بھئی یہ کیا بڑے دنوں سے کوئی اَتہ ہے نہ پتہ ۔ وقت کی قیامتوں سے بے خبر ہو کہ آندھیوں سے ناآشنا؟دنیائے دوں میں گوشہ نشین ہو یا عالم ِ لاہوت میں مست؟ خط وکتابت خواب ،خبر پرسی سے اجتناب ، خدا رایہ ظلم ِبے حساب نہ کر ئیو۔ یہاں غالب عالم ِاضطراب میں ہے۔ لگے ہاتھوں بتائیو یہ بے رُخی یہ سرد مہری کیا معنی؟ ملاقات کی فرصت نہ دیدار کی رغبت، کیا مطلب ؟ خطا ہوئی تو سزا دیجئے ، قطع ِ تعلق نہ کیجئے؟ یہاں کا حال چال کیا پوچھئے ! کسی کے لئے بلاؤں کا زمانہ ، ہلاکتوں کا فسانہ،اذیتوں کاخُم خانہ، تکلیفوں کی دُھوم، پریشانیوں کاہجوم ہے۔ کوئی مزے کرے، لطف اٹھائے ، جشن منائے، ناچے گائے، دھوم مچائے، وازہ وان چٹخارے، پٹاخے پھوڑے، عیدیں منائے۔ زندگی اسی مجموعہ ٔ اضداد کانام ہے ؎
کوئی ہنس رہاہے کوئی رورہاہے
کوئی پار ہاہے کوئی کھورہاہے
کوئی تاک میں ہے کسی کو ہے غفلت
کوئی جاگتا ہے کوئی سورہاہے
کہیں نااُمیدی نے بجلی گرائی
کوئی بیج اُمید کے بورہاہے
اسی سوچ میں تو ر ہتاہوں اکبرؔ
یہ کیا ہورہاہے، یہ کیوں ہورہاہے
جان ِ من! یہاںآدمی پر یشاں، آدمیت ہراساں، تلوارحکمراں،انصاف بے خانماں، قلم مر ثیہ خواں، خیال سر بہ گربیاں، زبان پا بہ جولاں، گھر مثل ِ زنداں،چشم گریاں، قلب بریاں، عید رمضاں ماتم کا عنواں ، کیوں کہ حال یہ ہے ؎
جنوں وجبر وجنگ ہے فسادو جورو قہر ہے
جدال گاؤں گاؤں ہے قتال شہر شہر ہے
سپاہیوں کی موج ہے تباہیوں کی لہر ہے
ہوامیں جوئے مرگ ہے فضا میں بوئے زہر ہے
کماں میں تیرِ شہنہ کمیں میں شہر یار ہے
خزاں کہیں گے پھر کسے اگر یہی بہار ہے
یہ خانہ خراب تاسف و تحیر کے سوالوں میں غوطہ زن ہے ، کیا یہی ہے سیاست ِدہر کا مکر وفن ؟ اقوام متحدہ میںالمیوں کی سرزمین کا دُکھڑا سنا گیا، پہلی بار کربلائے کشمیر میں تارتار قبائے انسانیت کا ذکر چھڑا، مگر آہ ! کشمیر کوایک بھاری قیمت چکا نی پڑی ۔ ابھی صبح جنت ِارضی میںشبانہ روز شامِ غریباں پر عالمی ادارے کی نیند ٹوٹی نہ تھی کہ سر شام اہل کشمیر کی قسمت پھوٹی ۔ قیامت صغریٰ یہ ہوئی کہ قلم کے دھنی شجاعت بخاری کو دست ِ غیب نے دیدہ ودانستہ جام ِ شہادت پلایا ، رقابت وعداوت ، سیہ کارانہ سیاست نے شجاعت کا قصہ یک لخت تمام کیا۔ قاتل و بد خواہ جتنا بے چہرہ ہے، واللہ اتنا ہی اس کا مذمو م ارادہ بے حجاب ہے۔ اہل ِنظر یہ کہتے پھریں : اہل ِانتقام نے بہ عجلت کشمیر کو دہشت گرد ی کا محور جتلانے کا یہ قاتلانہ اہتمام کیا۔تازہ خون ِ ناحق سے اپنی پیاس بھی بجھائی ، اہل کشمیر کا درد اُجاگر کرنے والوں کو بزبان حال پیغام بھی دیا : خبردار!اگر تم میں سے جن جن کو صداقت کاروگ لگاہے، وہ فوراً اپنے قلم توڑ دیں ، زبانیںبند کریں، آزادنہ سوچنا ترک کریں، سچ بولنے سے باز آجائیں ۔ ہم نے جلیل اندرابی کی طرح شجاعت کے سینے میں چند گو لیاں پیوست کیں، وہ پل بھر میں مشت ِخاک کا ڈھیر ہوا ۔ جرم پوچھتے ہو ؟ دفاعِ وطن کی قلمی وکالت اُس کا جرم ، بے خوف وخطر بولنے کی عادت اُس کا گناہ ، کڑوا سچ کہنے کی ہمت اُس کی غلطی ۔ ہم نے اسے یک بار کڑی سز ادی، صداقت کا گلا دبوچ لیا، خامہ ٔ حق بیان کی روشنائی چھین لی ، راست گوئی کا حوصلہ دبایا ، پلک جھپکتے ہی تہذیب وشرافت لہو لہو کفن میں لپیٹ لی، انسانیت کا دن دھاڑے قتل کیا ، اب یہ زبان ہمیشہ ہمیش کے لئے گنگ ، بیان منجمد، خیالات منوں مٹی نیچے دفن ۔ کون مائی کالال ہے جو جرأت ِاظہار کا جوکھم پھرسے اٹھائے ؟کس مجنون پر سچائی پر مر مٹنے کا نشہ چھا جائے ؟ کون سر پھرا انصاف کی دہائیاں دیتے ہوئے مظلوموں پراپنی جان نچھاور کر ے ؟ کس باولے کو انسانی حقوق کی پامالیوں پر خون کے آنسو بہانے کا دورہ پڑے؟ بندے نے بھی بہ ہوش وگوش یہ پیغام سنا مگر ؎
میں اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تُواورایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں
افسوس صدافسوس ! شجاعت حیاتِ مستعار کا قفس توڑ کے جاودانی سفر پر روانہ ہوا ۔’’بلند کشمیر‘‘ کا معمار اب ہمیشہ کے لئے خاموش ، لوح وقلم کی پرورش کر نے والا ہاتھ بے حس و حرکت ، حق کی حامی زبان پر تاقیامت بندش ، وطن کی مٹی، وطن کی زبان، وطن کے ورثے سے محبت بھری دھڑکنیں ساکت وجامد !!! کیا یہی دن دیکھنے کو جی رہاہوں ؎
دیکھ کر رنگ ِ فنا خون ِ جگر پینا پڑا
زندگی سے سخت گھبرایا مگر جینا پڑا
خانہ ٔ اُمیدآتا ہے نظر اُجڑا ہوا
دل کو حیرت ہے کہ یا اللہ کیا تھا کیا ہوا
استغفراللہ ! ایک ماناہوا خبر ساز پل بھر میں خود خبر بن جاوئے ، ایک منجھا ہوا تجزیہ کار خود بحث وجدال کا عنوان ہو جاوئے، یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے؟ موت کا لمحاتی افسانہ یا انگار وادی میں جینے کا جرمانہ؟ جو بھی ہو،ارضِ کشمیر بے قرار ہے ،’’ بلند کشمیر‘‘ سوگوار ہے ،’’پرچم‘‘ دل فگار ہے،’’ سنگر مال‘‘ غم کی منجدھار ہے ‘ اخبارات اشک بار ہیں، قلم بے یارو مددگار ہیں، الفاظ نیم جان ہیں ، خیالات گھٹ گھٹ مر رہے ہیں ، تحریریں ماتم کرر ہی ہیں، خبریں بین سنارہی ہیں ۔نہیں معلوم اشک وآہ کی یہ طویل رات ابھی اور کس کس مجنون کو اندھیاروں میں نگل ڈالے۔ حیران وششدر ہوں یہ کیا ہورہاہے ۔ واللہ سامان سو برس کا ہے مگرپل کی خبر نہیں ؎
یہ بے دلی یہ بے رُخی یہ برہمی یہ بدظنی
رمیدگی وشعلگی کشیدگی ودشمنی
غبارِ حرب وضرب ہے خروشِ گیرودار ہے
خزاں کہیں گے پھر کسے اگر یہی بہار ہے
جانِ جگر ! معاف کر ئیو! میں بھی کیاغم کا بہی کھاتہ کھولے بیٹھا ، آپ بھی رنجیدہ ہوئے، چلو منہ کا ذائقہ بدل دیں ۔ آپ کی طویل غیر حاضری نے بندے کے صبر کا خوب امتحان لیا۔ بندہ ٔ پُر عیب نے غیب دانوں سے آپ کی معلومات مانگیں ، ہواؤں سے پوچھا، فضاؤں سے سوال کیا ، دوست واحباب سے دریافت کیا، قیاسوں کے گھوڑے دوڑائے ، تجسس کے چراغ جلائے ، اٹکلوں کے بازار سجائے ،سوالات کے دشت اُگائے، آمران ِ دلی ، وارثان ِحریت، ساکنانِ بجبہاڑہ ، فداکاران ِمجاہد منزل کی ٹوہ لگائی تا کہ بہشت کشمیر میں جناب کی عدم موجودگی کا راز کھل جاؤئے،سب بے سود ہوا سب بے کار گیا۔ تھک ہار کردیوانے خانے میں اپنی پیاری پیاری چلم سلگائی ، دم مارودم، مٹ جائے غم کے کش لگائے ۔اتنے میں کاذب ابن دروغ اپنی محفل جمانے چلا آیا ۔ سلیک علیک کے بعد کہا : چچا میری قیافہ شناسی کہے آپ پر بلاوجہ پریشانی کا دورہ پھر سے پڑا ہے ۔ مزاج اچھے ہیں ، دشمنوں کی طبیعت ناساز تو نہیں ؟ بیگم صاحبہ نے کوئی نئی فرمائش کی ؟ قرضہ دینے والے مکر گئے کیا ؟ ناگپور سے پر ناب مکھر جی کی طرح کوئی بلاوا آیا ؟ رمضان نا جنگ ختم ہونے پر افسوس تو نہیں ؟ ٹر مپ اور کم جونگ کی ملاقات نے دل تنگ کیا؟ میں نے بولا: ابے او مچھر کی اولاد! نظر نہیں آتا کشمیر میں عید سے قبل بھی، عید کے دوران بھی، عید کے بعد بھی خون آشامیاں عروج پرر ہیں ؟ ستم بالائے ستم یہ کہ صحیح الدماغ کشمیری کہیں نظر نہیں آتا۔ کاذب نے میری بات کاٹ لی،راز دارانہ انداز میں کہا: مرزا! معلوم ہے شجاعت بخاری کو اپنی فداکاری کا تمغہ ہمیشگی کی زندگی کی شکل میں ملا۔ رہا صحیح الدماغ کشمیری ، اس پر آج کل قسمت کا ہما مہر بان ہے ، اس کے ستارے چمک رہے ہیں ۔۔۔ مگر اب اس کے پاس فالتو وقت ہے کہاں ؟ اور وہ بھلا دلی کی چکا چوندی چھوڑے غالب منزل کی سوکھی چلم کا کش لگانے کیوں چلا آؤئے؟ یہاں اس کی دل بہلائی کے لئے رکھا ہی کیا ہے؟ آج کل دلی دربار میں اُس کی بڑی مانگ ہے ، مودی اس کی بلائیں لیتا ہے ، راج ناتھ اُ سے دل بیٹھا ہے ، وہ دلی کے الفاظ میںرائٹ مائنڈڈ ہیں، مطلب گول مول، بناسپتی، بازی گر ، جس کا کوئی متعین قبلہ نہیں، سخن ساز، ہر دیگ کا چمچہ، کبھی رائے شماری کی آوارہ گردی کبھی ایکارڈ کا دھمال، کبھی اصرار کبھی انکار، وہ جو کشمیریت کے سالن پر جمہوریت کا بگھارا ڈالے زبان سے انسانیت انسانیت پکار ے، ہاتھ سے اقتدارپر قبضہ جمائے ، سات پشتوں تک عیاشی کا مال جمع کر ے، عام خام کو سبز رومالیں دکھائے، پاکستانی نمک کی ڈلیوں کا درشن کرا ئے، ایک سانس میں جس چیز کومرچی کہے دوسری سانس میں اُسے چینی بتلائے، جو کشمیر میں ایک زبان، جموں میں دوسری بولی ، دلی میں تیسری ہی راگ بھیروی سناوئے ، محبوبہ مفتی ایسے ابن الوقت پر عش عش کرے ، فاروق عبداللہ ایسے پہنچے ہوئے طالع آزما پررشک کرے۔صحیح الدماغ کشمیری چوں چوں کامر بہ ہے ، دلی کا چہیتا، کنول کا لاڈلا ، قلم دوات کا منظور ِ نظر۔۔۔ میں نے یہ سناتو حیرت واستعجاب سے کہا:اچھا بات یہاں تک پہنچی ہے، اب سمجھا صحیح الدماغ آج کل گدھے کے سینگ کی طرح غائب کیوں۔سنو کاذب ِ زماں! صحیح الدماغ کہیںبہ نفیس ملے ، یا اس کی کہیں پرچھائی دیکھو ، فوراً میرے پاس لے آنا، کہنا چشم بدور، غالب کی آنکھیں دیدار کو ترس رہی ہیں،و ہ دعائیں دیتا ہے تمہارا حشر تاشقند معاہدہ جیساہو نہ شملہ سمجھوتہ جیسا ، دلی ایگریمنٹ جیسا ہو نہ لاہور اعلامیہ جیسا ۔ دعا ئے فقیر یہ بھی ہے تم دلی صحیح الدماغ بن کر جاؤ مگر واپس فاترالعقل بنا لوٹ نہ آؤ، اللہ کر ے تم دلی دربار سر اُٹھا کے جاؤ اور جب دشت کی سیاحی سے واپس آجاؤ تو گردن جھکی نہ ہو ۔ میرے مولا! ان ٹوٹی پھوٹی دعاؤں پر اجابت کی مہر ثبت کر نا۔ جاتے جاتے میری دوچار اورنصیحتیں سنتے جاؤ ؎
وہ باتیں جن سے قومیں ہیں نامور سیکھو
ا ُ ٹھو تہذیب سیکھو ، صنعتیں سیکھو ، ہنر سیکھو
بڑھاؤ تجر بے اطراف ِ دنیا میں سفر سیکھو
خواصِ خشک ووتر سیکھو، علومِ بحرو بر سیکھو
اجابت ِدعا کا طالب
غالب