ریاست جموںوکشمیر میں عوام کو کافی عرصہ سے انتظامی بے ضابطگیوں کی وجہ سے سخت مشکلات اور مصائب کاسامنا رہا ہے۔ چنانچہ وزیراعظم اوروزیر داخلہ دونوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جموںوکشمیر میں موجود بے چینی کےلئے بہتر حکمرانی کا فقدان ایک اہم وجہ ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکمرانی اور ترقیاتی عمل پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حالیہ برسوں میں حکمرانی اور انتظامی کارکردگی کے معیار میں کافی گراوٹ دیکھنے کو ملی ہےاور یہ ایک اہم سوال ہے کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟ اسکا ایک سیدھا سادھا جواب ایک مخصوص سیاسی ماحول کی پیدا کردہ غیر یقینیت ہے اور اسی غیر یقینت کی وجہ سے احتساب کا عمل کہیں نظر نہیں آتا۔ ہر حکمران طبقے نے عوام کو درپیش مسائل صدق دلی اور سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی بجائے اقرباء پروری کاسہارا لیکر اپنی تھلیاں بھرنے پر توجہ مرکو ز رکھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر حکمرانی اور انتظامی معاملات میں دیانت ، ایمانداری اور فرض شناسی کا عنصر موجود ہوتا تو کم از کم عوام کو درپیش روز مرہ کے مسائل حل کرنے کی فضاء پیدا ہوتی اور عوامی مشکلات کا ازالہ ہوسکتا تھا۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کئی مصوبے عارضی بنیادوں پر کسی قسم کی منظم منصوبہ بندی کے بغیر ہی دردست لئے گئے اور یہ دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کی گئی کہ کیا عام انسان کو اس سے کوئی فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے یا نہیں۔ اکثر ایسے مصوبے حکومتوں کی تبدیلی کی وجہ سے نامکمل رہتے ہیں اور نئے حکمرانوں کی جانب سے اکثر و بیشتر ان میں یاتو ترامیم کی جاتی ہیں یا پھر انہیں قطعی طور بستہء فراموشی کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ یہ شاید عجوبے سے کم نہیں کہ جب بھی ریاست پر گورنر راج یا صدارتی راج نافذ رہا ہے بہتر انتظامی تحرک اور سابق حکومتوں کی غلط پالیسوں میں سدھار دیکھنے کو ملتارہا ہے۔ ان ایام میں اقرباء پروری اور بد دیانتی کے عمل میں اچھی خاصی تخفیف ایک اہم مظہر ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اس نظام میں احتساب مضبوط ہوجاتا ہے اور انتظامی صیغے سیاسی مداخلت سے محفوظ رہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور تعمیر و ترقی کی منصوبہ بندی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔لہٰذا اگر وزیراعظم اور وزیر داخلہ بہتر انتظامیہ کی فراہمی اور تعمیر و ترقی کے عمل میں بہتری لانے کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو اس کےلئے سازگار ماحول استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس صورتحال کےلئے موجودہ سیاسی حقائق کا دیانتداری کے ساتھ ادارک کرکے با مقصد سیاسی عمل شروع کرنا بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ اس سیاسی عمل میں سبھی طبقہ ہائے خیال کو ساتھ لے کر چلاجائے۔ ایسے سیاسی تحرک کے بغیر احتساب اور ترقی کی اُمید رکھنا عبث ہے۔باعمل سیاسی تحرک کےلئے کشمیر کے موجودہ حالات کوسنجیدگی دیانتداری اور دردمندی سے ایڈرس کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والے عناصر کے دبائو میں آکر ایسا ماحول پیدا کیا جائے ، جو عوام کو زخم دینے اور اُنہیں مصائب میں مبتلاء کرنے کے ساتھ مخصوص ہو۔