مسلمان بھلے ہی پورا سال غفلت میں گذاردیں مگر جب ماہِ رمضان کی آمد ہوتی ہے تو یہ چند روزہ مہمان بن کر ہمیں مومن بناتا ہے اور ہم میں سے اکثر لوگ اپنے رب کی تلاش میں نکل پڑتےہیں، کبھی مسجد میں ،کبھی تاریک راتوں میں سجدے میں آنسو بہاتے ہوئے ،کبھی حالت روزہ میں سوکھے لب قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے، کبھی غریبوں ، یتیموں اور مسکینوں کی مدد کرتے ہوئے ۔ یہ یہ تمام عبادتیں اپنی جگہ مگر ہم اپنا روٹین ماہِ رمضان کے گذرنے کے ساتھ ہی کیوں بھول جاتے ہیں جب کہ اللہ رب العزت کبھی ایک پل بھی اپنے بندوں کوبھولتاہی نہیں، نہ رمضان سے پہلے نہ ماہِ رمضان گذرجانے کے بعدبلکہ اللہ تعالی تو ہمیشہ اپنے بندوں کے دل میں اور کائنات کے ذرہ ذرہ میں ہر لمحہ،ہرپل بسارہتا ہے ، وہ ہمیں بن مانگے رزق اور نعمتیں فراہم کرتا رہتاہے،اسے بتائے بغیرہنسی خوشی کے سامان مہیا کراتاہے،ہرچہارجانب سے اس کی منشا سے ہماری کامیابی کے دروازے کھلتےہیںلیکن ہائے افسوس ! غافل بندے اپنی غفلت اور فانی دنیاکی حرص وطمع میں اپنے رب کوبھلا بیٹھتے ہیں۔ شکر ہے اُس پاک ذات کا جس کے قبضۂ قدرت میں ہر جاندار کی جان ہے، جو چاہے تو ایک ہی جھٹکے میں زمین و آسمان کو ایک کردے اور ہر روح کو جسم سے جدا کردے، جس کی پوری کائنات پہ بادشاہت قائم ہے ،اس کی مہربانیوں اور محبت کا یہ عالم ہے کہ اپنے بگڑے بندوں کو پیار سے بار بار موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کو نیک بناتے ہوئے، صبر و شکرکی صفات اپنے اندرپیدا کرتے ہوئے، نیک بندوں کی صفوں میں شامل ہو جائیں ۔اسی مقصد کے لئے اللہ رب العزت نے رمضان جیسے مقدس و بابرکت مہینہ سے اپنے بندوں کو نوازا ہے۔یہ امت محمدیہؐ کی ہی خصوصیت ہے کہ اسے رمضان جیسابابرکت ومقدس مہینہ ملااوراس مہینہ میں وہ عظمت اورقدروالی رات ملی جواس سے پہلے کسی اورنبی کی امت کونہیں دی گئی،جس کی ایک رات کی عبات کے ثواب کوہزارراتوں کی عبادت کے برابربتائی گئی۔ اس ماہِ مبارک کی تمام فضیلتوں اور برکتوں کو پوری طرح حاصل کرنے سے ہمیں کوئی روک نہ سکے ،اللہ رب کریم نے اس کا بھی بھر پورانتظام کیا ہےکہ تمام سرکش شیاطین کو اس ماہ میں بندگان خدا کو ابلیسی شر سے محفوظ رکھنے کی خاطرقیدکردیا جا تا ہے تاکہ اس کے بندے یہ بہانے نہ کرسکیں کہ انہیں کسی شیطان نے بہکادیا یا وہ شیطانی شر کا شکار بنے ۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہبری ورہنمائی کے لئے قرآن کریم جیسی مقدس کتاب نازل فرمائی اوراسے امت محمدیہ ؐ کوعظیم تحفہ کی شکل میں یہ کہہ کر دے دیاگیا تم اس خدائی کتاب کوپڑھو،اس کوسمجھو،اس کےمطالب و مفاہیم پرغورکرواوراس سے فیض حاصل کرتے ہوئے اپنے رب تک عمل واخلاق کی وساطت سےپہنچواوراس کتاب کے نزول کے لئے بھی اللہ نے اسی ماہ مبارک کا انتخاب کیااوراس میں بھی اسی عظیم الشان اورمقدس رات شب قدرکاانتخاب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب نازل فرماکراپنے بندوں کوحکم دیاکہ اس کتاب کومضبوطی سے پکڑے رہواوراس پر سال کے بارہ مہینوں میں اور زندگی بھرعمل کرو،اس سے فیض حاصل کرو اوراس کی روشنی میں اپنی زندگی کوسنوارو،قرآن کریم کے نزول کا مقصدبھی یہی تھاکہ اللہ کے بندے قرآن پرعمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گذاریں اوراپنی آخرت سنواریںاوراس کے بندےقیامت تک راہِ راست سے نہ بھٹکیں اور الحمدللہ یہ کتاب تاقیامت بندوں کی رہنمائی کرتی رہے گی۔ آج ہمیں غورکرناچاہئے کہ رمضان جیسامقدس مہینہ ہم سے جداہوگیا،وہ رمضان جس میں قرآن نازل ہوااورجس میں پورے مہینہ قرآن کے پڑھنے اورپڑھانے کابڑااجروثواب ہے ،ہم نے کس حدتک اللہ اوررسولؐ کے فرمان پرعمل کرتے ہوئے اس اجروثواب کے مستحق ہوئے؟ہم نے رمضان کے بابرکت مہینے میں قرآن کریم کے احکامات پر کتنا عمل کیا؟ہائے افسوس! اور ہم نافرمان بندے اُس پاک ذات ربِ کائنات کی کن کن نعمتوں، رحمتوں اور مہربانیوں کو جھٹلائیں گے ۔ افسوس ہم اپنے رب کے ان تمام احسانوں کے باوجود ناشکرے بندوں نے اس کی عبادت اوراس کی تسبیح وتحمید کے لئے چند مخصوص دنوں کو محدود کررکھا ہے اور ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرنا، اس کو اپنے نیک اور صالح اعمال سے راضی کرنا اور اللہ تعالی کی محبت، اس کی قربت حاصل کرنا صرف ان چند مخصوص دنوں پہ ہی ہم پہ فرض ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ ہم پورا سال غفلت میں گذار کے ایک ماہ سجدوں میں گذارنے کے بعد پھر سے اس گناہوں کے دلدل میں غوطہ لگادیتے ہیں، حتیٰ کہ ابھی رمضان کے گذرتے گذرتے ہی جو روزہ عبادات کا ذوق و شوق ہم میں پہلے اور دوسرے عشرے میں نظر آتا ہے ،وہ تیسرے عشرہ میں بازاروں کی تفریح اور عید کے نام پہ خریدوفروخت کی نذرہوجاتا ہے اورہم ان لہوولعب اوردنیاوی مصروفیتوں میں اس قدرکھوجاتے ہیں کہ ہمیں طاق راتوں یعنی شب قدر کا بھی لحاظ اور احترام نہیں رہتا ۔ ہم اپنی ان کمزوراور بےتوجہی سے کی گئی عبادتوں سے کیسے رب کو راضی کر سکیںگے؟کس طرح اس کی قربت حاصل کرپائیں گے؟افسوس صدافسوس! ہم کتنے بدنصیب اور بے وقوف ہیں جو اللہ رب العزت کی تمام رحمتوں اور اس کی بے پناہ عنایتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی زندگی میں سکون اور خوشیوں کی لامتناہی خواہش لئے بیٹھے ہیںاور نہ ملنے پہ شکوہ شکایتیں کرتے ہوئے اپنے نصیب کو کوسنے لگتے ہیں۔ ہماری بدنصیبی، بے وقوفی اور غفلت کا عالم تو یہ ہے کہ ماہِ رمضان میں شیطان کے قید ہونے کے باوجود بھی چند دن ہم اپنے نفسی شیطان پہ قابو نہیں پاسکے،روزہ کی حالت میں رہ کر بھی خود میں بےلوث ہمدردی کا جذبہ نہیں جگاسکے، جس کی وجہ سے ہم اپنے ایمان والے بھائی بہنوں کا درد، ان کی مجبوریاں، ان کی تکالیف اور ان کی غربت تک کو سمجھ نہیں سکے۔ سجدوں میں سر جھکاکر بھی اپنے تکبر اور غرور کو عاجزی اورانکساری میں نہیںبدل سکے۔ سچ میں ہم بہت بدنصیب انسان ہیں کہ جوبابرکت ماہ رمضان صرف اور صرف ہمارے لئے آتا ہے تاکہ ہم اس مہینہ کی برکتوں،رحمتوں اورفضیلتوں سے خوب خوب فائدہ اٹھاسکیں،لیکن قربان جائیے ہماری حرماں نصیبی پرکہ ہم بابرکت،رحمت اورفضیلت والے مہینے میں برکتوں ،بےکراں رحمتوں اور فضیلتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ شاید یہی ہم مسلمانوں کی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ ہے جس کی بناپر دنیا بھر میں ہماری ذلت اور رسوائی ہورہی ہے اور فسطائی طاقتیں لگاتار ہم پہ حاوی ہوتی جارہی ہیںکیونکہ ہم اپنے رب کے احسانوں کو بھلاکر احسان فراموش اور ناشکرے بن چکے ہیں ۔ اس کی تمام نعمتوں کو استعمال کرنے کے باوجود اس کے احکامات کو ماننے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، جب ہمارے تمام اعمال ناکے برابر ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ ہم پہ آفتیں آنایقینی ہے اورحدیث رسول ؐکے مطابق ظالم حکمران کامسلط ہوجانا حق ہے، ہم مظلوم قوم کی طرح کیڑے مکوڑوں کی زندگی گذارنے پہ مجبور ہوجائیں گےاور اُس وقت ہمارا کوئی یارومدگار نہیں ہوگا۔اس لئے ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنے گناہوں، لاپرواہیوں کی سچے دل سے گڑ گڑاتے ہوئے آنسو بہا کر معافی مانگ لیں، توبہ کرلیں، اس کے احکامات پہ عمل کریں اور اپنی پوری زندگی کو رمضان کی طرح بنالیں توانشاء اللہ ہر دن عید جیسی ہوگی اور اگر ساری زندگی ہمارے اعمال ایسے ہوںجیسے ماہ رمضان میں ہوا کرتے ہیں تو انشاءاللہ دونوں جہاں میں کامیابی وکامرانی ہماراقدم چومے گی۔آمین