کہاریاستی طلاب کو دوسری جگہوں کے طلباء سے زیادہ مشکلات درپیش ،مدرسین طلباء کی رہنمائی کریں
سرینگر //ریاستی گورنر نے مدرسین کو طلاب کی بہترین رہنمائی کرنے کی تاکید کرتے ہوئے مروجہ تعلیم کے علاوہ ماحولیات ، روزگار اور اخلاقیات سے متعلق چیلنجز سے نپٹنے کا درس دینے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی طالب علموں کو دوسری جگہوں کے طلاب سے زیادہ مشکلات درپیش ہیں ۔ انہوں نے یونیوسٹیوں کے منتظمین پر زور دیا کہ وہ طلاب کو ایسی تعلیم سے آراستہ کریں جو روز مرہ کے مسائل سے مطابقت رکھتی ہوجبکہ طلاب کو بھی اُس کی جانب بھرپور دھیان دینا چاہئے ۔ منگل کو ایس کے آئی سی سی میں سنٹر یونیورسٹی کی جانب سے پہلا کنوکیشن منعقدہ ہوا ۔ اپنے خطاب میں این این ووہرانے کہا میں یونیورسٹی کے وائس چانسلروں کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتا آیا ہوں کہ وہ طلاب کو روز مرہ کی مسائل جن میں گلوبل وارمنگ ، ایمپلائی منٹ چیلنج ،آبی زخائر کا تحفظ ،ہمارے شہر کا ماسٹر پلان،بائیوڈائورسٹی ،سیاحتی مقامات کا تحفظ اور اُن کی تعمیر وترقی کے علاوہ بہتر ٹریفک نظام کے مطابق تعلیم فراہم کرنے میں بھی اہم رول ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ مدرسین قوم کا معمار ہوتے ہیں اور انہیں طلاب کی ایک گائیڈ کی طرح رہبری کرنی چاہئے تاکہ سماج میں درپیش مسائل کا حل آسانی سے نکالا جا سکے ۔انہوں نے کہا ’’ ہم سب کو ایک بار یہ سوچنا چاہئے کہ ہم نے کتنی ریسرچ اُن مسائل پر کی ہے اور کتنی کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ہماری کتنی یونیورسٹی نے سماج میں روز مرہ کے مسائل کے حوالے سے ریسرچ اور سمینار کئے ہیں ۔انہوں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلروں سے کہا کہ وہ اچھے سکالروں کو اُن مسائل کے حل کیلئے تیار کریں جو سماج کو درپیش ہیں۔این این ووہرا نے اس دوران یونیورسٹی سے پاسنگ آوٹ طلاب پر زور دیا کہ انہیں اب معاشرے کی ترقی کیلئے زمہ داری سے کام کرنا ہو گا ،تاکہ ریاست اور ملک دونوں ترقی کر سکیں اور ہمارے روز مرہ کے مسائل کا حل بھی نکل سکے ۔گورنر نے کہا ملک میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنہیں بہتر تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ ریاست کی قائم یونیوسٹی کو شروعات میں کافی مشکلات اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑاکیونکہ ایک ہی ساتھ جب راجوری میں بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی ،کٹرہ میں وشنو دیوی یونیورسٹی اور اونتی پورہ میں اسلامک یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تو شروعات میں اُن یونیورسٹوں کے پاس یو جی سی گائڈ لائن کے مطابق بنیادی سہولیات نہیں تھیں اور نہ ہی ریاست ایسی یونیورسٹیوں کی کوئی مدد کر سکتا تھا، لیکن اب اہستہ اہستہ ان یونیورسٹی میں تعلیمی نظام ، بنیادی سہولیات ، اور تدریسی سیشن بہتر ہو گیااور آج نہ صرف مرکز بلکہ ریاست بھی یونیوسٹیوں کی بھرپور مدد کر رہا ہے اور آج ہمارے پاس ریاست میں 11یونیورسٹیاں ہیں جہاں بڑی تعداد میں طلاب تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ریاست میں ہر سال یونیوسٹیوں کے وائس چانسلروں کی ایک میٹنگ منعقد کی جاتی ہے جس میں اعلیٰ تعلیم میں آگے بڑھنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا جاتا ہے ۔سنٹر یونیورسٹی کے حوالے سے ووہرانے کہا کہ اس یونیورسٹی کا قیام سال2009میں عمل میں لایا گیا، شروع میں اگرچہ اس یونیورسٹی کو بھی کام کرنے میں دقتیں پیش آئیں تاہم اب یونیورسٹی کا معیار بڑھ گیا ہے اور یہاںنہ صرف فکلٹی بڑھ گئی ہے بلکہ طلاب کی تعداد بھی تین ہزار کے قریب ہے ۔انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ آنے والے سالوں میں کشمیر کی یونیورسٹیوں میں بیرون ریاستوں سے طلاب تعلیم حاصل کرنے آئیں گے ۔ ووہرا نے کہا کہ ریاست میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے اور لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں ہماری ریاست میں نمایا کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔انہوں نے اس دوران ریاست کے پروفیسروں ، لیکچروں اور دیگر مدرسین سے تاکید کی کہ وہ طلاب کی ایک اچھا رہبر بن کر رہنمائی کریں کیونکہ ریاست کے طلاب کو دوسری جگہوں سے تعلق رکھنے والے طلاب سے زیادہ دشواریوں کا سامنا ہے ۔ اس سے قبل سنٹر یونیورسٹی کے وائز چانسلر پروفیسر معراج الدین میرنے کہا کہ سنٹر یونیوسٹی کا قیام جب سال2010میں عمل میں لایا گیا تب یونیورسٹی میں مضامین کی صرف تین سٹریم تھیں اور 300بچے زیر تعلیم تھے لیکن آج یونیوسٹی میں 23سٹریم ہیں اور یہاں 3000بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔تقریب کے موقعہ پر یونیوسٹی نے 100کے قریب طلاب کو مختلف مضامین میں ڈگری فراہم کرنے کے علاوہ سونے کے تمغے بھی فراہم کئے گئے ۔ اس موقعہ پر ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ، پی ڈی پی ترجمان علیٰ نعیم اختر ، نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر وایم ایل اے کنگن میاں الطاف احمد ، ایم ایل اے سونہ واڑی محمد اکبر لون ، ایم ایل اے گاندربل شیخ اشفاق جبار وائز چانسلر کشمیر یونیورسٹی، وائس چانسلر ، سکاسٹ یونیورسٹی کے علاوہ سابقہ وائس چانسلر کشمیر یونیورسٹی ریاض پنجابی ، عبدالواحد قریشی کے اور دیگر پروفیسروں اور مدرسین کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود تھی ۔