صحافی، خواہ وہ کرہ ارض کے کسی بھی خطے کا ہو، حق گوئی اس کی شان اور جرأت مندی اس کی پہچان ہوتی ہے۔ وہ اپنی جان ہتھیلی پر لے کر نکلتا ہے اور اسے اس کا خوف نہیں ہوتا کہ وہ کب کس کے تشدد کا شکار یا کب کس کی گولی کا نشانہ بن جائے گا۔ جو ملک حالت جنگ میں ہیں ان کے صحافیوں کو بھی ہمیشہ خطرات لاحق رہتے ہیں اور جو حالت امن میں ہیں وہاں کے صحافی بھی ہمیشہ تلوار کی دھار پر رہتے ہیں۔ شام، افعانستان، پاکستان، عراق، یمن، فلسطین وغیرہ کے صحافی تو ہمیشہ خطرے میں رہتے ہی ہیں، ہندوستان کے صحافیوں کی زندگی بھی خطرے سے خالی نہیں رہتی۔ یہاں ان علاقوں کے صحافیوں کے لیے بھی حالات بہت پر امن نہیں ہیں جہاں کسی قسم کی شورش جاری ہو اور ان علاقوں کے صحافیوں کے لیے بھی تحفظ کی گارنٹی نہیں جہاں کوئی شورش نہیں ہوتی ،لیکن تمام قسم کے خطرات کے باوجود حقیقی صحافی حق گوئی کو اپنا شعار اور جرأت مندی کو جزو ایمان سمجھتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہندوتو وادی نظریات کی سخت مخالف گوری لنکیش کا قتل ہو یا پھر کشمیر میں امن کے طرف دار شجاعت بخاری کا۔ یہ دلدوزواقعات سچے صحافیوں کے قلم پر بند نہیں باندھ سکتے۔ اگر ایسا ہوتا تو جب روئے زمین پر پہلا صحافی مارا گیا ہوگا اس کے بعد ہی صحافی اپنی روش بدل لیتے اور اپنے قلم کو چپ کرا دیتے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا اور آگے بھی نہیں ہوگا۔ حقیقی صحافی کا قلم نہ بک سکتا ہے نہ ڈر سکتا ہے۔ وہ بزدل نہیں ہوتا۔ وہ کسی کا غلام نہیں ہوتا۔ وہ صرف اور صرف اپنے ضمیر کا غلام ہوتا ہے۔ کوئی بھی دھمکی اسے اس کے جادہ سے ہٹا نہیں سکتی۔ شجاعت بخاری کا قتل جہاں بہت سے سوالات کھڑے کرتا ہے، وہیں اس بات کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ سچا صحافی اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتا اور سچ بولنے سے کبھی غافل نہیں رہ سکتا۔
شجاعت بخاری جہاں جموں و کشمیر میں قیام امن کے حامی تھے اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں سرگرم تھے وہیں وہ تشدد اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے بھی خلاف تھے۔ وہ نہ تو حکومت کے خوشامدی تھے اور نہ ہی عسکریت پسندوں کے نمائندے۔ وہ ہر قسم کے تشدد کے خلاف تھے۔ انہوں نے جولائی 2016میں بی بی سی کے لیے اپنے مضمون میں لکھا تھا ’’1990میں (جموں و کشمیر میں) شورش کے آغاز کے بعد سے اب تک 16صحافیوں کا قتل ہو چکا ہے۔ جان کو خطرہ، دھمکی، حملہ، گرفتاری اور سینسرشپ مقامی صحافیوں کی زندگی کے جزو لاینفک بن گئے ہیں۔ صحافی سیکورٹی فورسز اور ملی ٹینٹوں دونوں کی جانب سے نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ اخباروں کو وفاقی حکومت کے اشتہارات سے، جو کہ آمدنی کا ایک کلیدی ذریعہ ہوتے ہیں، محروم رکھا جا رہا ہے۔ اگر کوئی صحافی سیکورٹی فورسز کے مظالم کی رپورٹنگ کرتا ہے تو اسے ملک دشمن قرار دینے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ اگر وہ جنگجووں کی غلطیوں کو ہائی لائٹ کرتا ہے تو اسے آسانی کے ساتھ تحریک دشمن قرار دیا جا سکتا ہے‘‘۔
