وادیٔ کشمیر کے ایک ہونہار اورصداقت شعار صحافی سید شجاعت بخاری پر نامعلوم ہتھیار بندقاتلوں کا جان لیوا حملہ ایک ذات پر قاتلانہ حملہ نہیں بلکہ یہ مملکت کے چوتھے ستون کو ڈھانے کے برا بر ہے۔ یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ تاریخ انسانی شاہد عادل ہے کہ حق کے مخلص پاسبانوں نے ہمیشہ باطل کی محالفت میں خوشی خوشی زہر کے پیالے نوش کئے ، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ، تختہ ٔدار کو چوما ، تکلیفوں کو لبیک کہا مگر سچ اور جھوٹ کی آویزش میں پامردی اور ثابت قدمی کے ساتھ سچ کا ساتھ دیا ،ظلم کو ظلم مانا اورجھوٹ کی برملا تردید ومخالفت کی تاکہ ان کی حق نوائی کو بٹہ لگے نہ حرمت ِقلم پر آنچ آئے ۔ یوں یہ مجنون اپنے ایثار وقربانی سے ایک لازوال تاریخ رقم کر گئے ۔ عصر رواں میں بھی احقاقِ حق اور ابطال ِ باطل کے حوالے سے منبر ومحراب کے پہلو بہ پہلوحق شعار صحافت حق و صداقت کی آئینہ داری میں پیش پیش ہے اور جب تک قلم کے یہ سپاہی اپنے جرأت اظہار کے بل پر زمانے کی برائیوں کا کچا چھٹا ظاہر کرتے رہیں گے ، دجالوں کے سامنے ٔ کلمہ حق کہتے رہیں گے ، مظلوموں کی زبان اور آنکھ بنتیں رہیں گے، تہذیب و شرافت کا سورج چمکتا دمکتا رہے گا ۔ بالفاظ دیگرایک ذمہ دارصحافی کا غیر متزلزل یقین و ایمان کے ساتھ اشاعت ِ حق کے محاذ پرکھڑارہنا ہی اس کی صحافتی خدمات کا حُسن قرار پاتاہے۔ لہٰذاصداقت پسندی ،دیانت داری ،جرات و بے باکی کے ساتھ شجاعت بخاری مرحوم کھڑا رہا یا ودسرے مردان ِ حق کھڑے ہیں ، وہ جابر حکمرانوں اور سچائی کے مخالفین کی آنکھوں میں کھٹکتے رہیں گے ۔
صحافت کو اگر ہم محض روزگار کمانے کا ایک پیشہ تصور کریں تو یہ قلم کی حرمت سے ناانصافی ہوگی ۔ سچ یہ ہے کہ صحافت معاشرے کی فلاح وبہبود کی حسین و جمیل عمارت کا نام ہے جس کی بڑی اہمیت و افادیت ہے۔ اس بارے میںیہ امرمتفق علیہ ہے کہ جنگ زدہ خطوں کے مظلوم و محکوم عوام کوظالم حکمرانوںسے نجات دلانا یاکم ازکم ان بدقماشوں کامہیب چہرہ دنیا کے سامنے اصلاحِ احوال کی غرض سے بے نقاب کرنا آزادیٔ صحافت کی شرط اول ہے مگر یہ کام لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے کیونکہ دجل وفریب اور وحشیانہ طاقت کے حامل باطل کو یہ قطعی طور گوار انہیں ہوتا کہ کوئی اس کے ظلم وتشدد پرا سے ٹوکے ، ا ُسے انصاف اور امن کے باہمی ربط وتعلق سے آشنا کر ے، اُسے مسائل اُلجھانے کے بجائے سلجھانے کی فہمائش کر ے۔ بنا بریں قلم کے سچے پروانوں کو باطل کی اندھ کاری سے بچانے کے لئے اقوام متحدہ کے منشور میں بھی آزادیٔ صحافت کو تحفظ اور فروغ دینے کی ضمانت دی گئی ہے ۔اسی مقصد کے حصول کے لئے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیر اہتمام ہر سال 3؍مئی کو ورلڈ پریس فریڈم ڈے(یومِ آزادی صحافت)منایا جاتا ہے۔اس کامقصدآزادی صحافت کے بنیادی اصولوں کا تحفظ، پوری دنیا میں اس کی رسائی ممکن بنانا، صحافت کی آزادی پر لگائی جانے والی قدغنوں کا تدارک کے حوالے سے احساس جاگزین کرناہے لیکن ان کاوشوں اور نیک خواہشات کے باوجودکرہ ارض کے کئی گوشوں میں، جن میں متنازعہ ریاست جموں وکشمیربھی شامل ہے، صحافت حق دشمنوں کا پہلا ہدف ہے ۔ یہ صحافیوں کو پہلے ڈراتا دھمکاتے ہیں اورا گراس سے کام نہ بنے تو انہیں خریدنے پر بولی لگاتے ہیں ، انہیںسچائی کی قیمت پر ذاتی مفادات کا اسیر بناتے ہیں ، انہیں سہولیات کے گورکھ دھندوں میں پھانستے ہیں اور جو ان کے ہتھے نہ چڑھے تو اس کاکام تمام بھی کرواتے ہیں ۔ صحافت کی تعریف اگرچہ وسیع ہے تاہم موٹے طریقے سے صحافت کی تعریف یہ ہے کہ قلم و قرطاس کوہاتھ میں لئے ہوئے عوام الناس کومعلومات بہم پہنچانا،ان پرہورہے مظالم کوطشت از بام کرکے اس پر احتجاج کی آوازبلندکرنا،ظالم کے ہاتھ روکنے اورمظلوم کے ساتھ کھڑاہونا ہے۔ اس ٹھوس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ آزادی صحافت کا بے لگام ہونا بھی اتنا ہی نقصان دہ ہوتاہے جتنا کہ اس کی آزادی پر قدغن لگانا۔بایں ہمہ اخبارات اورمیڈیاچینل کی بندش،صحافیوں کو پس ِزندان کرنا ، گوری لنکیش یا شجاعت بخاری کی طرح ان کا اہدافی قتل کروانا ، عوام الناس کے حق ِمعلومات پر قدغن لگانا ، یہ سب آزادیٔ صحافت پر تلوار چلانے کی رائج الوقت شکلیں ہیں، علی الخصوص صحافیوں کی زبان بندی کے لئے ان کا دن دھاڑے قتل کروادینا باطل کاسب سے آخری اوچھا حربہ ہوتاہے ۔ اگرچہ دنیا میں جنیون صحافیوں پر جان لیوا حملوں کی ایک طویل فہرست موجودہے مگر جنگل راج کی ان وحشتوںکے باوصف ایسے حق گو صحافیوں کی کوئی کمی نہیں جو بے باکی کواپنا شیوہ اور شعار بنائے اور بغیر کسی خوف اورڈرکے اپنا پیشہ ورانہ فریضہ انجام دئے جا رہے ہیں۔ افسوس اورالمیہ یہ ہے کہ جوں جوں معاشرہ ترقی کرتا جا رہا ہے توں توں دنیا بھر میں آزادیٔ صحافت کاگلا مختلف عنوانوں سے گھونٹاجارہاہے جس میں صحافیوں کوموت کے گھاٹ اتاراجا نا بھی شامل ہے ۔ اس حقیقت کے پیش نظرجو لوگ ہاتھ میں قلم اور حق گوئی پر یقین رکھتے ہیں، انھیں اپنے ہاتھ قلم ہونے کی سزا کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے کیونکہ تلخ سچائیاں بہت کم لوگوں سے ہضم ہو پاتی ہیں، بالخصوص ناحق پسند حکمران طبقات میں اتنا ظرف نہیں ہوتا کہ وہ تنقیدکی نشترزنی برداشت کرسکیں ۔ اس کے باوجود ایک ذمہ دار اور بااخلاق لکھنے والے کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے مطالعہ، مشاہدے اور تجربات کو بلا کم وکاست سچائی کی عَلم بلند کر نے کی نیت سے سینہ قرطاس پر رقم کرتا رہے اور باطل کی حشرسامانیوں سے ڈرے بغیر اپنے مافی الضمیر سے قوم وملت کوآگاہ کر تا رہے چاہے کوئی اس سے اتفاق کر ے یا اختلاف ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ سچائی کے متوالے کسی صحافی کی کوئی بات یا خیال حرفِ آخر سمجھی جائے،اس سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے مگر اختلاف کی صورت میں اس سے جان یا عزت کی قیمت ادا کرنا پڑے، یہ سراسر دہشت گردی ہے۔
