زمانہ گواہ ہے کہ کسی بھی قوم کی کامیابی، کامرانی اور فتح و نصرت کی تاریخ رقم کرنے میں سب سے کلیدی رول اس قوم کے درمیان پایا جانے والا اتحاد و اتفاق کرتا ہے۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال، اقبال مندی و سربلندی، ترقی و خوشحالی میں اتحاد، باہمی اخوت، ہمدردی، آپسی میل ملاپ اہم ترین بنیادیں ثابت ہوتی ہیں۔ ملت اسلامیہ کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ جب تک فرزندان توحید کے اندر اتحاد و اتفاق پایا جاتا رہا تب تک وہ فتح و نصرت کی کامیاب علم پوری دنیا میں لہراتے رہے اور جب انہوں نے جذبہ محبت واخوت کو چھوڑ کر انتشار و افتراق اختیار کیا تو انہیں سخت ترین ہزیمت و شکست اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آج دنیا بھر میں مسلمان جن مصائب و آفات کے شکار ہے، اس کا سب سے بڑا سبب آپسی نا اتفاقی اور تفرقہ بازی ہے۔ ورنہ عددی کثرت و مادی اسباب اور وسائل کے اعتبار سے مسلمانوں کو سابقہ ادوار میں ایسی طاقت حاصل نہ تھی جیسی آج حاصل ہے۔ آج ملت اسلامیہ ایک امت کے بجائے ایک منتشر ہجوم نظر آتی ہے، جس میں دور دور تک کسی اتحاد و اتفاق کے امکان دکھائی نہیں دیتا۔وہ بات بھی پرانی ہے کہ جب اس امت میں سیاسی، نسبی،نسلی، وطنی اور طبقاتی ومسلکی تفرقہ تھا لیکن آج جو خطرناک تفرقات پیدا ہورہے ہیں وہ دین اسلام اور شریعت محمدی کے نام پر ہیں جس میں ایک فرقہ اپنے مخالف فرقے پر سب و شتم، تکفیر بازی، عداوت و دشمنی یہاں تک کہ قتل و غارت سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اختلاف رائے ایک فطری و طبعی امر ہے جس کو نہ مٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو مٹانا اسلام کا منشاء ہے۔قرآن میں بھی اللہ تعالی نے فرماتا ہے:اگر آپ کا رب چاہتا تو بنادیتا لوگوں کو ایک ہی امت مگر وہ اختلاف میں ہی رہیںگے۔( سورہ ہود ) کامل اتفاقِ رائے صرف دو صورتوں میں ممکن ہے : یا تو لوگوں کے دل آپس میں شیر وشکر ہوں یا ان لوگوں میں کوئی سوجھ بوجھ والا شخص ہی نہ ہو۔اسلام میں شورائیت کا نظام قائم کیا گیا ہے تاکہ مختلف آراء کی موجودگی میں بصیرت کے ساتھ فیصلہ کیا جاسکے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں بھی بسااوقات انتظامی اور تجرباتی معاملات میں اسلامی حدود کے اندر اختلاف کیا گیا۔ نبیؐ کے وصال کے بعد صحابہ ؓ کے دور میں پیش آئے نئے دینی امور اور اجتہادی مسائل میں جب بھی کوئی اختلاف ہوا تو ان پر قرآن و حدیث کی روشنی میں صحت مند بحث و مباحث ہوا نہ کہ باہمی جنگ وجدل۔ پھر اس نوع کے فروعی اختلافات تابعین اور تبع تابعین میں بھی جاری رہے مگر قابل تقلید بات یہ ہے کہ یہ اختلاف مخالفت میں نہ بدلا،نہ کسی گروہ نے مخالفین کو باطل کہا، نہ سب وشتم کا نشانہ بنایا بلکہ تمام ایک دوسرے کے تنوع علم سے فائدہ اٹھاتے ۔اس کے برعکس دور حاضر کی حالت اس سے مختلف ہے۔ وقت اس چیز کا متقاضی ہے کہ ہم اپنے اسلاف سے علمی و عملی استفادہ حاصل کریں تاکہ ملت موجودہ بحران کے چنگل سے آزاد ہوجائے۔امت مسلمہ کی تباہی و بے سروسامانی کی اصل وجہ ہر شعبہ حیات میں عدم توازن اور بے اعتدالی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت بھی ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔اورہر جماعت، طبقہ اور قیادت اپنے علاوہ ہردوسرے طبقہ ٔ خیال کو گمراہ سمجھ کر حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس انتہا پسندی نے ہمیں ان راہوں پر گامزن کردیا ہے جو آگ اور خون کی وادیوں کی جانب جاتے ہیں۔
