۔3فروری1934 ء کو جمعہ کا دن تھا۔ پلوامہ کے مسلمان عید گاہ میں جمع ہوئے اور ڈوگرہ شاہی کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ دربگام کے محمد اکبر ڈار اور عبدلغنی ترالی نے احتجاجی جلسے سے خطاب کیا۔ تحصیلدار جو اس دن مجسٹریٹ کے فرایض انجام دے رہا تھا، نے جلسے کو غیر قانونی قراد دیا لیکن لوگوں نے اس حکم کو یکسر نظر انداز کیا۔ تحصیلدار نے فوج کو گولی چلانے کا حکم دیا جس سے12 برسر موقع افراد شہید ہوئے۔ بجبہاڑہ میں بھی عام لوگوں نے احتجاجی جلسوں کا اہتمام کیا۔ پلوامہ کے دلدوز واقعہ نے ان کو خاص کر مشتعل کیا تھا اور 6فروری1934ء کو بجبہاڑہ میں زبردست احتجاج کیا گیا۔ اس سے قبل کچھ لوگوں کو برما آڈینینس کے تحت سرعام کوڈے مارے گئے تھے۔ اس دن بجبہاڑہ قصبے میں مکمل ہڑتال ہوئی۔ طلبہ نے کلاسوں کا بائیکاٹ کیا اور ایک احتجاجی جلوس کا اہتمام کیا گیا جس میں قصبے اور آس پاس کے دیہاتوں سے جوق درجوق آئے لوگوں نے شمولیت کی۔احتجاجی مظاہرین نے قصبے سے فوجی انخلاء کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے برما آرڈینینس کو ہٹائے جانے کی بھی مانگ کی۔ انہوں نے ڈوگرہ شاہی کی اس انسانیت سوز حرکت اور فرسودہ وظالمانہ قانون کو لاگو کرنے پر سخت نکتہ چینی کی۔ ان مطالبات اور نعرہ بازیوں سے ڈوگرہ سپاہی مشتعل ہوئے اور آپا کھوبیٹھے۔ انہوں نے بندوقوں کے دہانے مظاہرین پرکھول دئے اور کئی لوگ شدید زخمی ہو کر گرپڑے۔ موقع ٔ واردت پر ہی تین لوگوں نے جام شہادت نوش کیا ۔ شہیدوں کی شناخت سبحان ڈار عمر 23سال، حبیب ڈار عمر32 سال اور حبیب کمرازی عمر35سال کے بطور کی۔ یہ تینوںشہداء احتجاجی جلوس کی قیادت کر رہے تھے۔ اس کھلی فوجی بربریت نے لوگوں کو ہراساں کر دیا، چناںچہ قصبے سے کا فی لوگوں نے آس پاس کے دیہات میں ڈر کے مارے پناہ لی۔ ہفت روزہ ’’صداقت ‘‘کے مدیر ایم اے صابر نے 7؍فروری کو علاقے کا دورہ کیا اور اس ظلم و بربر یت پر مفصل رپوٹ’’ صداقت‘‘ میں شایع کردی۔ حکام نے اس رپوٹ کا سخت نوٹس لیا اور ایم اے صابر کو گرفتار کر کے چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ افسوس کہ ان شہداء بجبہاڑہ کو بھی زمانے کی گردش میں فر ا موش کیا گیا ہے، حتیٰ کہ آج بجبہاڑہ قصبے میں شاید ہی کسی ان کے بارے میں کچھ معلوم ہو بلکہ ان کی قبروں کا بھی راقم کوپتہ نہ چل سکا۔ بحوالہ گریٹر کشمیر6 فروری1994
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648