عید الفطر کے دن بھی حسب معمول کشمیر کے طول وعرض میں انسانی خون کی ارزانی کے دلدوز مناظر دیکھنے کو ملے۔ اننت ناگ اسلام آباد میں ایک نوجوان گولیوں کا شکار ہوکر جان بحق ہو ا،کئی مظاہرین پر پلیٹ کی بارشیں ہوئیں جب کہ شوپیان میں بھی فولادی ریزوں نے کئی نوجواںکے بدن اور بصارت کو نشانہ بنایا۔ اگر چہ تمام مسلمانوں کیلئے مسرت اور خوشی کا پیغام لے کر آتا ہے لیکن دنیا کے دیگر مصیبت زدہ مسلمانوں کی طرح ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوںکیلئے عید کی خوشیاں کوئی خاص معنیٰ نہیں رکھتی ۔ گذشتہ تیس برسوں کے نا مساعد اور پُر آشوب حالات نے کشمیریوں کیلئے عید کی خوشیوں کو جیسے چھین کے رکھ دیا ہو ۔ گذشتہ تیس برسوں کی تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر میں عید کے دن بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ کس کا جنازہ اٹھے ، کہاں دھماکہ ہو ، کہاں گولیاں چلیں یا کہاں وردی پوش اہلکار اپنی طاقت کا نہتے مظلوم لوگوں پر استعمال کریں۔ تیس برسوں کی مار دھاڑ نے یتیموں ، بیوائوں اور ناداروں کی ایک ایسی بڑی فوج پیدا کی ہے جن کی باز آبادکاری اور روز مرہ کے مسائل پوری قوم کیلئے کشمیر مسئلہ کے حل سے بھی زیادہ بڑے چلینج کے طور ابھر کو سامنے آئے ہیں ۔ اسلام بلا شبہ نہ صرف ایک مکمل ضابطہ حیات ہے بلکہ ایسا کوئی بھی مشکل سے مشکل معاملہ نہیں ہے کہ جس کا حل اسلام نے نہ دیا ہو ۔ زکواۃ ، عشر اور صدقہ جات کی ادائیگی اور منظم بیت المالوں کا قیام وہ قیمتی تحفہ ہے جس پر اگر مسلمان عمل کریں تو انہیں نہ کسی کے آگے بھیک مانگنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی سماج میں برائیاں اور تخریب کاری پھیلنے کا کوئی اندیشہ پنپ سکتا ہے ۔ بیشک رمضان کے مقدس مہینے میں پوری قوم نہ صرف روزوں کا بھر پور اہتمام کرتی ہے بلکہ عطیات اور صدقات دینے کی دھوڑ سی چاروں طرف لگ جاتی ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم بحیثیت قوم کے اپنی ملی اور سماجی ذمہ داریاں نبھانے میں سنجیدہ اور مخلص رہے ہیں ۔ جواب بد قسمتی سے منفی میں ہے ۔ بلا شبہ مختلف لوگ انفرادی اور اجتماعی سطح پر خیراتی اور سماجی کاموں میں عرصہ دراز سے مصروف ہیں لیکن جس اجتماعی سوچ اور طریقہ کار کا تقاضہ اسلام اور دور جدید کے حالات ہم سے کرتے ہیں بدقسمتی سے ہم اس سے کوسوں دور ہیں ۔ ماہ مبارک کے دوران ہر روز ہر گھر پر کئی کئی لوگ دستک دیتے ہیں ۔ کوئی کسی مسجد شریف کی تعمیر کیلئے چندہ مانگنے آتا ہے تو کوئی کسی دارالعلوم میں غریب اور نادار بچوں کا واسطہ دیکر چندہ طلب کرتا ہے ۔ اسی طرح انفرادی طور ناتوان ، یتیم ، محتاج اور بیوائیں بھی ماہ مبارک کے دوران گھر گھر دستک دیتے ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ قلیل آمدنی والے لوگ بھی کسی کو شائد ہی خالی ہاتھ لوٹاتے ہیں ۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق اجتماعی سطح کے بجائے انفرادی سطح پر صدقات اور چندہ وغیرہ جمع بھی کریں اور ادا بھی کریں تو کیا ہزاروں یتیموں ، ناداروں اور تشدد سے متاثرہ افراد کے بیش بہا مسائل کا حل ممکن ہے ۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ماہ مبارک کے اختتام کے ساتھ ہی نہ کوئی صدقہ دیتا ہے اور نہ ہی کہیں مساجد سے لیکر محلوں تک میں وہ اسلامی جزبہ نظر آتا ہے جو کہ پورے ماہ مبارک کے دوران ہر بستی اور ہر گھر کے علاوہ ہر فرد میں نظر آتا ہے ۔ نہ تو کوئی مساجد کی تعمیر سے انکار کر سکتا ہے اور نہ ہی مدارس کی اہمیت سے لیکن جہاں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو گاجر مولیوں کی طرح کاٹ کے رکھ دیا گیا ہو ، ہر بستی میں درجنوں یتیم کسمپرسی کی حالت میں ہوں ، درجنوں بیوائیں اپنا چولھا تک جلانے کی حالت میں نہ ہوں ، یتیم بچے اسکولوں میں فیس ادا کرنے سے قاصرہوں اور جان لیوا بیماریوں میں ملوث مفلس لوگ دوائی کی ٹکیا خریدنے کیلئے محتاج ہوں وہاں پہلی ذمہ داری ہر حال میں ان بد نصیب لوگوں کی طرف توجہ دلانا ہی پہلی ترجیح ہونی چاہئے ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہم گذشتہ تیس برسوں کے دوران ریاست کے اندر ایک بھی غیر سرکاری مگر بین الاقوامی معیار کا اسکول ، یونیورسٹی ، مدرسہ یا اسپتال یا کوئی اور اہم ادارہ بنا نہ سکے ۔ مدرسوں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ہر محلے میں مدرسہ قائم کرنا شائد مدرسوں کے قیام کی روح اور اہمیت کو ہی ختم کر کے رکھ دیتا ہے ۔ بیشک ہمیں مذہبی عالموں اور اماموں کی ضرورت ہے لیکن اگر ان مدارس میں دینی تعلیم کے علاوہ انتہائی اعلیٰ معیار کی مروجہ تعلیم پر توجہ نہ دی جائے تو مدارس کے ناقدین کا یہ کہنا بلا وجہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ ان دینی مدارس میں اکثر یتیموں اور غرباء کے بچوں کو ہی داخل کرانے کیلئے راغب کرایا جاتا ہے ۔ اس سوال کا جواب دینی ، فلاحی اور سماجی تنظیموں کے علاوہ حریت قیادت کو بھی دینا ہوگا کہ آخر وہ ایک ایسا نظام اور طریقہ کار ترتیب دینے میں کیوں ناکام ہو گئے کہ نہ تو مستحقین کی منظم طریقے سے کفالت ہو سکی اور نہ ہی ہم بحیثیت ایک امت کے اپنے فرائض ادا کر سکے ۔ کچھ نہیں تو ایک عدد ریاست گیر بیت المال کا قیام نہ صرف وقت کی ضرورت تھی بلکہ کافی حد تک مظلوموں کی بے بسی سے نمٹنے کیلئے سود مند ثابت ہوتا ۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور دیگر ممالک سے غیر سرکاری تنظیموں اور افراد نے کشمیر میں تشدد سے بری طرح متاثرہ افراد کی باز آباد کاری کیلئے بھر پور معاونت کرتے آئے ہیں لیکن بد نصیبی تو یہ ہے کہ اس خیراتی امداد کا معمولی حصہ بھی مستحقین تک نہیں پہنچ سکا ۔ میرا مقصد ہر گز کسی پر انگلی اٹھانا نہیں لیکن تلخ حقیقتت یہ بھی ہے کہ کشمیریوں کے مصائب پر کچھ لوگوں کے عالی شان محل بھی بنے اور انہوں نے مذہبی لباس پہن کر اپنے لئے وہ سارا کچھ حاصل کیا جس کا وہ کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ صرف فتویٰ بازی سے ہم اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں سے ہرگز بھاگ نہیں سکتے ۔ اسلام میں نہ صرف خلوص کی بنیادپر سوال کرنے کی بھر پور گنجائش موجود ہے بلکہ ہر سوال کا جواب دینا مذہبی پیشوائوں اور امت کے غمخواروں پر لازمی ہے ۔ جہاں چاروں طرف ماہ مبارک کے دوران لوگ کافی حد تک صدقات وغیرہ دینے میں پیش پیش رہتے ہیں وہاں بد قسمتی سے عید کی آمد کے ساتھ ہی ہم بحیثیت ملت کے اپنی تمام ذمہ داریوں کو ایسے بھولتے ہیں کہ جیسے ماہ رمضان کے بعد مفلسوں ، ناداروں ، یتیموں اور بیوائوں کو باقی ماندہ گیارہ مہینوں کیلئے اور چیزیں تو دور کی بات کھانے پینے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی ۔ ملت کے غمخواروں کو اس بات پر غور و خوض کرنا ہوگا کہ آخر کس طرح امت مسلمہ کی کھوئی ہوئی شان اور بھان کو بحال کیا جائے اور کس طرح اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اگر ہم ایک ہاتھ سے کسی کی مدد کریں تو دوسرے ہاتھ کو پتہ بھی نہ چل جائے ۔ ہمارے ہاں صاحب ثروت لوگوں کی ہرگز کوئی کمی نہیں لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ چند لوگوں کو چھوڑ کر بیشتر اپنی دولت یا تو عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں یا پھریہ ظاہری سخاوت اور نمود و نمائش پر استعما ل کی جاتی ہے ۔ جب تک نہ ہم اسلام کی بنیادہ روح کو سمجھ کر اپنی بنیادی ذمہ داریوں کا احساس کرکے اجتماعیت کے تصور کو پنپنے کا موقعہ دیں گے شائد ہی ہمارے لئے زمینی صورتحال میں کوئی تبدیلی رونما ہو اسکتی ہے۔ ہر بات میں نون میں نقطہ نکالنے اور ہندوستا ن کو ہر مسئلہ کیلئے ذمہ دار ٹھہرانے سے پہلے ہمیں چاہئے کہ ایک دوسرے سے الجھنے کے بجائے اور ایک دوسرے پر فتویٰ بازی کے بجائے نیکی اور اچھائی کے کاموں میں تعاون کریں اور تعمیری تنقید برداشت کرنے اور دوسروں کا نقطہ نظر سننے کی سکت اپنے اندر پیدا کریں ۔ اگر ہم نے صرف اپنی الگ الگ اور ڈیڑھ انچ کی مساجد بنانے کو ہی اپنی اپنی منزل مقرر کیا تو نہ صرف ہمارا وجود خطرے میں پڑ جائے گا بلکہ پورے معاشرے بگڑنے کے ساتھ ساتھ ہمارے حریف ہماری احمقانہ سوچ پر ہر بار لمبی قہقہیں لگانے میں حق بجانب ہونگے ۔ عید کا پیغام شائد یہی ہے کہ اس پُر آشوب دور میں ہم اپنے ہزاروں محسنوں ، یتیموں اور بیوائوں کی کفالت ، تعلیم و تربیت اور باز آباد کاری کو کسی پر احسان کے بجائے اپنا فرض عین سمجھ کر ایک ایسی نئی صبح کا آغاز کریں جس کی روشنی سے ہم سب کی تاریک راہیں اجتماعی طور سے منور ہو سکیں۔