰۱۹ء کا پارلیمانی میدان پھر سے مارلے ۔اس پروگرام کے تحت سب سے پہلے وہ ہندوستانی کرکٹ لیجنڈکپل دیو سے ملے۔اس کے بعد یہاں ممبئی میںفلم اداکارہ مادھوری دکشت نین سے اُن کے گھر جاکر ملاقت کی۔وہ لتا منگیشکرسے بھی ملنا چاہتے تھے لیکن لتا دیدی نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ وہ بیمار ہیں ،پھر کبھی مل لیں گی۔لتا دیدی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کو چاہنے والے ہر مذہب کے لوگ ہیں۔اگرچہ کبھی کبھی اُن کا بیان مودی جی کی حمایت میں آجاتا ہے لیکن وہ دل سے سب کو ایک جانتی اور مانتی ہیں۔چونکہ وہ فلموں میں سب طرح کے لوگوں سے ملتی رہی ہیں اس لئے یہ کہا نہیں جا سکتا کہ وہ متعصب ذہن کی مالکن ہیں۔امیت شاہ سے نہ مل کر انہوں نے ایک واضح پیغام دیا ہے کیونکہ وہ بھی ملک کے حالات کو دیکھ اور محسوس کر رہی ہیں۔کاش دوسرے ملنے والے یا تو امیت شاہ سے ملنے سے انکار کر دیں یا اگر ملیں تو انہیں آئینہ ضرور دکھائیں کیونکہ امیت شاہ کا ماضی لائقِ ستائش نہیں رہا ہے،وہ چاہیں تو امیت شاہ کو یاد دل سکتے ہیں۔ہمت تو کرنی ہوگی تبھی جاکر کچھ بات بنے گی ورنہ ہندوستان کی یکجہتی کا شیرازہ بکھرنے میں دیر نہیں۔رتن ٹاٹاوغیرہ سے ملنے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ہندوستانی عوام اب جان گئے ہیں کہ مودی جی اور بی جے پی صرف کارپوریٹ طبقے کے لئے ہی کام کرتے ہیں اور کارپوریٹ طبقہ یہ چاہتا ہے کہ مودی جی ایک بار پھر سے چن لئے جائیں تاکہ وہ(کارپوریٹ) اپنا بقیہ کام کر سکے۔پتہ نہیں مادھوری دکشت کو امیت شاہ نے کیوں چنا؟ایسا لگتا تو نہیں ہے کہ وہ عوام کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کر سکتی ہیں۔زیادہ سے زیادہ ہیما مالنی اور کرن کھیر کی طرح ایک سیٹ کا اضافہ کر سکتی ہیں۔کوئی ضروری نہیں ہے کہ امیت شاہ کا ہر قدم اور چال کامیاب ہی ہوکیونکہ یہ کہا جاتا ہے کہ گیدڑ کی موت جب آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔کچھ ایسا ہی امیت شاہ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
آر ایس ایس کا اپنا ایک مضبوط اور وسیع تر نیٹ ورک ہے۔اسے پتہ چل گیا ہے کہ ملک کے عوام مودی اور بی جے پی سے بُری طرح خفا ہیں اور آئندہ کے عام چناؤ میں بی جے پی کو شکست سے دوچار کریں گے۔اسی لئے وسیع تر تناظر میں اس نے پرنب مکھرجی کو مدعو کر کے خود کی تبدیلی یعنی میک اووَر(makeover)کے لئے راستہ تو ہموار کرنا چاہا ہی ساتھ ہی بی جے پی کو بھی فائدہ پہنچانا چاہا۔اسے پتہ تھا کہ اس سے واویلا مچے گا اور اِس واویلا سے وہ فائدہ بھی اٹھائے گا۔حالانکہ اسے بہت تھوڑا ہی فائدہ ہوا کیونکہ پرنب دا نے ہندوستان کی تکثریت کی بات کی اور تمام مذاہب اور اس کے ماننے والوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی ۔ساتھ ہی جمہوریت اور سیکولرزم نیز قوم پرستی کی واضح تعریف بھی پیش کی اور یہ بھی کہا کہ گاندھی اور نہرو کے راستے پر چل کر ہی اِس ملک کی ترقی ہو سکتی ہے نہ کہ ایک خاص مذہب کی پیروی اور اسی سے وابستہ قوم پرستی کے نظریے کی پیروی کر کے۔ دراصل انہوں نے آر ایس ایس کو آئینہ دکھایا لیکن آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر اپنی تنظیم کی روایت اور وراثت کو تقویت پہنچائی کہ ’’پرنب مکھرجی کے یہاں آنے اور تقریر کرنے کے بعد سنگھ سنگھ ہی رہے گا اور پرنب مکھرجی ،پرنب مکھرجی ہی رہیں گے‘‘۔یعنی کہ سنگھ کے کام کاج اور سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور جو اس کا نظریہ ہے تکمیل ہونے تک قائم رہے گا۔بی جے پی کو اس طرح فائدہ پہنچایا کہ مکھرجی کے تعلق سے میڈیا یہ شوشہ چھوڑنے میں کامیاب رہی کہ تیسرے محاذ کی حکومت بننے کی صورت میں پرنب مکھرجی ممکنہ وزیر اعظم ہو سکتے ہیں۔ اس شو کا خاص پہلو یہ رہا کہ پرنب مکھرجی نے آر ایس ایس ہیڈ کوارٹرز پر رکھے اُس وی آئی پی نوٹ بُک میں سنگھ کے بنیاد گزار ڈاکٹر ہیڈگیوار کو اِس ملک کا مہان سپوت لکھ دیا ۔ ان کا یہی سند سنگھ کے لئے ایک تمغہ بن گیا جسے میڈیا والے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے باز نہیں آئے۔آخر پرنب مکھرجی اِس ملک کے ایک ممتاز برہمن بھی تو ہیں! خیال رہے کہ کانگریس کے سابق وزیر اعظم آنجہانی نرسمہا راؤ بھی ایک برہمن ہی تھے!٭
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883