ساڑھے تین سال قبل دو مخالف نظریات رکھنے والی پی ڈی پی اور بی جے پی جماعتوں نے کم از کم مشترکہ پروگرام، جسے ایجنڈا آف الائنس کا نام دیا گیا تھا،کے ساتھ ریاست میں مخلوط حکومت تشکیل دی اور تب لوگوں کو ترقیاتی،سیاسی ،اقتصادی اور سماجی سطح پر ترقی کے بڑے بڑے خواب دکھائے گئے لیکن غالباًسبھی معاملات پر اس حوالے سے بالکل بھی عمل درآمد نہیں ہوااور بھاجپا کی جانب سے حمایت واپس لئے جانے سے حکومت گر جانے کی وجہ سے کم از کم مشترکہ پروگرام سراسر سراب ثابت ہواہے۔حکومت تشکیل پانے کے وقت یہ اعلان کیاگیاتھا کہ ریاست اور برصغیر خطہ میں امن و امان کے قیام کے مقصد سے حد متارکہ پر اعتمادسازی کے اقدامات کئے جائیں گے اور نئی تجارتی راہداریاں کھولنے کے ساتھ ساتھ تجارتی عمل کو بڑھاوادے کر اگلی سطح پر لیجایاجائے گاجبکہ عام لوگوں اور سیول سوسائٹی کے درمیان آر پار روابط بڑھائےجائیں گے۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ نہ ہی نئی راہداریاں کھل پائیں اور نہ ہی تجارتی سرگرمیوں کو اگلی سطح تک پہنچایاجاسکابلکہ پچھلے تین برسوں کے دوران بس سروس اور آر پارتجارت کو کئی بار متاثر کیاگیا اور اس سلسلے کو ختم کرنے تک کی سفارشات کی گئیں۔سابق مخلوط اتحاد نے اپنے ایجنڈا آ ف الائنس میں یہ اعلان بھی کیاتھاکہ سیاسی پہل کے طور پر مرکزی حکومت پاکستان کے ساتھ روابط بہتر بنائے گی اورکشمیر کے تئیں انسانیت،کشمیریت اور جمہوریت کے اصول پر کار بند رہتے ہوئے حریت لیڈران سمیت سیاسی گروپوں کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کیاجائے گالیکن نہ ہی پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار ہوسکے اور نہ ہی حریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کئے گئے بلکہ الٹا سخت گیر پالیسی پر عمل کیاگیاجس کے نتیجہ میں نہ صرف سرحدی کشیدگی اپنے عروج کو پہنچی بلکہ اندرون ریاست بھی حالات بہت زیادہ خراب ہوئے اور بڑی تعداد میں شہری و فوجی ہلاکتیں ہوئیں جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے یا پیلٹ کے چھروں سے ان کی بینائی متاثر ہوئی۔سابق مخلوط اتحاد نے یہ وعدہ بھی کیاتھاکہ افسپا سمیت ریاست میں نافذ کالے قوانین کا جائزہ لیاجائے گااورسیکورٹی فورسز کے غیر قانونی تصرف میں اراضی کو مالکان کو واپس کیاجائے گالیکن اس حوالے سے کوئی بھی پیشرفت نہیں ہوئی بلکہ کالے قوانین کا استعمال آج بھی جاری ہے اور افسپا کے ہٹانے کا وعدہ ایک سہانا خواب بن کر رہ گیاہے۔اسی طرح سے کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی ،پہاڑی ،کوہلی اور چوپان طبقوں کو شیڈیول ٹرائب کادرجہ دینے ،ڈول ہستی اور اوڑی پاور پروجیکٹوں کی ریاست کو واپسی اور بجلی کی پیداوار میں ریاست کواس کا حصہ ادا کرنے جبکہ راجوری ،پونچھ اور بھدرواہ سمیت جموں خطہ میں سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ دینے ،شہر خاص اور جھیل ڈل کی شہرت بحال کرنے ،جموں اور سرینگر شہروں کو سمارٹ سٹی کادرجہ دینے،بیروزگار نوجوانوں کیلئے روزگار کی فراہمی جیسے وعدے بھی ایفا نہ ہوئے اور نہ ہی چناب خطہ سے پید اکی جانے والی بجلی میں سے دو فیصد رقومات خطہ کی تعمیروترقی پر خرچ کرنے اورجموں و پیر پنچال میں آئی ٹی اور بائیوٹیک پارکوں کا قیام عمل میں لایاجاسکا۔پی ڈی پی۔بی جے پی اتحاد نے یہ خواب بھی دکھایاتھاکہ خطہ پیر پنچال کو وادی کشمیر سے ملانے والی مغل شاہراہ کو متبادل سڑک رابطے کادرجہ دے کر اسے سال بھر چالو رکھنے کیلئے اس پر ٹنل کی تعمیر عمل میں لائی جائے گی مگر حقیقت حال لوگوں کے سامنے ہے اور ٹنل کی تعمیر کا عمل شروع تک نہیں ہواجبکہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔اگر ایجنڈا آف الائنس کا مختصر جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ معاہدے کے مطابق کوئی بھی کام نہیں ہوا اور سابق اتحاد اپنا وقت بتاکر خاتمے کو پہنچ گئی۔یوں کم از کم مشترکہ پروگرام ایک ایسا سہانا خواب نکلا جس کی کوئی تعبیر ہی نہیں۔اس سے انحراف کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج ریاست کے اندرونی حالات کشیدہ بنے ہوئے ہیں اور تعمیروترقی کے میدان میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی حکومت ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے اور جارحانہ حکمت عملی کے بجائے باہمی اعتماد پر مبنی پالیسی اختیار کی جائے اورریاستی معاملات کو آئندہ پارلیمانی انتخابات کی خاطر سیاسی ایجنڈا نہ بنایاجائے بلکہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تمام وعدوں کو ایفا کیاجائے جس کا پی ڈی پی ۔بی جے پی ایجنڈ اآف الائنس یا اس سے قبل بار بار اعلان کیاجاتارہاہے۔