عیدین کا تعلق اسلامی شعائر سے ہے، ماہ صیام کے بعد آنے والی عید الفطر شکران نعمت کے طور پر مشروع کی گئی ہے۔ ایک مہینہ ماہ رمضان کی تربیت گاہ میں گزارنے کے بعد ایک طرف تو یہ خوشی ومسرت کا موقع ہوتا ہے، دوسری طرف احتساب وتجدید ِعہد کا وقت ہوتا ہے۔ خوشی اس بات پر کہ ایک مسلمان ماہِ صیام میں اجرو ثواب ، خیر وبرکت اور رحمت و مغفرت کا حقدار ٹھہرا، اور احتساب ا س بات کا کہ ہم نے اس زریں موقع میں کیا کھویا اور کیا پایااور آئندہ کی زندگی کس نہج پر گذرے گی۔کسی بھی کا م کا آغاز اور اختتام نہایت اہم ہوا کرتا ہے۔ عید الفطر رمضان المبارک کا اختتام اور اس کے بعد کی زندگی کے لئے ایک نیا آغاز ہے۔ اختتام کے اعتبار سے ماضی کی کوتاہیوں پر ندامت اور ان کی تلافی کی کوشش ضروری ہے، جب کہ آغاز کے اعتبار سے آئندہ کے لئے مکمل منصوبہ بندی اور واضح لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس عید کو یوم الجائزہ(انعام کا دن) بھی کہا گیا ہے۔انعام ملنے کے بعد انسان کو اور زیادہ مستعد اور اللہ کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرلینے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے تاکہ وہ اور بلند مقام پر فائز ہو۔
لیکن! یہ عید اس حال میں آرہی ہے کہ پوری امت لہو لہاں ہے، فلسطین سے لے کر کشمیر تک، عراق سے لے کر مصر اور شام تک اور امت مسلمہ کے دیگر ممالک میں باطل انسانیت کو شرمندہ کرنے والی درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اسرائیل تمام اخلاقی، انسانی، ملکی اور بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر غزہ کے نہتے مسلمانوں پر بموں کی بارش کر رہا ہے، اور معصوم بچوں کو زندہ جلانے کا جرم کر رہا ہے، معصوموں کی خون میں لت پت جھلسی ہوئی لاشیں امت کو دہائی دے رہی ہیں۔غزہ کے نہتے مسلمان مسلسل بمباری کی وجہ سے ہر وقت خوف وہراس کی حالت میں ہیں، ان کے لئے تمام راستے مسدود کر دئے گئے ہیں، دودھ پیتے بچوں کو دودہ تک سے محروم کر دیا گیا ہے، ضروریاتِ زندگی کی فراہمی مشکل بنادی گئی ہے،مسلم ممالک کے نام نہاد حکمرانوں نے عام طور پر اور مصر کے غاصب فوجی صدر جنرل السیسی نے خاص طور پر اسرائیل نوازی کا مظاہرہ کر کے اور فلسطینیوں کو بے یار ومددگار چھوڑ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ سب مسلمان کہلانے کے لائق نہیں بلکہ باطل نواز ہیں۔دوسری طرف شام، عراق اور مصر میں وہاں کے انسانیت سے عاری مغرب نوازحکمران اپنے ہی باشندوں کے خلاف وہ ظلم روا رکھے ہوئے ہیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔دنیا کے خودساختہ امام اور اپنے آپ کو انسانی حقوق کا محافظ قرار دینے والے عالمی ادارے ہر اس شخص کی مدد کر رہے ہیں جو مسلم امہ کا خون بہانے میں پیش پیش ہے۔ ۔۔عید ا س حال میں آرہی ہے کہ شام کے تقریبا دو لاکھ بے گناہ نفوس بشار الاسد کے ذریعہ جان بحق ہو چکے ہیں اور لاکھوں بے گھر اور کتنی ہی بستیاں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں، عید اس حال میں آرہی ہے کہ مصرمیں اسلام کے نام لیواؤں کا قافیہ تنگ کیا جارہا ہے،عید اس حال میں آرہی ہے کہ امر یکہ کا پٹھونورالمالکی عراق میں برادر کشیاں کروارہا ہے ، عید اس حال میں آرہی ہے کہ پاکستان میں اندرونی صورتحال کشت وخون سے ا بتر سے ابتر ہو رہی ہے، عید اس حال میں آرہی ہے کہ چین میں مسلمان روزہ رکھنے سے با زرکھے جارہے ہیں اور بھارت میں روزہ دار مسلمانوں سے روزے زبردستی تڑوائے جارہے ہیں ، عیدا س حال میں آرہی ہے کہ کشمیر میں بہتا ہواناحق خون تھم جا نے کا نام نہیں لیتا ۔۔۔۔ غرض اسلام پسندوں کے خلاف عالمی وملکی سطح پر خطرناک سازشیں عملائی جارہی ہیں کہ خوشی کے بجائے خون کے آنسوبہا نے کو جی چاہے ۔
