نزعکی کیفیت طاری ہو تو کسی کا علاج کارگر نہیں ہوتا ہے۔۔ شیخ سعدی
آپ فٹ بال کے کھلاڑی نہیں بھی ہوں لیکن جانتے ہوں گے کہ رواں مہینہ فٹ بال کے ہی نام کیا گیا ہے ۔ دنیا بھر کے لوگ روس میں منعقد ہو رہے عالمی ٹورنامنٹ سے دل بہلائی کررہے ہیں ۔ آپ شایدیہ بھی جانتے ہوں گے کہ عالمی فٹ بال ٹورنامنٹ میں ہر چار سال بعد دنیا بھر کی نامی گرامی ٹیمیں حصہ دار بنتی ہیں۔کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں، فٹ بال گراؤنڈ اور شہر تبدیل کئے جاتے ہیں، کھلاڑیوں کی وردیاں اور ٹیموں کے کوچ ادل بدل جاتے ہیں اور خود فٹ بال کو بھی بدلنا ہی پڑتا ہے یعنی تغیرو تبدیل قدرت کا دستور ِازلی ہے۔
ایک عظیم فٹ باولر اور اسپینش کلب ریال میڈرڈ کے کوچ زین الدین زیدان کا ماننا ہے کہ انسان کیلئے کامیابی کی زینت پر کچھ دیر تک ٹکائو کرنے کے بعد وہاں سے ہٹ جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔ زیدان کو احساس ہوا ہے کہ اپنے کلب ریال میڈرڈ کو لگاتار تین مرتبہ کامیابی دلانے کے بعد اب کسی دوسرے کلب کیلئے کام کرنا بہتر صورت ہوسکتی ہے۔ کوئی سمجھے کہ ریال میڈرڈ کی مزید کامیابی کا دروازہ بند ہوا ہے یا پھر زیدان اپنی خود اعتمادی کی صفت سے محروم ہوجانے کے پس منظر میں ایسا کہنے پر مجبور ہوا ہے، تو بھی اس طرح کی سوچ کے حقیقی پہلو کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ اس سے زیدان کی عقل مندی کا بہتر ثبوت ملتا ہے۔ زیدان فرانس کا شہری ہے اور فرانسیسی حکومت کے ایک سابق سربراہ جنرل ڈیگال نے اپنے ملک سے الجزائر کی آزادی کا اعلان کرکے نہ صرف غلام اقوام کو دلاسہ دیا تھا بلکہ دنیا کے اُس خطے میں قیام امن کو ایک موقع بھی فراہم کیا تھا،نہیں تو فرانس سمیت اُس خطے کا اب تک کیا حال ہوا ہوتا، اس کا اندازہ کرنا موجودہ حالات میں کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
ایک فوجی، ایک فٹ باولر ہی تبدیلی کے واحد وکیل نہیں ہیں، کئی دوسرے لوگ بھی تبدیلی کے حق میں کہتے رہتے ہیں یا پھر تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔انگریزی زبان کے ایک عظیم شاعر نے ایک نظم میں تبدیلی کو بنجارے کی زندگی کا رنگ دے کرکہا ہے کہ وقت کسی بھی شئے کو مستقل طور ٹھکانہ فراہم نہیں کرتا ہے۔ شاعر نے روم کی عظمت کے بعد وقت کے ہاتھوں اس شہر کی بے بسی کا رونا رویا ہے ، پھر بابل کے عروج و زوال کا قصہ بیان کیا ہے اور اس طرح کی تبدیلیوں کو بنجاروںکی ایک جگہ سے دوسری جگہ تک سفر کے پس منظر میں بیان کیا ہے۔ بدلتا وقت کسی کو بھی ایک جگہ ٹکنے نہیں دیتا ہے۔ دیکھا تو ہم نے بھی یہی ہے کہ تبدیلی قانون قدرت کا ایک لازمی جز ہے اور کوئی چاہے یا نہ چاہے، تبدیلی خود بخودہو کر رہتی ہے۔ ہمارے بچپن کے زمانے میں بھی لندن کو عالمی مرکزیت کا درجہ حاصل تھا۔ پھر وقت نے تبدیلی کے بنجارے کو کبھی نیو یارک کی اور کبھی پیرس کی سیر کرائی اور اب اپنالنگر کہیں اور سجانے کی سوچ رہا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نامی گرامی سابق صدور کی سوچ بھی کسی نہ کسی مرحلے پرتبدیلی کی حامی رہی ہے۔ گروئور دی وی لینڈ کا قول تھا:’’ اصول کی پیروی کرتے ہوئے افسردہ رہنا، حیلے بہانوں کی زبان بولنے سے بہتر صورت ہے‘‘۔ وُوڈ رو ولسن کا قول ہے کہ فتح حاصل کرنا نہیں، خدمت میں رہنا محبت کی منزل ہے۔ وارن جی ہارڈنگ نے کہا ہے کہ ہر کسی شخص میں اچھائی ہوتی ہے،اس کی حوصلہ افزائی ہو، نہ کہ مار گرایا جائے لیکن دور حاضر میں ان سابقہ صدور صاحبان کی کس طرح کی پیروی کی جارہی اور یہ کیسے مستقل طور ممکن بنایا جارہا ہے کہ اقوام عالم کو امریکہ کی غلامی کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اب امریکہ کو اگر کسی اور کی نہیں، فٹ باولرزیدان کی حکمت کو ہی سمجھنا تھا اور اپنا وقار بچانے کیلئے عالمی پولیس مین کا کردار ادا کرنے سے اجتناب کرنا تھا بلکہ اب تک کی اپنی فاش غلطیوں کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے اصلی خول میں اُترجانا چاہیے تھا۔ وجوہات کچھ اور بھی ہوسکتی ہیں لیکن امریکہ پر جنگی جنون طاری نہ ہوا ہوتا تو پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کو روکا جاسکتا تھا۔ جاپان کے ہیروشما اور ناگاساکی شہروں پر ایٹم بم برسانے کی ضرورت پیش نہ آئی ہوتی۔مانا کہ سوویت سوشلسٹ ری پبلک کو روکا نہ جاتا تو امریکہ کی فوجی قوت کیلئے خطرہ پیدا ہوجاتا لیکن بے رُخی اور جنون ِ بالادستی کی حد دیکھئے کہ جو ممالک اور جو سماج امریکہ کی فرمان برداری کرتے ہوئے سوویت یونین کی شکست کا باعث بنے تھے، امریکہ نے چن چن کر اُن تمام ادارو ں کے وجود کو مٹانے کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانی خون کا پیاسا یہ عالمی پولیس مین وقت وقت پر اپنا حریف بدلے بغیر چین نہیں پاتا ہے۔سوویت روس کی شکست کے بعد امریکی ذہن پر مسلم ورلڈ کا بھوت سوار ہوگیا اور اولین آزمائش کیلئے عراق کا انتخاب کیا۔ برطانیہ کے ایک لا میکر گیلو وے کی ایک ویڈیو اب ہر گھر میں بولنے لگی ہے۔ وہ دوٹوک کہہ رہے ہیں کہ عراق کا کوئی قصور نہ ہوتے ہوئے بھی، لٹیرا بن کر اُس ملک پر قبضہ کیا گیا۔ امریکہ نے تباہ کن ہتھیار بنانے کا الزام عائد کیا، لیکن اقوام متحدہ کی طرف سے بھیجے گئے تجزیہ کاروں نے چھان بین کرنے کے بعد اس الزام کو مسترد کردیا تھا لیکن ’’وہی میں نہ مانوں والی بات‘‘۔البتہ تباہی کا سلسلہ وہاں پر ہی نہیں رُک گیا۔ اپنے ہی تیار کردہ افغان مجاہدین پر نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو تباہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ بقول پاکستان کے سابق صدر جنرل مشرف، ایسا کرنا افغان طالبان کے لئے کیسے ممکن ہوسکتا تھا؟ کیا امریکہ کا اتنا بڑا جاسوسی ادارہ، سی آئی اے گھوڑے بیچ کر سو گیا تھا جو اپنے ہی ملک کے متعدد ہوائی اڈوں سے طالبان کے کنٹرول میں بموں اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہوائی جہازوں کو اُڑتے اور ایک کے بعد ایک نیو یارک میں تباہی مچاتے ہوئے بھی دیکھ نہ سکا تھا۔جب امریکی حکومت اپنے ہی تیارکردہ طالبان نام کے مجاہدین کو اپنا حامی نہ بنا ئے رکھ سکا تو اُن کے ہاتھوں میں بم اور بندوق کیوں تھما دیا تھا۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ پنٹاگن کے اہل کاراپنے دفتر میں بیٹھے بیٹھے ہی دنیا بھر کے بازاروں اور کھیت کھلیانوں پر نظر رکھتے ہیں، پھر طالبان کے چھاپہ ماروں کو نیویارک پہنچنے اور تباہی مچانے کاموقعہ کیسے مل گیا تھا۔ دراصل امریکی حکمرانوں کے عزائم کچھ اور رہے ہیں۔ اُن کا پیٹ بغداد اور کابل پہنچنے پر نہیں بھرپایا تھا ۔ اُنہوں نے اس کے فوراً بعد ہی لیبیا کو اپنا اگلا ہدف چنا اور اُس خوشحال اور پُرامن ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کو مکمل طور تحفظ دینا مقصود تھا تو لبنان، شام اور چھوٹی بڑی دیگر خوش حال ریاستوں پر بھی حملے جاری رکھے گئے اور وہاں کے پُرامن کروڑوں لوگوں پر قیامت نازل کردی گئی ہے۔ابھی کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس کے آگے امریکہ کے کیا ارادے ہوسکتے ہیں۔ ان واقعات سے بھی بہت پہلے ویت نام کے غریب عوام کو دس سال تک امریکی عتاب کا شکار بننا پڑا تھا۔ اُس سر زمین پر بموں کی بارش ہوتی رہی۔ وہاں کے انسانوں، جنگلوں اور تہذیبی مراکز پر ہر نیا جنگی ہتھیار آزمایا گیا تھا لیکن ہزیمت کا شکار سپر پاور امریکہ کو لاشیں چھوڑ کر میدان جنگ سے خالی ہاتھ لوٹ آنا پڑاتھا۔ نہ جانے امریکی حکمران دنیا کو کیونکر تباہ کرنے پر کمر باندھے رہتے ہیں۔ اُن کی اس قدر بے آرامی کی اصل وجہ کیا ہوسکتی ہے۔اب امریکہ کی مسلم ممالک کے خلاف دشمنی کی کوئی بھی دلیل ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے لیکن کبھی روس، چین اور کوریا جیسے ممالک کو ڈرانے، دھمکانے اور تباہ کرنے کیلئے اور کبھی اپنے ہم رکاب جرمنی، فرانس اور کینیڈا پر دھونس دبائو جمانے سے بھی باز نہیں رہتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ امریکی حکمرانوں کے دل میں اقوام عالم کی انجمن کے لئے بھی خیر سگالی کا کوئی گوشہ خالی نہیں بچاہے۔اگر کچھ انصاف سے کام لیا جا تا تو دنیا کو کبھی بھی دہشت سے لرزاں نہیں ہونا پڑتا بلکہ تمام ممالک امن اور ترقی کے گہوارے میں تبدیل ہوئے ہوتے۔ دنیا بہت وقت سے امریکہ کو اپنا رہنما تسلیم کرتی آئی ہے ۔ اکثر آبادیاں ابھی تک بھی امریکی قیادت کے عزائم کو سمجھ نہیں پائی ہیں۔ یوں تو امریکہ کے منصوبے اثبات دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ سب منصوبے اُسی ملک کی معشیت اور طاقت کو سنوارنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ افراد ہوں یا ممالک یا پھر مذاہب ہوں، امریکہ استعمال کرنے کے بعد ہر کسی کو بے یار و مددگار چھوڑ دیتا ہے۔ جب ایران میں شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کا طوطی بولتی تھی تو امریکی حکمران عاشق بن کر شہنشاہ کو گلے لگائے رہتے تھے۔ واشنگٹن پہنچنے پر وائٹ ہاؤس کو رضا شاہ کی تصویروںسے ڈھانپا جاتا تھا۔اُن کی شہ پر خارجی پالیسی کے تانے بانے تیار کئے جاتے تھے لیکن جب انقلاب ایران کے نتیجے میں رضا شاہ کو اپنا سر چھپانے کیلئے دو کمروں کی ضرورت پیش آئی تو امریکی حکومت نے اپنے تمام دروازے بند کردئے۔پاکستان کو بھی کبھی امریکہ کی جان مانا جاتا تھا۔ پاکستان نے اپنی جان تو چھڑکی، پر جب امریکہ کا دشمن سوویت یونین ٹوٹ گیا تو امریکہ نے پاکستان کو بھی اپنے نئے دشمنوں کی فہرست میں شامل کردیا۔ عراق کے صدر صدام حسین کو موت کے گھاٹ اُتار دیا لیکن اُس کے جان نثاروں کے ساتھ دغا کرکے اُن کو ہتھیار فراہم کردئے ۔ اس طرح سے آئی ایس ایس آئی تشکیل دیا۔ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی کئی ممالک اور وہاں کے قائدین کاماننا تھا کہ امریکہ امن عامہ کے حق میں ہی مثبت رول ادا کررہا تھا ۔ درحقیقت غلامانہ ذہنیت اغیار کے کرتب سمجھ نہیں پاتی ہے اور یہاں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ کون سمجھا ہے کہ بے گھر و بے سروسامان ہزاروں یہودیوں کی باز آبادکاری کیلئے پریشان امریکی قیادت نے شمار میں یہودیوں سے بھی زیادہ فلسطینیوں کو بے گھر و بے سر و سامان بنا یا ہے۔ تب تو یہودی یورپ، افریقہ، امریکہ سمیت دنیا بھر میں آرام کی زندگی گزار رہے تھے اور فلسطینی بھی اپنی سر زمین پر چین کی بانسری بجارہے تھے لیکن دونوں اقوام میں مذہبی جنون بھڑکا کر اور پوری دنیا کے آرام و سکون کو درہم برہم کرکے امریکہ کے حقیقی ارادے اب پیاز کے چھلکوں کے مانندگلی کوچوں میںبرہنہ رقص زن ہیں۔