قطعات
اُڑی ہیں دھجیاں شرم و حیا کی
نئی تہذیب کی جلوہ گری سے
یہ روشن دور مغرب کو مبارک
ہم اندھے ہوگئے اس روشنی سے
خودنمائی کی عام دعوت ہے
ہر بُرائی کی عام دعوت ہے
منہ چھپانے لگی ہے شرم و حیاء
بے حیائی کی عام دعوت ہے
مغربی تہذیب سب پر چھا گئی
حق پرستوں کو بھی اب یہ بھا گئی
آہ! اب یہ خوش نُما رنگین بَلا
رقص کرکے سب گھروں میں آگئی
ہم ترقی کرکے ننگے ہوگئے
بچے بالے گھر کے ننگے ہوگئے
جیتے جی مرتے رہے مغرب پہ ہم
اور آخر مرکے ننگے ہوگئے
ماسٹر عبدالجبار گنائی
موبائل نمبر؛ 8082669144
منحرف ہو جاؤں گی
دل حزیں نالہ فضا میں دیکھئے گونجا کہیں
غالباً پھِر سے کوئی ماں ہے کہیں محوِ فُغاں
دور اُس سے اُس کا شاید ہو گیا لختِ جگر
غیر ہی لائے اُٹھا کر جس کا لاشہ سر بُرید
یہ سیہ بختی ہے کیسی اے مِرے ربِ یزل
اِک سہارا تھا یہ میرا، یہ سہارا بھی گیا
تیرہ بختی کا میں رونا کب تلک روتی رہوں
دامنِ صد تار کو اشکوں سے میں دھوتی رہوں
اِس سے بہتر ہے کہ مولیٰ مُجھ کو تولے جا شتاب
میں جِگر گوشے کو کیسے لحد میں تنہا رکھوں
قبر کی تنہائیوں میں رہ کے یہ اُکتائے گا
یہ اذیت کوش لمحوں کو نہیں سہہ پائے گا
اس کی یادوں کے ہیولے سر پہ جب منڈلائیں گے
میں غریقِ سوچ ہو کر نیم جاں ہو جائوں گی
جب مرا ذہنی توازن منتشر ہو جائے گا
میں کہ تیرے نام سے ہی منحرف ہو جائوں گی
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
رابطہ؛ 9697524469