عالمی ادارے ’’فریڈم ہائوس‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی 86فیصد آبادی میں صحافت کسی نہ کسی طرح پابندیوں کی زد میں ہے۔ بیشتر ممالک میں صحافیوں پر نام نہاد جمہوری و مطلق العنان حکومتوں کی جانب سے قدغنیں عائدہیںاوراطلاعات یا خبریں آزادنہ طور پر جاری نہیں ہوتیں ، صحافیوں کی زندگیوں کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی، امورصحافت ریاستی مداخلت ،دھونس اوردبائوکے تحت چل رہے ہیں۔ یہ ریاستی جبرکاہی شاخسانہ ہوتاہے کہ صحافیوں کوجاسوس ایجنسیوں کی جانب سے بلاناغہ دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجموعی طور پر صحافت آج کی دنیا میں بھی جبر و تشدد کی زد میں ہے اور صحافیوں کے خلاف جبری سلوک روارکھاجارہا۔کشمیربھی ان خطوں میں سے ایک ہے جہاں صحافت آزادنہیں ہے ۔کشمیر میں جنیون صحافیوں کو کن مشکلات اورشدائدکا سامنا کرنا پڑتا ہے ،اس کی تازہ جھلک معروف صحافی و مدیرسیدشجاعت بخاری کا لرزہ خیز قتل ہے ۔جب حکومت کے چھترچھایہ میں ریاستی جبرسے انسانی حقو کی دھجیاں اڑائی جارہی ہوں ، ہر سو لاشوں کے انبار نظر آتے ہوں اور قدم قدم پر مقتل سجے ہوں ایسے میں شجاعت جیسے صحافی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے بلکہ و ہ ا پنے ضمیر کی آواز پر ریاستی دہشت گردی کوبے نقاب کرکے رہتے ہیں چاہے دست ِ غیب راضی ہو یانارض، کیونکہ ایک فرض شناس صحافی قطعی طورپرمصلحت اور مفاد کاغلام نہیں ہوتا، لیکن شومی ٔ قسمت سے جب کوئی تخلیق کار، ادیب یا صحافی حق کی پگڈنڈی چھوڑ کرظالم حکمرانوں اور جابرین کے قصیدے لکھے، سچائی سے منہ موڑے اور ظالم حکمرانوں کے لئے کولہوکابیل بن کرجیئے توپھر اس کی یہ کج ادائیاںپورے معاشرے کی موت پر منتج ہوتی ہیں۔ایسے معاشرے یاقوم کے لئے زندگی ایک ایسی طویل سیاہ شب ثابت ہو تی ہے کہ جس کا کوئی سویر نہیں ہوتا ،اس کامقدر افق تابہ افق تاریکی ہوتی ہے، اس کے لئے پھرکہیں امید کی کوئی کرن نہیں جھلملاتی اورایسامعاشرہ ایک ایسے زندان کاروپ دھارلیتاہے کہ جس کا کوئی روزن نہیں ہوتا۔
اس وقت بھارت کی صحافت کاایک مراعات یافتہ مضبوط دھڑا صرف اپنے مذموم مفادات کی تکمیل میںفرقہ پرستی اور جذباتیت کو استعمال کر تا جارہاہے۔ یہ متعصب میڈیا ایک ایسا ماحول تیارکرچکاہے جس کی لرزہ خیز تصاویربھارت بھرمیں بکھری پڑی ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور متقدر میڈیاہائوسزاور سرکردہ اینکرمملکتی اسکرپٹ کے عین مطابق مسلم کش منصوبہ سازوں اور جاسوس ایجنسیوں سے مل کر کشمیر کے بارے میںایسے گھناؤنے جھوٹ تصنیف کر رہے ہیں کہ الاماں والحفیظ ! اس منفی گٹھ جوڑکے خلاف کشمیر کے صحافتہ اُفق سے حق بیانی ا ور حقیقت پسندی پر مبنی ایسی مضبوط آوازیں اُٹھ رہی ہیں جن سے گرم گفتار لال سنگھ لال پیلا ہو کر سر عام کشمیری صحافیوں کو یہ کہہ کر دھمکی دینے لگا ہے کہ ان کا حشر بھی شجاعت بخاری جیساہوگا۔