ریاستی گورنر کی طرف سے سیکورٹی ایجنسیوں پر کاروائی کے دوران معیاری ضابطہ کار(SOP) پر عملدرآمد کرنے کی یاد دہانی کراتےہوئے شہریوں کو کسی قسم کے جانی ومالی نقصان سے محفوظ رکھنے کی تلقین کرنے سے اس بات کا انداز ہ لگانا مشکل نہیں کہ انتظامی سطح پر بھی یہ احساس اُجاگرہو رہا ہے کہ موجودہ حالات میں فورسز کی طرف سے کاروائیوں کے دوران اُن اصولوں پر عمل نہیں ہو رہا ہے، جو ایسے حالات کےلئے ایک ضابطے کی حیثیت رکھتے ہیںاور جسکے وہ پابند ہیں۔ یہ اظہار گزشتہ دنوں کولگام میں تین شہری ہلاکتوں کے بعد ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں شمالی کمان کے سربراہ کوبھی بلایا گیا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مختلف سیاسی طبقوں اور عوامی حلقوں کی جانب سے کافی عرصہ سے یہ باور کرانے کی تواتر کے ساتھ کوشش کی جارہی ہے کہ عسکریت مخالف کاروائیوں کے دوران معیاری ضابطہ کار کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ، جس کی وجہ سے بار بار شہریوں کے جان و مال کے زیاں کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور ا ن ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے اہلکاروں کےخلاف کسی بھی محکمانہ کاروائی کی کوئی مثال شاذ ہی مل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی اور ملکی سطح پر انسانی حقوق پر کام کرنے والے مختلف اداروں نے فورسز کی جانب سے عام شہریوں کو نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے وقت وقت پر متعدد درپورٹیں بھی جاری کی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت کی جانب سے ایسی رپورٹوں کو شاز ونادر ہی خاطر میں لایا جاتا ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخاب کے دوران بیروہ میں ایک شہری کو ، جو پولنگ بوتھ سے اپنا ووٹ ڈال کر گھرلوٹ رہا تھا، کو ڈھال بنا کر گاڑی کے آگے باندھ کر گائوں گائوں پھرایا گیا، لیکن حقوق انسانی کی اس بدترین خلاف ورزی پر متعلقہ اہلکار کے خلاف کوئی کاروائی کرنا تو کُجا اُلٹے اسکی عزت افزائی کی گئی۔ اتناہی نہیں بلکہ دائیں بازو کے حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایسے واقعات کو فروغ دینے کی تحریک چلائی گئی ،جنکے یقینی طور پر سیکورٹی ایجنسیوں کی کاروائیوں پر اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں۔ ہاورہ مشی پورہ واقع میں پیش آئی ہلاکتوں جن میں ایک کمسن لڑکی جو اپنے سکول کی قابل ترین طالبات میں شمار کی جاتی تھی، نے انسانیت کےلئے درد رکھنے والوںکے دل چھلنی کرکے رکھ دیئےہیں۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی صف بندیوں کے آر پار اس واقع پر شدید ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ مزاحمتی حلقوں کی جانب سے ایسے واقعات پر ردعمل کو انتظامی حلقے روایتی قرار دیکر نظر انداز کرسکتے ہیں لیکن وہ مین ا سٹریم حلقے جن میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی بھی شامل ہے اور جو وقت وقت پر ریاست میں سریر آرائے حکومت رہے ہیں؟ کی جانب سے ان ہلاکتوں کو انسانی اور جمہوری اصولوں کی بیخ کنی کے مترادف قرار دینے کو انتظامی حلقے کس انداز سے دیکھ رہے ہیں۔ اس ردعمل میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگرکہیں پہ فورسز پر پتھر پھینکے جاتے ہیں تو گولی پتھرکا جواب نہیں ہوسکتا ، لیکن جس عنوان سے تواتر کے ساتھ شہری ہلاکتوں کے واقعات پیش آرہے ہیںاُن سے یہ لگتا ہے کہ گولی کو پتھر کا جواب بنایا جا رہا ہے۔ مستقبل میں یہ رجحان کیا رنگ کھلائیگا اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے تاہم اتنا ضرور ہے کہ حالات سدھرنے کی بجائے مزید بگڑ جائینگے۔ گورنرکی طرف سے شہری ہلاکتوں پر اظہار افسوس ایک خوش آئند عمل ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے حالات پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے اور اگر کوئی ایسے حالات پیدا کرنے کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کےخلاف کاروائی کی جائے، یہی حمہوریت اور آئین کا تقاضا ہے۔