اگر ہم طبیعت،مزاج اور زاویہ نگاہ میں اعتدال اور میانہ روی لائیں اور ایک دوسرے کی بات کو خندہ پیشانی اور تحمل سے سننے اور برداشت کرنے کی خو پیدا کرلیں تو تضاد اور مخاصمت کی فضا کے بجائے باہمی موافقت و یگانگت اور محبت و مروت ہماری زندگیوں میں آجائے گی۔ نفرت کی وہ دیوار ہمارے درمیان سے ہٹ جائے گی جو ملی اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر رواداری اور تحمل و بردباری ہمارا شیوہ بن جائے تو بہت سے مسلکی فروعی اختلافات کافی حد تک سلجھ سکتے ہیں۔ ان اقدامات سے امت مسلمہ کے اندر تباہ کن انتشار و افتراق کا یقینی خاتمہ ہوجائے گا اور امت کو فرقہ واریت کی لعنت میں مبتلا دیکھنے والے طاقتوں کے مذموم عزائم خاک میں مل جائیں گے۔ اسلام وہ دین ہے جو عدل و مساوات کا ایک انقلابی پیغام لے کر اٹھتا ہے۔ ، فرمان قرآن ہے :اس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا)۔ اس آفاقی حقیقت پر اسلامی مساوات کی سنگ بنیاد پڑتی ہے۔ بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں کہ کرتمیز بندہ وآقا اور من وتو کے سارے بت ٹوٹ جاتے ہیں۔ خطبہ حج الوداع کے موقع پر آپ ؐ کا یہ فرمانا کہ کوئی فضیلت نہیں کسی عربی کے لیے کسی عجمی پر، نہ کسی عجمی کے لئے کسی عربی پر، نہ کسی گورے کو کسی کالے پر، نہ ہی کالے کو گورے پر سوائے تقویٰ کے، اس انقلابی عقیدے سے ہر قسم کی عصبیتیں ختم کردیں۔ یہی وہ ابدی حقیقت ہے جسے دین اسلام نے دنیا میں پیش ہی نہ کیا بلکہ عملایا ۔ یہ مساوات صرف نعروں کی حدتک ہی نہیں تھی بلکہ ایچ۔ جی۔ ویلز اپنی شہرہ آفاق کتاب (a short story of the world) میں اعتراف کرتا ہے:
Although the sermons of human freedom, fraternity,and equality were said before also,& we find a lot of them in juses of Nazareth,but it must be admitted that it was Muhammad who for the first time in history established a society based on these principles۔
ترجمہ: اگر انسانی اخوت، مساوات اور حریت کے وعظ دنیا میں پہلے بھی بہت کئے گئے ہیں اور ایسے وعظ مسیح ناصری ؑکے ہاں بھی ملتے ہیں لیکن یہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ یہ محمد مصطفی ؐ ہی تھے،جنہوں نے تاریخ اسلامی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم فرمایا۔
افسوس صد افسوس وقت گزرنے کے ساتھ جب ہم نے قرآن وسیرت پاک ؐ کی یہ تعلیمات پس پشت ڈال دیں اور من مانیاں کر کے آپسی ضد اوربلا وجہ تفرقات میں پڑ گئے تواس سے اسلام کا گل سر سبد مر جھا گیا اور اب بھی اس پر مردنی چھائی ہوئی ہے ۔اس کے نتیجے میں مسلمان دنیا میں غیروں کے ہاتھوں پٹ رہے ہیں ۔امت کی بہتری اور اسے واپس اپنی پٹری پر لانے کے لیے چند قابل عمل تجاویز پیش خدمت ہے:
1۔ عقائد اور اعمال کے مشترک پہلو تلاش کر کے باہمی اخوت و اتحاد کو فروغ دیا جائے اور تمام تر اختلافات کا خاتمہ کیا جائے۔
2۔ کدورت بھری تنقیدوں کی بجائے اور وں کے ساتھ مثبت اور غیر تنقیدی اسلوبِ تبلیغ اختیار کیا جائے۔
3۔ حقیقی رواداری اور برداشت کا عملی مظاہرہ کیا جائے اور عدم اکراہ کے قرآنی فلسفے کو اپنی زندگیوں میں لاگو کیا جائے۔
4۔ دینی تعلیم کے لیے مشترکہ اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ آپس میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔
5۔علماء کے لیے جدید عصری تعلیم کا اہتمام کیا جائے تاکہ مناظرانہ اور مجادلانہ طرزعمل کا خاتمہ ہو ۔
6۔تہذیب اخلاق کے لیے موثر روحانی تربیت کا انتظام کیا جائے۔