یہ سب کچھ ایک طرف! دوسری طرف عید الفطر یہ پیغام دینے کے لئے آئی ہے کہ تنگی کے بعد آسانی، مشقت کے بعد خوشحالی اور صبر وثبات کے بعد عید کی خوشیاں اور مسرت یقینی ہیں کیوں کہ ہر تنگی کے بعد آسانی، تاریکی کے بعد روشنی اور گھٹا ٹوپ رات کے بعد طلوع فجر اللہ کا اٹل قانون ہے۔ ظلم کی یہ طویل رات یقینا ایک دن ختم ہو کر رہے گی، اور فتح وکامرانی اہلِ حق ہی کا مقدر ہے۔البتہ عید یہ پیغام دے رہی ہے کہ امت مسلمہ اگر جسد واحدکی طرح ہے تو باہمی اخوت ، دوسروں کے دکھ درد کے احساس والی روح کے ساتھ زندہ رہنا ہی انسانیت ہے، امت کا ایک حصہ لہو لہان ہو تو پوری امت اس کا درد وکرب محسوس کرے اور باطل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔عید یہ پیغام دے رہی ہے کہ یہ باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے ، اخوت ومحبت کو مضبوط کرنے، اور امت کے شیرازے کو متحد کرنے کا موقع ہے۔ عید اللہ کے شعائر میں سے ہے اور شعائر اللہ کی تعظیم تقویٰ کی علامت ہے۔ اللہ کے شعائر کو پامال کیا جا رہا ہو، خونِ مسلم ناحق بہایا جا رہا ہو، قبلہ اولیٰ مغضوب قوم کے تسلط میں ہو، تو عید یہ پیغام بھی دے رہی ہے کہ اللہ کے شعائر کے حوالے سے اپنی غیرتِ ایمانی اور حمیت دینی کو مہمیز دو، اللہ کے شعائر کے حوالے سے نہایت ہی حساس رہنا ایمان کا تقاضا ہے ۔عید تنہا خوشیاں منانے کا نام نہیں بلکہ اپنے آس پاس اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو خوشیوں میں شریک کرنا بھی ایمانی تقاضا ہے۔ کتنے فقراء ومساکین، مظلوم ومقہور ، اغیار کے تعذیب خانوں میں مقید بے گناہ بچے، بوڑھے، جوان اورخواتین ایسے ہیں جن سے اس خوشی کے دن بھی ان کی مسکراہٹ چھین لی گئی ہے، وہ یہ دن بھی احساسِ غربت ومظلومیت کے ساتھ گذارہے ہیں،کیا عید یہ پیغام دے کر نہیں جا رہی ہے کہ اس وقت تک چین وسکون کی نیند ہر مسلمان پر حرام ہے جب تک کہ ہر مسلمان آزادی کے ساتھ اسلامی شعائر کا اظہار نہ کر سکتا ہو؟صلاح الدین ایوبیؒ نے تو اس وقت تک نہ ہنسنے کی قسم کھا رکھی تھی جب تک کہ بیت القدس کو آزاد نہ کرایا جائے، اور وہ کہا کرتے تھے کہ وہ شخص کیسے ہنس سکتا ہے جس کا بیت المقدس کافروں کے قبضے میں ہو؟ عید احتساب وتجدیدِ عہد کا دن ہے، اپنے آپ کو کامل مسلمان بنانے کا دن ہے، اللہ سے کئے ہوئے عہد کو از سر نو یاد کرنے کا دن ہے، امت کے شیرازے کو متحد کرنے کا دن ہے، امت کے ایک ایک فرد کو اپنے جسم کا حصہ سمجھنے کا دن ہے، شکرانِ نعمت اور اللہ کی کبریائی بیان کرنے کا دن ہے،اللہ کی زمین پر اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کا عزم کرنے کادن ہے،انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر ربِ ذو الجلال کی غلامی میں داخل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کے پختہ عزم کرنے کادن ہے،احساس وندامت کے آنسو بہانے کا دن ہے،اپنے آپ کو مستحق عنایات ِ ربانی ثابت کر کے اللہ کی نصرت ومدد حاصل کرنے کا دن ہے، بس شرط یہ ہے کہ انسان شعوری طور پرمسلمان ہو ورنہ ہر سال کی عید سوائے ایک مذہبی تہوار اور رسم کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
email: