وادی کشمیر میں 2018 ء کے جون مہینے کے آخری ایام اور جولائی مہینے کے ابتدائی ایام میںیا تو بارشیں ہوئیں یا موسمی صورت حال کے سائنسی تجزیے میں یہ امکان ظاہر کیا گیاکہ بارشیں ہوں گی۔بظاہر موسموں کے تغیر میں بارشیں ہوں اِس سے نگرانی کی کیفیت نہیں ہونی چاہیے لیکن وادی کشمیر میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک یا دو دن کی تیز بارشوں سے ایک ایسی سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جس سے لوگوں کے جان و مال کو خطرات لا حق ہوتے ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ عوام میں بے اطمینانی کی ایک ایسی کیفیت چھا جاتی ہے جہاں عوام الناس کے پاس دعائیں کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ حالیہ برسوں میں 2014 ء میں خطرات سے بھر پور سیلاب سے جو جان و مال کا شدید نقصان ہوا ،اُس کی یاد یں ابھی تازہ ہیںاور جون کے آخری ایام میں جو 36گھنٹے کی مسلسل بارش ہوئی اُس سے دریائے جہلم میں طغیانی کی کیفیت ظاہر ہوئی جس سے وہی خطرات لا حق ہوئے جو 2014 ء میں پیش آئے تھے۔ قدرت کا کرم رہا کہ 36گھنٹے کی مسلسل بارش پانی کا برسنا کم ہوا اور جولائی کی پہلی تاریخ کو بروز ایتوار سنگم،رام منشی باغ و آشم میں پانی کی سطح خطرے کی نشانی سے بتدریج نیچے آ رہی تھی البتہ چونکہ سوموار اور منگلوار کو موسمی صورت حال کے بارے میں سونم لوٹس کی پیش گوئی کے مطابق مزید بارشیں ہونے کا امکان ہے، لہٰذا لوگوں کی نگرانی میں کمی نہیں آئی ہے اور خدشات بنے رہے۔
یہاں پہ سوال یہ ہے کہ بار بار ایسا کیوں ہو رہا ہے جب کہ سائنسی پیش رفت اتنی زیادہ ہے کہ قدرتی آفات سے نبٹنے کیلئے بنی نوع انسان کے پاس عصر حاضر میں پہلے سے کئی زیادہ امکانا ت ہیں۔ جون کے آخری روز ہفتہ گذشتہ سنیچر کے دن پامپور سے لے کے سرینگر تک لوگ حیراں و پریشاں ہوکر دریائے جہلم میں پانی کی بڑھتی ہوئی سطح کو دیکھ رہے تھے جب کہ پانی کی سطح خطرے کے نشان کے آس پاس منڈلا رہی تھی بلکہ سنگم میں خطرے کے نشاں کو پار بھی کر چکی تھی جس سے جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں میں سیلاب کی صورت حال کا سامنا تھا۔پامپور میں گا لندر کے قریب اور شوپورہ تک کئی جگہوں پہ پانی کے بہاؤ کو ریت سے بھرے ہوئے تھیلوں سے روکنے کی کوشش کی گئی ۔دیکھا جائے تو یہی مقامات تھے جہاں 2014 ء میں پانی کا تیز بہاؤ سرینگر کی کئی بستیوں کو زیر آب کر گیا تھا۔پچھلے چہار برسوں کے دوراں کئی بار یہ خبریں آئیں کہ بنڈ کو مضبوط کرنے کیلئے رقومات فراہم کی گئیں ہیں اور اِس پہ کام ہو رہا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ چہار برس گذرنے کے بعد ہم وہی نظر آتے ہیں جہاں چہار برس پہلے تھے ۔عوامی حلقوں میں یہ سوال شدت سے پوچھا جا رہا ہے کہ اگر پانی کے تیز بہاؤ کو روکنے کیلئے بنڈ کو مضبوط کرنے کیلئے رقومات فراہم کی گئیں ہیں اور کام ہونے کا دعوا بھی کیا گیا ہے تو پھر ریت سے بھرے ہوئے تھیلوں سے پانی کے بہاؤ کوروکنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ آخر کب تک لوگوں کے جان و مال کے ساتھ یہ کھلواڑ ہوتا رہے گا؟ آج گئے ایک ہفتہ پہلے سنیچر کے روز پامپور سے لے کے سرینگر تک کئی بستیوں کے لوگ نچلی منزلوں سے ساماں زیست اوپر کی منزلوں میں منتقل کر رہے تھے جبکہ جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں میں سیلابی صورت حال تھی۔
ہفتہ گذشتہ کے دوراں سیلابی صورتحال جہاں اخبارات کی سرخی بنی رہی وہی سوشل نیٹ ورکنگ سایٹس پہ بھی عوام الناس کے تبصرات سامنے آئے جس سے اِس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خبر عوامی تشویش کا باعث بنی رہی۔ کشمیر میں سیلابوں کی تاریخی نوعیت پر بھی تبصرات ہوئے جس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ گذشتہ کئی صدیوں میں کشمیر میں بار بار سیلاب نے تباہی پھیلائی اور لوگوں کے جاں و مال کا زیاں ہوتا رہا۔ ماضی کی تاریخ سے جو قومیں سبق حاصل نہیں کرتیں اُنہیں مستقبل میں بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہم حادثات گذشتہ سے صرفنظر کرتے ہوئے ایک نئی افتاد کے انتظار میں رہتے ہیںاور من الحیث القوم یہی ہمارا المیہ ہے۔سیلاب سے متعلق جو تاریخی واقعات سوشل نیٹ ورکنگ سایٹس پہ منعکس ہوئے وہ یہ عندیہ دیتے ہیں کہ کشمیر ہر صدی میں مسلسل سیلاب کی زد میں رہا ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ سایٹس کے اِن پوسٹوں میں شفیع راتھر صاحب کا پوسٹ ماضی کے سیلابوں کے بارے میں اہمیت کا حامل ہے۔موصوف نے بڑی محنت سے تاریخی واقعات کو منعکس کیا ہوا ہے۔ انگریزی میں اس پوسٹ کا اُردو ترجمہ کچھ تاریخی اہمیت کے حامل اضافوں کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
16ویں صدی میں علی شاہ چک کے دور سلطنت میں(1570-1579 AD)سینکڑوں مکانات سیلاب کے تیزرو پانی میں بہہ گئے، زراعت کا نقصان ہوا اور تین برس تک لوگ قحط سالی کا شکار رہے۔ 17ویں صدی جب مغل سلاطین کے دور تھا اور ابراہیم خان کی صوبیداری((1678-1686 AD ایک مہینے تک بارش ہوتی رہی جس سے طغیاں بہاد کا نام دیا گیا یعنی ایک ایسا سیلاب جس کی کوئی حد و بند کوئی سرحد نہیں تھی اور جو چیخ و پکار کے بیچ لوگوں کی ہستی و نیستی کو اپنے ساتھ بہا کے لے گیا ۔اِس سیلاب کے ساتھ ساتھ بھونچال بھی آیا جس سے مزید زیاں ہوا۔18ویں صدی میں ابھی مغلیہ دور ہی تھا اور نوازش خان کی صوبیداری(1709-1710 AD) جب کشمیر پھر سیلاب کی زد میں آ گیا اور حسب معمول ایک اور تباہی آئی۔اِس سیلاب کے ساتھ ساتھ صفا کدل کے محلہ ملچمر میں آگ کی واردات پیش آئی جو قریبی محلوں میں پھیل گئی اور 40,000مکانات نذر آتش ہوئے۔ 18ویں صدی میں مغل سلاطین کے دور اور افراسیاب خان کی صوبیداری (1746-1748 AD) میں کھیت و کھلیان کوہوئے نقصانات کے علاوہ ہزاروں مکان تباہ ہوئے ۔قحط زدگی سے جانیں اِس حد تک تلف ہوئیں کہ کفن تک دستیاب نہیں رہے۔ لاشوں کو گھاس میں لپیٹ کے دریا میں بہایا گیاجس سے پانی آلودہ ہوا۔ پوری آبادی کا تیسرا حصہ زیاں جانی کا شکار ہوا ۔بہت سارے لوگوں نے فرار کی راہ اختیار کی اور جو رہے وہ قحط زدگی کا شکار ہوئے۔
18ویں صدی کا ایک اور سیلاب امیر خان (1771-1772 AD)کی صوبیداری میں پیش آیا جبکہ افغان سلاطین کا دور دورہ تھا۔یہ سیلاب امیر خان کا دیوان خانہ بھی بہا کے لے گیا ۔ زراعت کے نقصانات کے علاوہ یہ سیلاب کئی پل بھی بہا کے لے گیا۔ اِس سیلاب کے بعد حکومتی مقام شیر گڈھی کو نئے سرے سے تعمیر کیا گیا جس کی دیواریں مضبوط بنائیں گئیں اور کئی شاندار عمارات کی تعمیر بھی ہوئی۔ 19ویں صدی میںجب کی لاہور کی خالصہ سرکار کا دور دورہ تھا اور شیخ محی الدین گورنر تھے 1841ء میں مسلسل بارشوں سے کئی مقامات پہ شگاف پڑے اور پانی سرینگر کے شہر میں داخل ہوا۔ سب سے زیادہ نقصان رعناواری اور خانیار کے علاقوں میں پیش آیا۔سیلاب فتح کدل سے لے کے سمبل تک سارے پل بہا کے لے گیا۔20ویں صدی میں ڈوگرہ شاہی کے دوراں 1903ء میں جب پرتاب سنگھ سریر آرائے مملکت تھے 24جولائی کو بارشیں شروع ہوئیں اور یہ برسنا 59گھنٹے تک جاری رہا جس سے سرینگر شہر ایک بار پھر طغیانی کا شکار ہوا۔اِس سیلاب میں بھی جانی و مالی نقصاں ہوا۔ بیسویں صدی کا ایک اور سیلاب 1959ء میں بخشی غلام محمد کی وزارت عظمی کے دوراں پیش آیا جس میں املاک ضایع اور کھیتی تلف ہوئی۔ 21صدی میں جبکہ عمر عبداللہ وزیر اعلی تھے عصر جدید کے شدید ترین سیلاب میں کم و بیش 100جانیں تلف ہوئیں۔لاکھوں لوگ ہفتوں بے گھر رہے۔ہزاروں مکاں،سڑکیں،پل تباہ ہوئے۔ اِس سیلاب میں مالی زیاں کا تخمینہ 100,000 (ایک لاکھ) کروڑ لگایا گیا۔
ایک تاریخی تجزیے میں جس میں شفیع راتھر صاحب کے پوسٹ کی ہمراہی بھی رہی، ہم نے یہ دیکھ لیا کہ پچھلی کم و بیش پانچ صدیوں میں کشمیر میں بار بار سیلاب آئے۔ظاہر ہے زمانہ قدیم میں وہ سائنسی معلومات نہیں تھیں جن سے سیلابوں کا تدارک کیا جا سکتا اور اگر کچھ حدتک معلومات تھیں بھی تب بھی غلامی کی حالت میں کشمیر میں کوئی بھی خارجی حکمران اُس حد تک سرمایہ کاری کرنے پہ آمادہ نہیں تھے جس سے لوگوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے نجات حاصل ہو سکتی ۔کشمیر کے ماضی کی تاریخ میں ایک مہندس سویا کا ذکر ہے جس نے جہلم کی تہہ کو صاف کرنے کی غرض سے بارہمولہ کے نواح میںدریا میں سکے پھینکے اور لوگ سکے حاصل کرنے کیلئے دریا میں کود پڑے جس سے دریا کہ تہہ میں پڑا ہوا ملبہ صاف ہوا اور پانی کے بہاؤ میں تیزی آئی چناچہ جہلم کے کنارے بالائی بستیوں کے لوگوں راحت نصیب ہوئی کیونکہ پانی کے بہاؤ میں خاطر خواہ تبدیلی آئی۔ جو مسلٔہ تب تھا وہ آج بھی ہے۔مسلٔہ جہلم کی تہہ صاف کرنے کا ہے تاکہ تیز و مسلسل بارش کی صورت میں پانی کا بہاؤ بالائی علاقوں سے نیچے کی جانب بغیر کسی رکاوٹ کے قائم رہے۔
یکم جولائی 2018 ء کے گریٹر کشمیر کے شمارے میں اعجاز رسول سے منسوب ایک بیان منظر عام پہ آیا جس میں موصوف یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ دریا کی تہہ میں پچھلے 26 سالوں کی ر یت و مٹی کا ملبہ (سیلٹ: silt) جمع ہو چکا ہے جس میں 2014 ء کے تباہ کن سیلاب سے کئی گنا اضافہ ہوا۔اعجاز رسول ماحولیات اور پانی سے متعلق امور کے ماہر ہیں ۔ اُن کا ماننا ہے کہ ملبہ ہی اِس بات کا سبب ہے کہ 36 گھنٹے کی بارش سے دریا کا پانی خطرے کی حدوں سے گذر گیا اور سیلابی صورت حال پیدا ہو گئی ۔ظاہر ہے کہ دریا کی تہہ میں ملبے کے سبب پانی کے قدر تی بہاؤ میں خاطر خواہ کمی آ جاتی ہے اور بالائی علاقوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے۔دریائے جہلم کے ضمن میں لیا جائے تو مانا جا سکتا ہے کہ پانی کے قدرتی بہاؤ میں کمی کے سبب نہ صرف جنوبی کشمیر کے اضلاع بلکہ وسطی اضلاع جن میں سرینگر بھی شامل ہے چند دنوں کی مسلسل بارش سے سیلاب کی زد میں آتے ہیں۔اعجاز رسول پچھلے چہار سالوں سے یعنی 2014 ء کے سیلاب کے بعد سے ہی مختلف عوامی مجلسوں میں چاہے وہ ماحولیات سے متعلق سیمنار ہو یا کہیں میز گرد میں بحث و مباحثہ آگے کے خطرات کے بارے میں ذکر کرتے رہے جس کا راقم الحروف گواہ ہے لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔سچ پوچھیں تو ہمارا تو اللہ ہی حافظ ہے اور من الحیث قوم ہم نے کچھ نہ کرنے کی جیسے قسم کھا رکھی ہے۔
1903ء کے سیلاب کے بعد ڈوگرہ مہاراجوں کے دور میں سرینگر شہر کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کیلئے ایک فلڈ چنل (Flood Channel) کا اہتمام کیا گیا تاکہ پانی کے نکاس میں کوئی دقت پیش نہ آئے ۔ بگذشت زماں شہر کے نچلے علاقوں میں جہاں سے پانی کا نکاس ہوتا ہے اور جنہیں لغت فرہنگ میں ویٹ لینڈس (Wetlands)کہا جاتا ہے میں ناقص منصوبہ بندی سے کئی آبادیاں وجود میں آئیں ہزاروں مکانات بننے لگے جن میں کئی سرکاری عمارات بھی شامل ہیں ۔ اِس سے شہر مسدود ہونے لگا چناچہ آج سرینگر کا شہر کچھ دنوں کی مسلسل بارش سے سیلاب کی زد میں آتا ہے۔دیکھا جائے تو شہر کے ویٹ لینڈس میں رہائشی مکانوں کی تعمیر شہری منصوبہ بندی کے اصولوں کے خلاف ہے ۔شہری منصوبہ بندی دور جدید میں ایک باقاعدہ ایک مضمون کی صورت میں پڑھائی جاتی ہے لیکن ماضی میں جبکہ معلومات اتنی پیش رفتہ نہیں تھیں کشمیری سلاطین کے دور میں آبادیاں شہر کے بالائی علاقوں میں بنائیں گئیں جنہیں ہائی لینڈس (Highlands)کہا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو پچھلی کئی صدیوں سے مغرب میں یورپ کے شہروں میں شہری منصوبہ بندی کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آبادیاں ہائی لینڈس پہ بنائیں گئیں ہیں جبکہ ہم شہری منصوبہ بندی کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے پاؤں پہ خود کلہاڑی مارنے کے مرتکب ہو چکے ہیں۔اللہ نگہباں!
Feedback on: [email protected]