سری نگر//سابق مرکزی وزیرپروفیسرسیف الدین سوزنے ’’ آزادی آرپارکشمیری عوام کی اولین ترجیح ‘‘قراردیتے ہوئے کہاہے کہ واجپائی اورمنموہن یہ سمجھ کربھی کشمیرمسئلے حل نہیں کرپائے۔کانگریس کے سابق ریاستی صدرنے دعویٰ کیاکہ مشرف نے کشمیرمسئلے کوسمجھ کرہی چارنکاتی فارمولہ پیش کیا،اوراس میں کافی پیش رفت بھی ہوئی لیکن بات مکمل نہیں ہوپائی ۔جموں وکشمیرسے تعلق رکھنے والے 2سینئرلیڈران غلام نبی آزاداورپروفیسرسیف الدین سوزکے کشمیرمسئلے اورکشمیرکی صورتحال کے حوالے سے دئیے گئے بیانات کے بعدکانگریس کوبی جے پی اوردوسری دائیں بازئوکی جماعتیں ہدف تنقیدبنارہی ہیں ۔بھاجپا اورشیوسینانے کانگریس صدرراہول گاندھی سے آزاداورسوزکے بیانات پرجواب طلب کیاہے جبکہ بی جے پی کے ایک سینئرلیڈرسبھرامنیم سوامی نے کہا ہے کہ کشمیر مسئلہ کانگریس کی دین ہے۔ انہوں نے سیف الدین سوز کے بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ سابق وزیراعظم جواہرلعل نہرئو مرکزی کابینہ کی رضامندی کے بغیر کشمیر مسئلہ کو اقوام متحدہ لے گئے تھے،اورتب سے ہی یہ مسئلہ ملک کیلئے ایک چیلنج بناہواہے ۔کانگریس کے سینئرلیڈر سیف الدین سوز نے کہاہے کہ کشمیریوں کی پہلی ترجیح آزادی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ ایسی صورت حال میں جب سرحدوں یعنی جموں وکشمیرکوتقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے، کم از کم کشمیر کے دونوں حصوں میں لوگوں کو امن سے جینے دینا چاہئے۔سیف الدین سوز کا دعوی ہے کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ بھی اس بات کو اچھی طرح سے سمجھتے تھے لیکن وہ دونوںبھی اسے(کشمیرمسئلے) حل نہیں کرپائے۔پروفیسر سوز نے کہا کہ اسپاراوراُسپاررہنے والے کشمیری دونوں ہی ملکوں یعنی ہندوستان اور پاکستان سے الگ ہونا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ آرپارکے کشمیری آزاد ہونا چاہتے ہیں، حالانکہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔سیف الدین سوز نے اپنی کتاب کاذکرکرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو لکھا وہ تب بھی صحیح تھا اور اب بھی صحیح ہے۔انہوں نے کہاکہ چاہتے ہوئے بھی کشمیرکو آزادی مل نہیں سکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم کو کشمیر کے دونوں حصے جو ادھر ہے اور اُدھر دونوں کو ملاکرایک ہونا چاہئے۔ سیف الدین سوز نے پاکستان کے سابق صدرمشرف کاحوالہ دیتے ہوئے کہاہے کہ کشمیری پاکستان کیساتھ نہیں جانا چاہتے ہیں بلکہ اُن کی پہلی ترجیح آزادی ہے۔ پروفیسرسوزنے واضح کیاکہ سرحدیں بدل نہیں سکتیں ، اس کو اٹل بہاری واجپائی نے سمجھا اوروہ لاہور مذاکرات کیلئے گئے۔تاہم سیف الدین سوز نے اپنے بیان پر صفائی دیتے ہوئے کہا کہ میرا بیان کانگریس پارٹی کا بیان نہیں سمجھا جائے بلکہ یہ میرا ذاتی بیان ہے،اوریہ کہ ایک کشمیری شہری ہونے کے ناطے میں نے یہ بیان دیا ہے۔سوزکے بقول میرا ماننا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں پڑوسی ملک ہیں اور دونوں طرف امن لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