کشمیرکی مسلم آبادی کوصفحہ ہستی سے مٹانے اور کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے نوع نوع کے معاندانہ سلوک کے خلاف بے شک سیدشجاعت بخاری جیسے صحافی جرأت رندانہ کے ساتھ آواز یں بلند کر تے رہے ہیں اور سچائی کے دشمنوں کو علی وجہ بصیرت للکارتے رہے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ارون دھتی رائے جیسے بے شمار بھارتی حق پسند صحافی ، ادیب،دانشور اور شاعر بھی اپنے ضمیر اور حقیقی قوم خیر خواہی کی آواز پر ملک کے طالع آزماحکمرانوں کو کشمیر پالیسی بدلنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں ۔ ان حوالوں سے شجاعت بخاری ایک ایسا سر گرم صحافی تھے جو بی بی سی اردوسروس کے الفاظ میں بھارتی حلقوں میں فریڈم فائٹر تھے، اوروہ ہر کسی سیاسی وسماجی معاملے میں گہری تحقیقات کر کے بے عیب سچائی کوعوام کے سامنے بے نقاب کر نا اپناصحافیانہ فریضہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ جب کٹھوعہ کے رسانہ علاقے میں آٹھ سالہ آصفہ کادلدوزاورانسانیت سوزالمیہ پیش آیاتوشجاعت بخاری نے اس کے خلاف دبنگ طریقے سے آوازاٹھائی۔ آصفہ ریپ اور قتل کے موضوع شجاعت کی حق گوئی فرقہ پرستوں کوایک آنکھ سے نہ بھائی اور پھر جب انہوں نے اقوام متحدہ میں کشمیر کے تعلق سے انسانی حقوق کی چشم کشا رپورٹ کا سب سے پہلے خیر مقدم کیا تو فوراً سے پیش تر کشمیر کاز کے بدخواہوں نے ان کی موت کا فتویٰ دے کر اسے عملایا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سنگین کا جرم کس نے کیا ؟ اس بارے میں قیاسی گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ انہیں کشمیر کاز کی وکالت کر نے والے ہی سزائے موت کا اقدام کر سکتے ہیں ۔اس وقت جب میں یہ سطورحوالہ قلم کررہاہوں جموں میں سابق بے جے پی وزیر چوہدری لال سنگھ کی پریس کانفرنس کی ویڈیوکلپ سوشل میڈیاپروائرل ہوچکی ہے جس میں لال سنگھ دھمکی آمیزلہجے میں کہتاہے کہ ’’کشمیرکے پترکارسدھرجائیں، نہیں سدھرتے ہیں توشجاعت کاحال سامنے رکھیں،کشمیرکے پترکاروں کوہم آزادی کے ساتھ کھل کھیلنے کاموقع نہیں دے سکتے ‘‘سوشل میڈیاپروائرل لال سنگھ کی یہ ویڈیوکلپ کس کس کہانی کو بے نقاب کرتی ہے، اس پر تبصرے کی چنداں ضرورت نہیں ۔
بہرکیف شجاعت بخاری نے سانحہ آصفہ پربے کلی اوراضطراب دکھایاوہ قابل داد ہے ۔ ایسے با ضمیر لوگ آج اس گئے گذرے زمانے میں صحافت کے آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے ہیں اور اس نفسا نفسی کے دور میں ایسے لوگ ہی اس زمین کا نمک کہلانے کے حق دار ہیں ۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ شجاعت نے حق پسندانہ روش کلام وتحریر اختیار کر تے ہوئے اپنی عزیز جان دی ۔ کشمیرکے اہل دانش پر نظر دوڑایئے توکئی ایسے شجاعت ملیں گے جو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر نہایت بے باکی کے ساتھ حکایاتِ خونچکاں لکھتے ہیں۔ دوسال قبل اسلام آبادکے دورہ کے دوران انہوں نے مجھے فون کیااورملاقات کی خواہش ظاہرکی۔ میں نے ہوٹل میں جاکران سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔کم وپیش تین گھنٹے کے دوران میں نے ان کی ذات میں تحریک کشمیرکی کامیابی کے حوالے سے نہایت بے کلی دیکھی ،وہ مسئلہ کشمیرکاحل اقوام متحدہ کے چارٹر اورکشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق چاہتے تھے۔ان کا ایک ایک لفظ قوم کے تئیں ہمدردی اور خیرخواہی سے عبارت تھااور جو فکر انگیز گفتگو انہوں نے میرے ساتھ کی اس سے نہ صرف میں ذاتی طور مستفید ہو ابلکہ میرے نزدیک یہ پوری قوم اور مزاحمتی قیادت کے لئے خلوص و درد مندی کا پیغام تھی ۔ آج بلاشبہ یہ خلوص ودردمندی منوں مٹی نیچے دبی ہوئی ہے مگر یہ ا سی کا فیضان ہے جس نے شجاعت بخاری کو حیات ِ جاودانی بخش دی۔
شجاعت کے قتل کے پیچھے جونامراداورمذموم مقاصد کارفرماہیں وہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتے ہیں کہ دشمن نے کشمیری صحافیوں اور دانش وروںکو بزبان حال پیغام دیا کہ کشمیرکے صداقت شعاراپنے قلم توڑ دیں ، زبانیںبند کریں، آزادنہ سوچنا ترک کریں، سچ بولنے سے باز آجائیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خاک و خون میں لتھڑی اس دھرتی پریہ ممکن ہے کہ جہاں کی فضائیں رورہی ہیں،جہاں دریائو ں میںپانی کے بجائے خون بہہ رہا ہو،ج ہاںجبل ودشت نالہ فغاں ہوں،وہاں قلم کا کوئی مخلص سپاہی خاموشی اختیارکرنے کا جرم کرے ؟کیا سچائی پر مبنی حکایات ِخونچکاںلکھنے سے کوئی صاحب ِ بصیرت قتل وغارت سے خوف زدہ ہوسکتاہے؟ یاد رکھئے ان حق پسندوں کو عشروں سے بے خطر بولنے کی عادت ہے اوران میں کڑوا سچ کہنے کی ہمت کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے اوراگریہ جرم ہے تومادر وطن کے یہ بے لوث سپاہی اس جرم کاارتکاب باربارکرتے رہیں گے ،با وجودیکہ شجاعت کی مانند انہیں کڑی سے کڑی سز ادی جائے، ان کی راست گوئی پران کا گلا دبوچ لیاجائے، ان کے خامہ حق بیان کی روشنائی چھین لی جائے ۔ حق کا دشمن کچھ بھی کرے بہر حال کشمیر میں سر دھڑ کی بازی لگانے والے مخلص صحافیوں اور دانش وورں کے قلم ،زبان اور کیمروں سے جرات ِاظہار ہوتارہے گا۔ نیز ارض کشمیر کو اپنے سپوتوں او فلاح و بہبود کی راہیں کھوجنے والوں سے مسلسل محروم کر نے والے مجرمِ انسانیت عناصر بہ ہوش وگوش سن لیں کہ ان کی غیر انسانی کارستانیوں سے کشمیرکے قلمی محاذ پر کبھی بھی قبرستان کی جیسی خاموشی نہیں چھاجائے گی، ہرگزنہیں۔چاہے کچھ بھی ہو انصاف کی دہائیاں دینے سے کشمیری صحافیوں کے قلم اور ان کی زبانیں ہرگزبازنہیں آسکتیں ۔ ہمارے کرم فرماؤں کو سمجھنا چاہیے کہ شجاعت کا قتل اصلاً فرقہ پرستی اور فسطائیت کی موت اور پرورش ِلوح وقلم کر نے والوں کی فتح کا اعلان ہے ۔ آخر یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ کشمیر کو شجاعت کی اندوہ ناک موت جیسے صدمے اور المیے بار بار دینے اور طاقت کے بل پر کشمیری عوام کو زیر کر نے کے بجائے دلی کے حکمران اپنی جارحانہ کشمیر پالیسی ترک کر یں اور ایک ایسی جمہوری اور انسانیت نواز پالیسی ایک مصم سیاسی عزم کے ساتھ اپنا لیں جو مسئلہ کے منصفانہ اور قابل قبول حل پر منتج ہو۔ اس میں تینوں فریقوں کی بہتری اور برتری کا راز مضمر ہے ۔