تقدیر کے پابند ہیں نباتات و جمادات
مؤمن فقط تقدیر الٰہی کا پابند ہوتا ہے
آج ملت ِاسلامیہ رمضان ا لمبارک کے روزوں کی عنداللہ قبولیت کی خوشی میں عید منارہے ہیں ۔ عید الفطر کامرکزی نکتہ یہی ہے کہ ایک روزہ دار نے ایمان اور احتساب کے ساتھ صیام کی تکمیل کرتے ہوئے اللہ کی رضا جوئی میں اپنا جولمحہ لمحہ گزارا، ا س پر خالقِ کائنات اپنے مخلص بندے سے خوش ہے اور اس خوشی کا اظہار بندہ عید کی صورت میں مناتا ہے۔ہر مذہب اپنا کوئی نہ کوئی تہوار رکھتی ہے۔عیسائیوں کا’ کرسمس ڈے‘ ، ہندوں کی ’ہولی‘ او ر’ دیوالی‘ اور پارسیوں کے ہاں’ نوروز ‘کا تہوار معروف ہے۔اسلام کی آمد سے پہلے عربوں کا تہوار ’یوم السبع ‘کہلاتا تھا ۔یہودیوں کی سب سے بڑی عید’ عید الخطاب‘ ہے ۔عیسائی رومن کتھولک کے ہاں زیتونیہ کا تہوار روزوں کے ساتویں دن منایا جاتا ہے ۔ ان تہواروںمیں کھیل کود ، عیش و عشرت ، فن کاری اور کھانے پینے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے ۔ان تہواروں میں متنوع تہذیبی علامات اور جدا گانہ تشخص کا اظہار بھی ہوتا ہے ۔اسلام نے عید کوایک بامقصد تہوار قرار دیا ہے ۔اسلامی تہذیب میں عید ،کھیل کود،نئے کپڑے پہنے ، زرق برق لباس خریدنے،مرغن کھانوں اور گھروں کی آرائش و زیبائش کا نام نہیں ہے یہ کام اگر چہ حرام یا ممنوع نہیں ہے لیکن یہ سب اعتدال میں ہونا چائیے ۔اسلام نے فضول خرچی کرنے والوں کو سخت ناپسند کیا ہے اور ان کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے ۔اسلام اعتدال کی تعلیم دیتا ہے اور اس پر قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔ عید اگر چہ فرط و انبساط اور خوشی و مسرت کا دن ہوتا ہے لیکن اسلام نے اس کو اــحکام الٰہی اور عبادات سے جوڑا ہے ۔اسلام نے مسلمانوں کے لئے دو ایسے دن مقرر کئے ہیں جو خوشی مسرت کے ساتھ ساتھ عبادات سے بھی مزین ہیں ۔اہل مدینہ سال میں دو خوشیاں منایا کرتے تھے ۔ اللہ کے رسول ﷺ جب مدیدنہ تشریف لائے تو اہل مدینہ دو تہوار منایا کرتے تھے ان میں کھیل کود اور مختلف انداز سے خوشی کا اظہار کرتے تھے، تو اللہ کے رسول ﷺ نے دریافت کیا کہ ان دو تہواروں کی کیا حقیقت ہے ۔ انھوں نے عرض کیا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے ۔اس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان دو تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مہیا کر دئیے ہیں ،عید الفطر اور عید الاضحی۔ ا (ابوداؤد)
عید احتساب کرنے کا دن
عید اگرچہ خوشی و مسرت کا دن ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنے آپ کو جائزہ لینے کا بھی دن ہے ۔ایک مسلمان کو حساس طبعیت کا مالک ہونا چائیے اور اس کو اس بات پر نہیں اترانا چائیے کہ مکمل تیس روزہ رکھنے کے بعد میں نے تیر مار لیا ہے ۔ماہ رمضان میں جس طرح ایک مسلمان نے اللہ سے مضبوط تعلق پیدا کیا ہے اس تعلق کو عید کے بعد بھی برقرار رکھنا چائیے ۔ عید کو مطلب یہ نہیں ہے کہ پابندیاں ختم ہوگئی ہیں ،بلکہ عید کے بعد ان پابندیوں پر عمل کرنے کا وقت شروع ہوتا ہے ۔ عید کے دن اس بات کا جائزہ لینا چائیے کہ کہیں مجھ سے کوتاہیاں تو نہیں ہوئیں ؟ اور اگر ہوئیں تو ان پر ندامت ہوکر تعلق باللہ کو مضبوط کرنا چائیے ۔اس تعلق سے ہمارے لئے حضرت عمرؓ ابن الخطاب کا یہ واقع عبرت کے لئے کافی ہے کہ جب عید آتی تو آپ زار و قطار روتے ۔ پوچھاجاتا کہ آپ اس قدر کیوں رہ رہے ہیں ؟ آج تو عید ہے یہ مسرت شادمانی اور خوشی منانے کا دن ہے ۔ یہ سن کر خلیفہ دوم فرماتے :ہذا یوم العید وہذا یوم الوعید ۔ یعنی یہ خوشی کا دن بھی ہے اور خوف کا بھی دن ۔ خوشی ومسرت اس کے لئے جس کے روزے قبول ہوئے اور جس سے اللہ راضی ہوا ۔اور جس پراللہ راضی نہ ہوا ،اس کے لئے یہ عید اللہ سے ڈرنے کا دن ہے ۔ اس کے بعد انھوں نے فرمایا : وانا لا ادری امن المقبولین ام من المطرودین ۔ اور میں نہیں جانتا ہوں کہ کہ میں مقبولوں میں سے ہوں یا غیر مقبولوں میں ،چناچہ میں اسی لئے رو رہا ہوں کہ نہ جانے اللہ تعالیٰ آخرت میں میرے ساتھ کیا سلوک فرما لے ۔
عید اوررفاہ عامہ کا تصور :
آج مادی ترقی اور سائنس و ٹکنالوجی کے اس دور میں رفاہ عامہ اور سماج کی خدمت کرنا بہت ضروری ہوگیاہے اور کچھ پہلووں سے قدرے مشکل ہوگیا ہے ۔ اسلام اور اسلامی تاریخ سے رہنمائی حاصل کی جائے تو خدمت کرنے کی ترغیب خوب ملتی ہے ۔ اسلامی تاریخ کے ہر دور میں رفاہ عامہ کے حوالے سے بہت مثالیں ملتی ہیں ۔ اسلام میں نیکی اور رفاہ عامہ کا تصور بہت وسیع ہے ۔ یہ صرف چند عقائد یا عبادات تک محدود نہیں ہے ۔ اس میں پسماندہ طبقات کے حقوق کی ادائیگی پر پر زور تلقین کی گئی ہے ۔خدمت خلق کادائرہ کار اپنوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سب تک پھیلاہوا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف ، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اللہ ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنادل پسند مال رشتہ داروںاور یتیموں پر ، مسکینوں اور مسافروں پر ، مدد کے لیے ہاتھ پھلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ،نماز قائم کرے اور زکوۃ دے ۔ (البقرہ: ۱۷۷)
عیدکے دن دو کام کافی اہمت کی حامل ہیں ،ایک مستحقین کو صدقہ فطر دیا جائے گا ،دوسری اجتمائی طور دو رکعت نماز ادا کی جائے گی ۔اس کامطلب یہ ہے اس عید کو رفائی حیثیت دے دی گئی ہے ۔ اسلام نے عید الفطر کو شکرانہ کے طور دو رکعت نماز اور نادار اور غریب لوگوں کا خیال رکھنے کے لئے مخصوص کیا ہے ۔دور نبوت ﷺ میں عید کا چاند دیکھ کر سب سے پہلا کام جو آپ ﷺ اور صحابہ کرام کرتے تھے وہ صدقہ فطر کی ادائیگی ہوتی تھی ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عید خوشی و مسرت اور عبادات کا ہی دن نہیں بلکہ مستحقین کا حق ان تک پہچانا بھی ضروری ہے ۔ اسلام کا یہ پہلو مابہ الامتاز ہے کہ اس نے نہ صرف فرد کو بلکہ ریاست کو بھی عام لوگوں کی فلاح و بہبود کا پابند بنایا ہے اور حکمرانوں کو مسئول بنایا ہے کہ وہ رعایا کی ضروریات کو پیش نظر رکھیں۔اسلام نے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کی غیر معمولی اہمیت دی ہے ۔اسلام میں معاشرتی فلاح و بہبود کا تصور اتنا ہی پرانا ہے جتنا یہ مذہب خود قدیم ہے ۔ یعنی یہاں رفاہی عامہ کا تصور ارتقائی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی تاریخ کا آغاز ظہور اسلام کے ساتھ ہی نظر آتا ہے اور مسلمان مادی منفعتوں سے بالا تر ہوکر ہر دور میں سماجی و معاشرتی بہبود انسانی کی خاطر مسلسل مصروف عمل رہے ہیں۔ ان کا مطمح نظر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔مسلمانوں میں سے ہر کوئی حاجت مند اور محتاج افراد کی ضروریات کی تکمیل کی ذمہ داری کتاب و سنت کے عائد کردہ احکامات کے مطابق محسوس کرتا ہے ۔عید جیسی تقریب بھی ایک مسلمان کو یہی احساس دلاتا ہے ۔ اس تعلق سے اللہ کے رسولﷺ کا یہ طرز عمل ذہنوں میں مستحضر رکھیے کہ جب آپ ﷺ عید کی نماز ادا کرنے کے بعد واپس لوٹ رہے تھے کہ راستے میں ایک بچے کو غمگین پایا ، آپ وجہ دریافت کہ تو اس بطے نے جواب دیا کہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ،آپ ﷺ نے بچے کے سر پر دست رکھا اور اپنے گھر لے آئے اور اس کو عید کی خوشی میں شامل فرمایا۔
عید اور مابعد عید
دین کا جو مطلوبہ فرد ہوتا ہے اس کا ایک معیار ہوتا ہے ۔ اور مطلوبہ معیار پر اترنے یا مطلوبہ فرد بننے کے لئے اسلام تذکیہ و تربیت جیسے مراحل سے انسان کو گذارتا ہے ۔ عید کے بعد ہر مسلمان ایک تربیت یافتہ فرد کی حیثیت سے نمودار ہوتاہے۔ اس تربیت یافتہ انسان سے احکام الٰہی کی خلاف ورز ی نہیں ہونی چائیے اور نہ ہی اس کو اللہ کی نافرمانی اور روگردانی کا شکار نہیں ہونا چائیے ۔ تربیتی مرحلہ سے گزرنے کے بعد انسان میںایک خاص کیفیت پیداہوجاتی ہے ،جس کو ہم عام فہم زبان میں ایمانی کیفیت کے نام سے جانتے ہیں ۔ یہ ایمانی کیفیت انسان کے دل و دماغ سے تعلق رکھتی ہے اور ان دونوں میں ایک خاص تبدیلی لاتی ہے ۔ اسی تبدیلی کے لئے اللہ تعالی انسان کو تربیت کے مراحل سے گزارتا ہے ۔ ایمانی کیفیت اور اللہ تعالی ٰ سے تعلق برقرار رکھنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہنا چائیے ۔ جب بھی یہ تعلق ضعف کا شکار ہوجائے تو فورا مالک حقیقی کو پکارنا چائیے ۔ اس پکار کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان الفاظ میں محفوظ رکھا ہے :
’’اور جب میرے بندے تم سے میرے بابت پوچھیں تو میں نزدیک ہوں ،پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے ۔تو چائیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں تاکہ وہ ہدایت پائیں ۔‘‘ (ملاحظہ ہو ، البقرہ : ۱۸۶)
رمضان فرد اور سماج میں اچھے محاسن پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ محاسن اور صفات اگر فرد میں پیدا نہ ہوں تو اس کے روزے رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ۔روزوں کی مقصدیت تقوی سے مشروط ہے اور اگر فرد میں تقوی کا رنگ اور اس کے اثرات نمایاں نہ ہوں تو حقیقی معنوں میں روزوں کے ساتھ مزاق کیا گیا ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری طرز عمل بھی ان ہی جیسا ہوجن کے بارے میں کہا گیا ہے ؎
چورخت خویش بربستم ازیںخاک
ہمہ گفتند بامن آشنا بود
ولیکن کس ندانست این مسافر
چہ گفت وباکہ گفت وازکجابود
جب میں اس دنیا سے رخصت ہونے لگا تو سب نے انتہائی محبت اور اپنائیت کے ساتھ کہا کہ مجھے اس سے قلبی لگاؤ تھا اور یہ مجھے جان سے بھی زیادہ عزیز تھا لیکن حقیقت کوئی نہیں جان سکا کہ یہ مہمان کہاں سے آیا تھا؟ اور کس لئے آیا تھا ، اس نے کیا کہا؟ اور کس سے کہا ؟عید کو یوم الجائزہ بھی کہا گیا ہے ،کیوں کہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو انعام و اکرام سے نوازتا ہے ۔یہ انعام و اکرام درحقیقت ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے روزوں کے تقاضے بھی پورے کئے ہوں اور ماہ رمضان کا بھر پور احترام بھی کیا ہو۔
رابطہ6397700258