حالیہ دہائیوں سے تیزی کے ساتھ جنگلاتی رقبہ سکڑتاجارہاہے اور کل جہاں گھنے جنگل ہواکرتے تھے وہیں آج ان کا نام و نشان تک باقی نہیںہے، جس کی وجہ سے ماحولیاتی توازن بگڑتاجارہاہے اورجس کا براہ راست اثر انسانی آباد ی پر پڑرہاہے۔ماحولیات کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے جنگلات کا تحفظ لازمی ہے کیونکہ یہ تباہی موسمی تغیر و تبدل کی صورت میں سامنے آکر ایسے حالات پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے، جو عام انسانی آبادی کو مصائب میںمبتلا ء کر دیتی ہے۔پوری ریاست کی طرح جموں خطہ میں بھی بہت بڑا رقبہ جنگلات کا ہواکرتاتھاجو دن بدن سکڑتاجارہاہے جس کیلئے ہم خودذمہ دار ہیں ۔ کہیںلکڑی کےحصول کا لالچ ، کہیں جنگلاتی اراضی کو زرعی زمین میں تبدیل کرنے کا لالچ اورکہیں زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش میں سرسبز سونے کو بے دردی کے ساتھ کاٹ دیاگیا۔تشویشناک بات یہ ہے کہ موسم گرما کے دوران جموں خطہ میں جنگلات کو شرپسند عناصر اپنے مذموم مقاصد کی خاطر آگ لگادیتے ہیں اور شدت کی گرمی میں یہ آگ تیزی کےساتھ پھیل کے بڑے بڑے رقبوں کو تباہ کرکے چھوڑ دیتی ہے اور اسے بجھاپانا مشکل ہوجاتا ہے۔۔پچھلے کچھ برسوں کے دوران یہ معمول رہاہے کہ موسم گرما میںوقفے وقفے سے جنگلات آگ کی نذر ہوتے رہے ہیں جس نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے ۔رواں برس ساری ریاست کے ساتھ ساتھ جموں خطہ میں بھی متعدد ایسی وارداتیں رونما ہوئیں لیکن آج تک انتظامیہ اسکی اصل وجوہات کو سامنے لانے سے قاصر نظر آرہی ہے۔جموں سے پونچھ شاہراہ کے کنارے گھنے جنگلات میں موسم گرمامیں روزانہ ہی کسی نہ کسی مقام پر آگ سلگ رہی ہوتی ہے جس سے چھوٹے پیڑ اگنے سے قبل ہی مرجھاجاتے ہیں جبکہ بڑے بڑے درختوں کو بھی نقصان پہنچتاہے اور ان کا فروغ نہیں ہوپاتا۔اسی طرح سے دیگر علاقوں میں زیادہ گھاس اگانے کے لالچ میں جنگلات کو آگ لگائی جاتی ہے ،جس سے درختوں کے سوکھے پتے جل جاتے ہیں اور اس جگہ پر گھاس تو زیادہ سے زیادہ پیدا ہوتیمگر ذاتی مفاد کی خاطر جو تباہی مجموعی طور پر ہورہی ہے وہ سنگین خطرہ ہے۔ریاست کی اصل خوبصورتی اور اس کی دنیا بھر میں شناخت کی وجہ ہی یہاں کے گھنے اور خوبصورت جنگلات و آبی ذخائر ہیں لیکن جس قدر ناجائز تجاوزات سے آبی ذخائر کو نقصان پہنچاہے اسی قدر جنگلات کو بھی تباہ کیاگیاہے۔سرکاری سطح پر ہر سال شجرکاری کے نام پر مہم چلائی جاتی ہے اور کروڑوں روپے کے پیڑ پودے خرید کرکے انہیں ریاست بھر میں اگانے کیلئے تقسیم کیاجاتاہے لیکن یہ عمل بری طرح سے ناکامی دوچار ہواہے اور اس سے سوائے خزانہ عامرہ کی لوٹ مار کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔کئی مقامات پر نئے نئےقطعے(Enclosures) بھی بنائے گئے اور ان کی تاربندی بھی ہوئی مگر کچھ ہی عرصہ بعد اس اراضی کو مقامی آبادی نے اپنے لئے استعمال کیا اور دیکھ ریکھ نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے پیڑ پودے مال مویشی کا چارہ بن کر رہ گئے۔حکام کو یہ بتاناچاہئے کہ شجرکاری سے لیکراینکلوژربنانے اور ان کی تاربندی تک کے عمل میں سالانہ خرچ ہونے والی رقم کا حاصل کیاہوااور کیوں شجرکاری مہم دکھاواثابت ہورہی ہے۔جنگلات کی تباہی کا نتیجہ ہے کہ ماحولیاتی توازن بگڑگیاہے اور کئی علاقوں میں موسم سرما کے دوران برف کی ایک پھواربھی نہیں گرتی جہاں کل تک کئی کئی فٹ برفباری ہوتی تھی جس کے سبب پورا سال پانی کی قلت کاسامنانہیں کرناپڑتاتھاتاہم آج ہر ایک علاقے میں پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے اور قدرتی چشمے یہاں تک کہ ندی نالے بھی سوکھتے جارہے ہیں اور ان میں برساتی موسم میں ہی پانی رواں ہوتاہےاور کبھی بے موسم ایسی بارشیں ہوتی ہیں کہ سیلاب سے تباہی مچ جاتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگلات کو بہر صورت تحفظ دیاجائے اور شجرکاری مہم کو محض دکھاوا نہیں بلکہ سنجیدگی سے انجام دیاجائے ۔ اس وقت ساری دنیا کو ماحولیاتی تباہی کا سامنا ہے اور یہاں اس کےلئے ہم اپنے ہاتھوں سے وسائل پیدا کر رہے ہیں، جس کےلئے سارا سماج ذمہ دار ہے اور انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہ ہونے کی وجہ سے مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہو رہی ہے۔