یہ ایک سیاسی معمہ ہے کہ ریاست کی چیف منسٹر صاحبہ کا اصرار ہے کہ اس بار مزاحمتی قیادت کو حکومت ہند کی مذاکراتی پیش کش پر لبیک کہنا چاہیے اور یہ کہ انہیں یہ زریں موقع نہیں گنواناچاہیے ۔ محبوبہ مفتی کا لب و لہجہ اور انداز ِگفتگو بالکل ایسا ہی ہے جیسے پی ڈی پی نے انتخابی حریف بی جے پی کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کر تے ہوئے قوم کویہ سنہرے سپنے دکھائے تھے کہ قطبین کایہ ملاپ کشمیر کے ہردرد کادرماں ثابت ہوگا، افسپا واپس جائے گا ، ریاست کو مرکز کی تحویل میں پاور پروجیکٹ واپس ملیں گے ، حریت سے گفت وشنید ہوگی ، ہند پاک مذکرات کا درماندہ سلسلہ پھر سے رفتار پکڑے گا، وغیرہ وغیرہ۔ آج اتنے سال گزرنے کے بعد ان میں سے ایک بھی سنہرا سپنا ساکار نہ ہو ا ۔ اس کے برعکس زمینی حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کے ساتھ اقتدار میں پی ڈی پی کی شراکت داری کا سار افائدہ اول الذکر پارٹی کو متواتر ملتا جا رہاہے۔ مبصرین کی نگاہ میں موصوفہ کے پرو ڈائیلاگ ا صرار پر یہ مثال صادق آتی ہے جیسے کوئی چھاپڑی فروش گاہکوں کو لبھانے کے لئے زور زور سے آواز دے رہاہو :لوٹو،یہ موقع پھر نہیں آنے والا ، سپیشل آفر ۔ باوجودیکہ اب تک وزیراعلیٰ نے مر کز کو ریاست کے تعلق سے جو جو مشورے باصرار دئے ، انہیں بی جے پی سرکار نے کبھی سنجیدگی سے لیا نہ ان کی شنوائی ہوئی، وزیراعلیٰ کا مزاحمتی لیڈرشپ کو مرکز سے گفتگو کر نے کا مشورہ خوش فہمی پر مبنی ہے جو توجیہہ وتاویل کی محتاج نہیں ۔ مرکز نے رمضان میںایک ماہ طویل جنگ بندی کا اعلان کیا( جسے اب واپس لیا گیا ) تو بھی زمینی سطح پر یہ اقدام اعلان برائے اعلان ثابت ہواکیونکہ آوپریشن ہالٹ کے درمیان جھڑپیں اور ہلاکتیں حسب معمول ہوتی رہیں، بربادیوں کے علاوہ شہری ہلاکتیں بھی معمول کا حصہ بنتی رہیں ۔ اسی دوران مرکز سے مذا کرات کی پیش کش منظر عام پر آئی ۔ یہ آفر انہی معنوں میں خاصا ڈانواں ڈول بنی ہے جیسے سابق آئی بی چیف دنیشور شرما کی بہ حیثیت مذاکرات کار تقرری ایک مذاق بن کر رہ گئی۔ انٹرالوکیٹر کا تقررمودی سرکار کا ایک خوش گوار قدم مانا جاتا لیکن اسے مر کزی وزیر نے ایک نام دیا ، دوسرے وزیر نے دوسرا عنوان دیا ، تیسرے نے تیسری چیز بتایا ، ظاہر ہے سننے والے کنفیوژن میں پڑگئے کہ دنیشور جی کا ایجنڈا صلح صفائی ہے ، بحالی ٔامن ہے ، کشمیری عوام تک جا سوسانہ رسائی حاصل کر نا ہے یا محض اپنی نئی ملازمت کے دن کاٹنا ہے ؟ بعینٖہ اب مرکز کی مذکراتی پیش کش کردی لیکن اس میں خاصے ابہامات کی پیوندکاری کی ۔ اگر یہ پیش کش کوئی سیاسی معنویت رکھتی ہے تو ابھی تک یہ پر یس کانفرنسوں اور اخباری بیانات تک محدود کیوں ؟ مرکزکس موضوع پر حریت سے گفتگو چاہتاہے ؟ ضابطے کے مطابق کسی کو تحریری دعوت دے چکاہے ؟ان حوالوںسے ڈائیلاگ آفرایک معمے سے کم نہیں ۔ مذاکرات کی انوکھی پیش کش کے ساتھ ہی یہ شرطیںبھی جوڑی گئیں:(۱) مرکز مزاحمتی قیادت کو الگ سے کوئی دعوت نامہ نہیں بھیجے گا ،جسے آنا ہے وہ خود آجائے اور بات کرے۔ (۲) بات چیت آئین ہند ہی کے دائرے میں ہوگی۔ (۳) مکالمہ آرائی کے لئے ہم خیال ہونا ضروری نہیں بلکہ صحیح الخیال ہونا لازمی ہے ۔یہ وہ تین نکات ہیں جو مذاکرات سے متعلق بی جے پی سرکار کی طرف سے میڈیا میں آچکی ہیں ۔ مزاحمتی قائدین نے مذاکرات کی اس پیش کش پر اپنے محتاط ردعمل ظاہر کر تے ہوئے بجا طور کہا کہ اس میں ابہامات ہیں جنہیں پہلے دور کرنا ایک ناگزیر ضرورت ہے ۔ ظاہر ہے ابہامات دور کر کے ہی واضح ہوگا کہ مرکز کی مذاکراتی جھولی میں کیا رکھا ہے۔اس بیچ ایک جانب وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نوجوان سنگ بازوں کو معاف کر نے کا بہلاوا دیتے رہے اور دوسری جانب پتھر اؤ کر نے مظاہرین کوگولی ماردینے کامطالبہ کر کے بی جے پی کے ایک ممبر پارلیمنٹ اپنے ہی باسز کی بات کو کھلے عام جھٹلا رہاہے۔ اس موضوع پر وزیردفاع ، چیف آف آرمی سٹاف یا پولیس چیف کے بیانات بھی قطعی طور پر مصالحتی کاوشوں کے اُلٹ میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مرکز کی الل ٹپ مذا کراتی پیش کش کا بغیراس کے کوئی اور مقصد نظر نہیں آتاکہ بی جے پی سرکار اس بات کا اندازہ لگا نا چاہتی ہے کہ آیا کشمیری عوام اور حریت رہنما کشمیر میں مرکز کی سخت گیر یت ، دھونس دباؤ،قتل وغارت اورانسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں سے ابھی تک ٹوٹے ہیں کہ نہیں ۔ اس میں دورائے نہیں کہ بی جے پی نے شروع دن سے اپنی کشمیر پالیسی ڈیول ڈاکٹرائین کے عین مطابق فوجی طاقت اور قوتِ بازو کے سہارے وضع کی ہوئی ہے ، اس پالیسی کواب تک بہت ہی سنگ دلانہ انداز میں چلایا بھی گیا ۔بھاجپا اپنی ووٹ بنک سیاست کے سود وزیاں کے مدنظر بھی کشمیر پرکسی صلح سمجھوتے یا نرم روی کے روا دارنہیں ہوسکتی ۔ بنابریں بھاجپا کا مقررکردہ مذاکات کار اب تک کشمیر حل کر نے ضمن میں بالشت بھر پیش رفت نہ کر سکا ،وہ کبھی دلی جاتا ہے ، کبھی کشمیر لوٹتا ہے، یہاں آکر اپنے ہم نواؤں سے مل لیتا ہے ، گپ شپ کرتا ہے اور وہاں جاکرکشمیر پر چپ سادھ لیتا ہے ۔ کشمیر کا پیچیدہ مسئلہ تودور وہ صاحب پانی ،بجلی ، سڑک اور دیگر چھوٹے چھوٹے عوامی مسائل تک حل کرانے سے قاصر ہے۔ دراصل بی جے پی کا اصل مشن کشمیر یہی ہے کہ کشمیر پر بات چیت اور افہام و تفہیم کے تمام دروازے بند رہیں لیکن باہری دنیا سمیت اندرون بھارت امن پسندلوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ مرکز بات چیت میں یقین رکھتا ہے لیکن چند گنے چنے ملک دشمن کشمیری لوگ کسی صورت بات چیت نہیں چاہتے ۔ بہر صورت مر کز کی مذاکراتی پیش کش پر سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے آزادی پسندوں کو بلواسطہ پیغام دیا کہ دلی سے مذاکرات کا آفر ایک ڈھکوسلہ ہے۔ اگرچہ فاروق عبداللہ ہند نواز وں کی پہلی صف میں شامل ہیں بلکہ کڑوا سچ یہ ہے کہ انہی جیسوں کی کرم فرمائی سے کشمیر میں بھارت ٹکا ہواہے مگروہ جانتے ہیں کہ جب انہوں نے ریاست کے لئے اندرونی اٹانومی کی بحالی کے لئے اسمبلی سے باتفاق رائے قراراداد منظورکروائی جو اصلاًکشمیر کے حوالے سے آئین ہند کی ایک اہم ترین شق کی من وعن بحالی کا مانگ ہے اور تاریخی اعتبار سے ا ُنہی تین کلیدی شرائط کا احاطہ کر تی تھی جن پر شیخ عبداللہ نے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کیا تھا، تو اُس قرارداد کو مر کز نے اس وقت درخور اعتناء ہی نہ سمجھا ، حالانکہ این سی مرکز میں اس وقت واجپائی سرکار کی سیاسی ساجھے دار تھی۔ سوال یہ ہے کہ جب بھاجپا کو آئین ِہند کے تحت این سی کو اٹونامی دینا قبول نہیں تھا تو آج کی تاریخ میں مودی سرکار کیونکرحریت کو آزادی دے ؟ یہ کوئی سر بستہ راز نہیں کہ فاروق عبداللہ بھارت میں سنجیدہ سیاست دان نہیں مانے جاتے مگر بھارت کے سنجیدہ سیاست دان اُن پر زبردست اعتماد کرتے ہیں جیسے کبھی ان کے والد پر کیا جاتا تھا ۔ آج بھی شیخ خاندان کی بھارت کے ساتھ وفاؤں میں کوئی کمی بھی نہیں ، اس کے باوجود ڈاکٹر فاروق کا آزادی پسندوں کو خبردار کرنا ایک مخلصانہ پیغام ہے کہ جب ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے تو تم لوگ کس کھیت کی مولی ہو ۔ ڈاکٹر فاروق کی راست گوئی کو حریت ( میرواعظ) کے دوبار دلی دربار سے براہ راست رابطے کی کہانی بھی جوڑیئے تو یہ اٹل حقیقت قابل فہم بنتی ہے کہ دلی اٹانومی کی بے ضرر قراردادکو گھاس ڈالنے پر تیار نہیں کجا کہ یہ رائے شماری کی حامی بھر لے ۔ اس لئے کشمیر مذاکرات کا آفر بس بیان بازی سے آگے کچھ نہیں ، البتہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے بے تکے اصرار کے ذریعے اسے وزن دار بنانے کی ناکام کوشش کی جاری ہے ۔ غور طلب ہے کہ بھارت کی زیادہ تر ٹی وی چنلوں نے آج تک مسلسل اپنے جھوٹے پروپگنڈے سے بھارتی ناگرکوں کو ذہن نشین کرا یاہے کہ کشمیر میں یہ چند مفا دپرست لوگ ہیں جو پاکستان کی شہ پر امن نہیں چاہتے ،ان کو چھوڑ کربقیہ کشمیر کی اکثریت بھارت کے ساتھ کھڑی ہے ۔ اس سفید جھوٹ کی موجودگی میں مرکز کے ہاتھ بندھے ہونا اور ذہن کسی حقیقت پسند وچار سے خالی ہونا قدرتی بات ہے ۔ اصولی طوربات چیت یاافہام و تفہیم وہاں کام کرتا ہے جہاں کہیں نہ کہیں دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتماد کر تے ہوں اور پیشگی طور جانتے ہوں کہ وہ آگے پیچھے کر کے بیچ کی راہ نکال سکتے ہیں ، انہیں اس بات کا بھی دوطرفہ ادراک ہوتا ہے کہ اپنی اپنی باری پر ہمیں لامحالہ اپنے اپنے موقف کی قید سے تھوڑا بہت باہر آنا ہوگا، تب بات بنے گی ۔ جب یہ صورتیں دوونوںیا ایک فریق میںنہ پائی جاتی ہوں تو بات کیا خاک رنگ لائے ؟ تاریخ بتاتی ہے کہ مرکز کی مذاکراتی پیشکش کا ہمیشہ مدعا یہی رہا کہ چاروناچار آفر ہوبھی تو ایسی بندشوں کے ساتھ کہ حریت رہنماؤں کے پاس ایسی کسی بھی پیش کش کو مسترد کرنے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں بچے ۔ مرکز کی یہ سیاسی چالبازی بالکل وہی نتائج مرتب کرتی رہی ہے جن کی اسے عالمی برادری میں وقتاًفوقتاً ضرورت پیش آتی ہے ۔ بایں ہمہ کشمیر کی گتھی سلجھانے کے لئے طرفین کے پاس ڈائیلاگ کے بغیر کوئی چارۂ کار بھی نہیں ۔ واضح رہے کشمیر کے درد سر پر نتیجہ خیز ڈائیلاگ میں مر کز سے جتنی تاخیر ہوتی رہے ،اسی قدر کشمیر اور زیادہ تباہیوں اور بربادیوں کے سپر دہوتا رہے گا اور برصغیر میں تعمیر وترقی اور نیک ہمسائیگی کا خواب دھرے کا دھرا رہے گا۔
بی جے پی کو یہ زبردست وہم و گمان لاحق ہے کہ ملک کی ملٹری مائٹ سے کشمیر یوں کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کو بھی مار مار کے وہ عبرت انگیز سبق سکھایا جاسکتا ہے کہ وہ کشمیر کا لفظ اپنی زباں پر لاتے ہوئے تھر تھر کانپ اُٹھے ۔ کم ازکم یہ اس وقت سنگھ پریوار کی ا سٹریٹجی بھی ہے اور سیاسی مجبوری بھی کیونکہ اس نے سترسال سے اسی مائنڈ سیٹ کو سیاسی اغراض کے لئے فرقہ واریت اور جذباتیت کے انیٹ گارے سے تعمیرکیا ہے لیکن تاریخ کا انمٹ سبق یہ ہے کہ ایسی حکمت عملیاں ریت کے ڈھیر سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں جو ہوا کے معمولی جھونکوں سے تتر بتر ہوجاتی ہیں ۔ بلاشبہ کشمیر کے جسم پر بھارت کا تسلط اور غلبہ قائم ہے مگر اس کی روح اس تسلط اور غلبے کو کسی حال میں نہیں مانتی، جب کہ اپنی تمام کوتاہیوں اور ناآسودگیوں کے باوجود پاکستان ایک ایٹمی پاور ہے ۔ جہاں تک بی جے پی کے اس بیان کا تعلق ہے کہ کشمیر مدعے پرصحیح ا لخیال لوگوں سے بات کی جائے گی تو اس ضمن میں عرض ہے کہ اگر بھارت کو واقعی کشمیر پر کسی پیش رفت کی فکر لگی ہے تو اسے شروعات میں اپنے ہم خیالوں کو بلا کسی توقف کے اٹانومی یا سیلف رُول دینے میں کوئی لیت ولعل نہیں کر نی چاہیے ۔ اس سے کشمیر سچوئشن راتوں رات سنبھلنے کی ضمانت نہیں مل سکتی مگر بحالی ٔاعتماد میں اس سے مدد ملے گی اور حریت پسندوں کو پیغام جائے گا کہ دلی اب کی بار کشمیر پر تازہ دم سوچ رکھتی ہے ۔اس کے برعکس جب بھارت اپنے ہم خیالوں کی بات ماننے کو بھی راضی نہیں ، جب ا س نے وقت وقت پر دکھایا کہ اسے دلی ایگریمنٹ، اکارڈ ، ایجنڈا آف الائنس یا عوامی نمائندوں کی منظور کردہ اٹونومی ریزولیوشن قابل قبول ہی نہیں تو کیا حریت کو مکالمے کی میز پر آنے کو کہنا ایک پہیلی نہیں ؟ اس پہیلی کو بھوجنا زیادہ مشکل نہیں رہاہے ۔ فی الحال اقوام متحدہ میں کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں پر پہلی بار لب کشائی ہونا اس پہیلی کو بوجھنے کی راہ مزید آسان اور ہموار بنارہی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نائب صدر ہند وینکٹا نائیڈو پاکستان اور حریت سے بات چیت کی حمایت کر چکے ہیں ، جب کہ اکثر ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی عہدیدار ا ور سابقہ انٹلیجنس سربراہان مرکز کو آئے روزپاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے کا مشورہ دیتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ گرم گفتار جنرل بپن راوت بھی رمضان جنگ بندی اور گفت وشنید کی حامی پھر چکے ہیں لیکن افسوس کہ عقل ودانش سے عبارت ان تجاویز کے اُلٹ میں افہام و تفہیم کی راہ اپنانا مرکز اپنے لئے عملاً شجر ممنوعہ بنا چکا ہے ۔ ناقدین کی نگاہ میں اس ہٹ دھرمی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ کشمیر یوں کی سخت گیرانہ نسل کشی اور حالات کی سنگینی کو بر قرار رکھنا مودی سرکار کی ووٹ بنک سیاست کے مفاد میں ہے۔ علاوہ ازیں کشمیر کی ابتر صورت حال کے تسلسل سے خود غرض سیاست کاروں،پولیس ، آرمی اور دوسری ایجنسیز کو بے پناہ مالی فوائد اور بے ہنگم اختیارات حاصل ہورہے ہیں اور انہیں بے پایاں آسائشیں اور مراعات بھی مل رہی ہیں۔ انہیںیہ عناصر کسی صورت خیر باد نہیں کہنا چاہئیں گے۔ لہٰذاناگفتہ بہ حالات اور خون آشام واقعات کے باوجود فی الحال کسی ڈائیلاگ پروسس کا کوئی امکان نہیں نظر آتا الا کوئی زلزلہ نما تاریخی حا دثہ رونما ہو جو دنیائے سیاست ومملکت کو تہ وبالا کر دے ۔ بالخصوص اس بات کے پیش نظر بھی اس چیز کا امکان معدوم ہے کہ بی جے پی کی عوامی مقبولیت کا اپنا گراف روز افزوں گرتا جارہا ہے، اس لئے وہ اپنے بچاؤ میں مصائبِ کشمیرا ورمسلم کشی کے دیرینہ کارڈ کھیلے بغیر کہاں بیٹھے گی ؟ اگلے سال دو بارہ اقتدار میں آنے کے لئے یہ دونوں کارڈ اس کے لئے شہ رگ اور اٹوٹ انگ کی جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔
موبائل9419514537