ان کے اس اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر میں صحافیوں کے لیے حالات کتنے مخدوش ہیں۔ اس کے باوجود وہ تین تین اخبارات نکال رہے تھے۔ انگریزی میں Rising Kashmir، اردو میں بلند کشمیر اور کشمیری میں سنگرمال۔ انہیں اس سے قبل دو بار اغواء کیا جا چکا تھا۔ ایک بار ملی ٹینٹوں نے کیا تھا، جب ایک بندوق بردار نے ان پر گولی چلانے کی کوشش کی تو ان کی خوش قسمتی سے اس کی بندوق جام ہو گئی۔ اسی درمیان وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سے وہ مسلسل خطرات کی زد میں رہے۔ ان کے ساتھ دو محافظ ہمیشہ رہتے تھے۔ جب عید سے دو روز قبل افطار سے عین پہلے ان پر حملہ کیا گیا تو اس حملے میں ان کے محافظ بھی مارے گئے۔
شجاعت بخاری کے قتل پر نہ صرف صحافی برادری بلکہ سیاست دانوں، دانشوروں، سول سوسائٹی اور عوام کی جانب سے اسی طرح ناراضگی اور احتجاج کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جس طرح گوری لنکیش کے قتل پر کیا گیا تھا۔ ا س کے باوجود ہندوستان میں صحافیوں کے تحفظ کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ حالانکہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی سلامتی کو یقینی بنائے لیکن موجودہ حکومت اس بارے میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہے۔ وہ ان صحافیوں کی سلامتی کو تو یقینی بنا سکتی ہے جو اس کے حاشیہ بردار ہوں لیکن ان کی سلامتی کی کوئی گارنٹی نہیں لے سکتی جو اس کی عوام دشمن پالیسیوں کے نکتہ چیں ہوں۔گوری لنکیش کے قتل میں جن لوگوں پر شبہ ہے وہ خود کو ہندوتو کا محافظ بتاتے ہیں۔ جو شخص پکڑا گیا ہے اس نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے لنکیش کو اس لیے مارا کہ اسے بتایا گیا تھا کہ ہندوتو کے تحفظ کے لیے یہ کام ضروری ہے۔ اسی لیے ایک ہندوتووادی تنظیم رام سینا کی جانب شبہ کی سوئی اشارہ کر رہی ہے۔ لنکیش کے قتل کے بعد ہم نے اپنے ایک مضـمون میں کہا تھا کہ ’’یہ سمجھ لینا کہ گوری لنکیش کا قتل آخری صحافی کا قتل ہے، احمقانہ بات ہوگی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ تمام صحافی نرغے میں ہیں جو خاص نظریے کی مخالفت کرتے ہیں۔ جو اس ملک کو فکری آمریت کے دلدل میں پھنسنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لنکیش کے قتل کے خلاف پورے ملک میں احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن معاملہ یہیں پر نہیں رُکے گا۔ صحافیوں کو اپنے وجود اور اپنی عزت نفس کے تحفظ اور بقا کے لیے ایک طویل لڑائی لڑنی ہوگی‘‘۔ کشمیر میں نوے کے آغاز سے اب تک کم از کم 17؍ صحافی ہلاک کئے جا چکے ہیں اور کئی ایک صحافی ا ور قلم کار مختلف الاطراف بندوقوں کے حملوں میں شدید زخمی ہوئے۔ کشمیر میں جو حق پسند صحافی ہیں ان کی جان کو ہمیشہ متحارب قوتوں سے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ کب کون کہاں کس کی گولی کا شکار ہو جائے ، یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صحافی خاموش ہو جائیں۔ گوری لنکیش کے قتل سے ہندوتو وادی عناصر یہ نہ سمجھیں کہ اب ان کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز خاموش ہو گئی ہے اور شجاعت بخاری کے قتل سے کشمیر میں زیادتی کرنے والے یہ نہ سمجھیں کہ اب ہر حق گو کشمیری صحافی ڈر جائے گا۔ حق گو اور جرأت مند صحافیوں کا قافلہ ہمیشہ رواں دواں رہا ہے اور آگے بھی رہے گا۔ غالب نے سچ کہا تھا ؎
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
لیکن یہاں تو حکایات خوں چکاں بیان کرنے میں صحافیوں کے سر قلم ہوئے جا رہے ہیں۔ ہاتھ کا قلم ہونا تو اب معمولی بات رہ گئی ہے۔
نوٹ: فاضل مضمون نگار وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے کے علاوہ کئی علمی کتابوں کے مصنف ، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں