ابھی ابھی للن میاں غریب خانے پر آیا ۔ زرد چہرہ ، کپکپاتا وجود ، ہکلاتی زبان ، لرزتی ٹانگیں، تھر تھراتے ہونٹ ۔ کسی نحیف ونزار آدم زاد کا یہ سرا پا دیکھئے تو سر کیوں نہ چکرائے، دل کیوں نہ گھبرائے۔میرا بھی ماتھا ٹھنکا۔تجسس کی آنچ سوال بن کر لب ِاظہار پر چھاگئی، پوچھا : للن!کیوں بھئی اُلٹی کھوپڑی کیا پھر سے جوا ہار گئے؟ بیوی نے گھر سے نکالا؟دوکاندار نے اوگرائی کی؟ کسی مشاعرے میں غزل سرا ہونے کی حسرت دل میں رہی ؟ کوئی نئی تازہ اوٹ پٹانگ سنانی ہے ؟ مایوسی کی وجہ؟ دل شکنی کا سبب؟ للن ہر سوال کے نفی میں اپنا ڈیڑھ پاؤ سرہلاتارہا ۔ بندے نے ازرِاہ ترحم پھر سے کریدا:بھلے مانس!معاملہ کچھ نہیں تو پھر یہ کیا حال بنارکھا ہے؟ کچھ لیتے کیوںنہیں ؟ غم کی یہ پرچھائیاں، رنج کے یہ سائے بے سبب تو نہیں ہوسکتے؟۔ ۔۔للن کا پیمانۂ صبر یک بار لبریز ہوا،کرخت لہجے میں بولا: چچا! آپ دنیا کے نویں عجوبہ ، کچھ پتہ بھی ہے مودی کی شہنشاہی ، راجناتھ کی مسکانیں، محبوبہ مفتی کی جی حضوریاں کس اندھے موڑ کی نذر ہوئیں ؟ معلوم ہے مودی کے اَبروئے چشم کے ایک اشار ے سے ملکِ کشمیر میںکیا کیا ہوا؟ صاحبہ کی حکمرانی قصہ ٔ پارینہ ہوئی، غلغلہ ختم شد، دبد بہ کافور ،نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم، دلی نے گھر کا رکھا نہ گھاٹ کا،وزارت وامارت بھولی بسری یاد ہوئی۔ صاحبہ بزبان حال جگرؔ کا یہ شعر سنائے ؎
نہ صدائے بلبل خوش بیاں، نہ سرودِبزم پری رُخاں
جو بھرا ہے نغمۂ درد سے،و ہ میں ایک تارِ رباب ہوں
میں نے للن کی ہنسی اڑائی، اپنی بجھی ہوئی عقل کا چراغ جلاکر اس کے واہمے پر چوٹ کی:ابے او لال بجھکڑ! یہ کیاا ناپ شناپ بول رہے ہو ؟ تم نے ضرور غلط سنا ہے ، یہ ہو ہی نہیں سکتا، مودی جمع مفتی کی دوستی ہمالیہ سے اونچی ہند مہا ساگر سے گہری ہے ۔ جا جا اپنی سماعت وبصارت کا کسی حکیم ِحاذق سے علاج کراؤ۔ کتنے بھولے ہو ؟ کیا جن سنگھ سے دوستی میں مفتیوں کی اتنی ساری پونجی یونہی اَکارت جائے گی؟ مفتیان ِ کشمیر نے اپنے پیش روؤں کی تقلید میںبے حساب قبریں کھدوائیں، اَندھ کاری مہمیں چلائیں، ظلم وتشدد کی بھٹیاں گر ما دیں ، جیلیں بھر دیں ، تعذیب خانے آباد رکھے، سیلابیان ِ کشمیر کو غیر آباد رکھا،ا ہل ِکشمیر کوگولیاں پیلٹ، پاوا، پپر کا نشانہ بنوایا، اپنوں کی اَن سنی کردی ، اغیار کی پیالہ برداری کی ، مودی مہاراج کی مدح سرائی کی، راجناتھ کی چمچہ گیری کی،جموں کی پوجا کی ، لداخ کی ضرورت سے بھی زیادہ خدمتیں کیں، یہ سب دلی سے اپنی وفاؤں کا بھرم رکھنے کے لئے کیا۔ ۔۔للن! کہیں تم نے کسی پھٹی پرانی تاریخ ِکشمیرکا ورق تو نہیں پڑھا اور لگے بے تکی باتیں کر نے؟ دلی نے ضرور ۹ ؍ اگست ۵۳ء سے آ گے اپنے کشمیری پیادوں کے ساتھ ہمیشہ یہی ایک کہانی دہرائی۔ شیخ، بخشی،فاروق، شاہ صاحب،آزاد اپنے اپنے وقت پر بے وفا کرسی سے دہلوی آقاؤں کے حکم سے ہٹوائے گئے، ستم ہائے دلی کی سرگزشت ان دل جلوں سے پوچھیو، سن کر دل بھی بھر آئے گا، آنکھ بھی بھر آئے گی۔جوشؔ نے تاریخِ کشمیر کے انہی حزنیہ کرداروں سے یہ اقبال ِجرم کروایا ؎
فتنے کی ندی میں ناؤ کھیتاہوں میں
دھوکے کی ہوا میں سانس لیتا ہوں میں
اتنے کوئی دشمن کو بھی دیتا نہیں جُل
جتنے خود کوفریب دیتاہوں میں
رہا مفتی خانوادہ،ان پر دلی صد جان سے قربان۔۔۔ میری بہکی بہکی باتیں سن کر للن لال پیلا ہوا، فوراً جام جم کا پردہ اُٹھایا، استغفراللہ ! گناہ گار کی آنکھوں نے کیا دیکھا ، کانوں نے کیا سنا؟ رام مادھو خم ٹھونک کرکہے قلم دوات کوکنول کی جانب سے طلاق طلاق طلاق، ملی جلی سرکار خیال ومحال وجنون ، دوستی ختم دشمنی شروع، قلمروئے کشمیر ووہر ا کے سپرد، اہل ِکشمیر فوج کے حوالے ، اللہ اللہ خیرصلا! ۔۔۔ مجھے اپنی آنکھوں دیکھی پر اعتبار آیا نہ کانوں سنی پر یقین۔ یہ ناگپوری منظر مکرر سہ کرر دیکھا تب یقین آیا کہ پریوار نے پی ڈی پی کو خالی بوتل خالی ڈبہ بناکر ہی دم لیا۔ للن نے مجھ پر گستاخانہ ترچھی نظر ڈال دی، میں نے بھی بے اعتبار موسم کی مانند فوراً موقف بدلنے میں عافیت سمجھی۔ میں نے کہا: میاں! یہ پریوار بھی کیا آفت وبلا ہے ؟ مفتیوں کے ساتھ اپنی نقلی قبائے دوستی تار تار کرتے ہوئے نہ کوئی پیشگی شور شرابہ کیا ، نہ کوئی رقیب لا کھڑا کیا، نہ کسی قاصد کو بیچ میں لایا، نہ کامراج پلان کی خفیہ سرنگ لگالی ، نہ کوئی اور’’ووٹ کھور‘‘ آزمایا۔ روایات کی گھسی پٹی گردانیں دہرا نے کا بھی کیا فائدہ ؟ زعفرانیوں نے نوٹ بندی کی مانندمفتیوں پر سوتے میں شب خون مارا، دلی میں بیٹھے بٹھائے ناگپوری بدصوتی کے ساتھ قلم دوات سے چل ہٹ کہا، اپنا حاکمانہ اعتماد واپس لیا ، شاہانہ حمایت دینے سے انکار کیا۔۔۔ اورمفتیوں کو دن میں ہی تارے کیوں نظر نہ آتے ؟ ان کاسفینہ بیچ منجدھار بے یارومددگارہچکولے کھاتا جاوئے۔ ستم یہ کہ رام مادھو نے محبوبہ کو نہیں دور درشن سے کہا: بھائی لوگو! پی ڈی پی کے ساتھ بی جے پی کا مطلبی گھٹ بندھن اب یاد ِرفتہ سمجھو ،ہم نے قوم کے غم میںاس اجتماعِ ضدین کو کھلے بندوں لتاڑا ؎
جواب اُن کا کہاں سارے جہاں میں
دبی ہیں بجلیاں جوآشیاں میں
بندہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ للن اس رام کہانی پر افسردہ و آ زردہ خاطر کیوں؟ شاید وہ دلی حریت خیالی مکالمے کا منتظر تھا کہ ا سی بہانے سٹہ بازی سے قسمت آزمائے۔ کہنے لگا: مرزا ! صاحبہ نے یہ جان کاہ خبر مفتی نے سنی، صدمہ ہوا، سکتے میں آگئیں ، دم بخود رہ گئیں ، حیرت کا کوئی ٹھکانا ہی نہ رہا، پریشانی کے عالم میں ہڑبڑائیں ؎
کسی نے پھر نہ سنا درد کے فسانے کو
مرے نہ ہونے سے راحت ہوئی زمانے کو
مر تا کیا نہ کرتا ،صاحبہ نے اپنے ہرے زخم پر استعفے کا ضماد لگایا ، رسوئی سنبھالی ، چپ سادھ لی۔ اب کیا پتہ حالات کی بے جہت لہریںاُسے کہاں کہاں گھمائیں پھرائیں۔ کتنا بے اعتبار ہے کاروبارِ سیاست؟ افسوس !سنگھ پریوار نے مفتیوں سے اپنا کام خوب خوب لیا، پھر سر راہ چھوڑکر دغا دی ۔ نہرو نے بھی درازقد سے اپنے تمام کام لئے، پہلے امیراکدل سے اقوام متحدہ تک ہندوستان کی آقائیت کا وظیفہ پڑھوایا،جی بھر گیا تو منہ موڑ لیا، آنکھیں پھیر لیں، رشتے ناتے منقطع کئے ، حالات کے کوڑدان میں بائیس سالہ تک پھینکے رکھا کہ اندرا کو اس پر ترس آیا ؎
مطلب نکل گیا توپہچانتے نہیں
یوں جارہے ہو جیسے ہمیں جانتے نہیں
یار ! مودی مہاراج کا نیاچمتکار ، ایک ہی جنبش ِقلم سے مخلوط سرکار گئے دور کی یادگار، مرضیاتِ دلی کی تابعِ فرمان کرسی سے مفتیان ِ کشمیر دستبردار، زعفران زار کے لئے اچھے دن ، مفتیوں کے لئے بُرے ہی بُرے دن ، کتنا کٹھن دوراہا؟ اغیار سے دوستانہ اور نہ عوام سے یارانہ، سب کچھ اُ لٹا پلٹا، قلم کا سرقلم ، دوات سیاہی سے خالی، وزیر بے کار ، مشیر بے روزگار، سیاسی یاجوج ماجوج مر ثیہ خواں، کارکنان چشم ِ گریاں، درباری یار لوگ بے اَماں۔۔۔ کشمیر میں آج۹ ؍ اگست کا اعادہ ہوامگر دلی کے دلالوں سے کوئی شکوہ زن نہیں، گلہ نہ شکایت۔ واللہ شرق وغرب میں، یمین ویسار میں صاحبہ کے حق میں کوئی ہمدردی نہ تاسف کی لہر دوڑی ، جھوٹ موٹ کا دلاسہ بھی نہ ملا، یہ سب اپنے کئے کا صلہ۔للن ایک اکیلی جان ہے کہ مفت میں مفتیوں کی حالتِ زارپر کف ِ افسوس ملتا جاوئے ۔۔۔ مجھ سے پوچھا: چچا! یہ کاہے کا کشمیر ہے ، اتنی بڑی کہانی پر کوئی ایک پتہ بھی نہ ہلا، کیا یہ بانوئے کشمیر کی عدم مقبولیت مانیں یا دہلوی فیصلے پر عوام کی مہر تصدیق؟ میں نے کہا بھئی میں کیا جانوں ؟ بس سنگھ پریوار اپنی خصلت پر آگئی، قلم دوات کو توڑ ڈالا ، کشمیر بناگورنر راج کا باج گزار ، مفتیوں کا تخت رہانہ تاج، قطبین کا بیڑہ غرق، ایجنڈا آف آلائنس ردی کاغذ۔۔۔ للن از سر نو موج در موج بے جواب سوالوں میں ڈوبتا گیا: مگر چچا!یہ کیا ہو ا ؟ کب ہوا ؟کیوں ہوا؟ مفتیوں کوسان نہ گمان، مودی مہاراج اتناسخت جان، گولی دی نہ گالیاں دلی سے گرائیں بجلیاں،مفتیوں کا یک قلم لٹا سارا جہاں ، بند نفقہ بند نان، حاکمانِ بجبہاڑہ عدم اعتماد کی داستان ،لال سنگھ کے نکلے بڑے اَرمان، قلم دوات کا جلا آشیاں،حکومت فسانۂ مرگ ِ ناگہاں، اتحاد ِ قطبین خوابِ پریشاں ، راجناتھ سنگھ بھی نامہربان ، رام مادھو شاہی ٹرجمان، امت شاہ مفتیان ِ کشمیر کے خلاف کڑوی زبان، بلیک کیٹوں کی آمد کا اعلان ، وزیر فریاد مشیر آہ و فغان، ووہر اپر قسمت بار بار نازاں ، نعیم اختر جانِ ناتواں،درابو دل ہی دل شادماں ، ہل والے حصولِ حکومت کے لئے پریشان، ہاتھ والے غول بیابان ؎
کانٹے کسی کے حق میں، کسی کو گل وثمر
کیا خوب اہتمامِ گلستاں ہے آج کل
انہی سوالات کے جنات، انکشافات کے عفریت، پہیلیوں کی پریاں ، راز و اسرار کے بھوت للن کا دل و دماغ چاٹ رہے ہیں مگر جواب ندارد۔ اگر اُسے ان اوبڑ کھابڑ سوالوں کا جواب نہ ملاتو باؤلا ہوجائے گا۔ آپ چونکہ کشمیر کے خالی ڈبوں خالی بوتلوں کی کہانی سے آشنا اور واقف کار ہیں ، اس لئے ازراہِ کرم للن میاں کا دل رکھنے کے لئے ان پُر اسرارسوالوںکا جواب لکھ بھیجیں، قسم بے گور وکفن قلم دوات کی راقم عمر بھر ممنون ومشکور رہے گا ۔
جواب کا طالب غالب