جس قوم میں غیرت اور حیا کا خاتمہ ہو جائے وہ قوم کبھی اصل معنوں میں کامیاب نہیں کہلا سکتی، اگرچہ وہ کتنی بھی مالی خوش حالی اور جسمانی تنومندی ر کھتی ہو۔ بے غیرتی اور بے حیائی انسانی معاشرے کے لئے سم قاتل سے کم نہیں ہوتی۔ جس معاشرے کے مرد وزن اس بیماری کا بر وقت تدارک نہ کریں وہ دیر سویر تباہی کے دہانے پر پہنچ کر رہ جاتے۔ یہ بات اصولاً طے ہے کہ اس نوع کی تباہی انسان کی خود کی کمائی ہوتی ہے ۔ کشمیر میں مصائب و مظالم کے بیچ بے حیائی اور بے غیر تی کا بھی دور دورہ ہورہاہے ۔ حیا سوزی اور غیرت سے تہی دامن ہو کر ہمارا انفردای واجتماعی کردار کتنا بے ڈھب اور بد نما ،اس کا ذکر کرنے سے قلم بھی تھرا اُٹھتا ہے ۔ بے غیرتی و بے مروتی کے گدلے سمند رمیں ڈوب کر ہم کہاں پہنچے ہوئے ہیں اور ہمارا مستقبل ان حوالوں سے کتنا تاریک ہے،اس کے لئے راقم الحروف اپنے صرف ایک روز مرہ تجربے کا ذکر کر نا چاہے گا ۔ یہ مشاہدہ ہماری روز مرہ زندگی کا لازمی حصہ ہے کہ صبح گھر سے نکلتے وقت جب ہم لوکل مسافر گاڑی میں سفر کرتے ہیں تو ہمارے ہاں ٹریفک سسٹم کی خرابی کے سبب کوئی گاڑی اُس وقت تک نہیں ہلتی جب تک اس میں اوورلوڈ (over -load)نہ ہو، اس کے سبب مردوزن کے ساتھ ساتھ بچوں، معذوروں، طلباء اور بزرگوں کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ ہم اور آپ ہر پسنجر گاڑی میں جلّی حروف میں یہ لکھا بھی پڑھتے ہیں: ’’ڈرائیور کے پیچھے پہلی 9سیٹیں صرف عورتوں اور معذوروںکے لئے مخصوص ہیں‘‘ مگر اس ہدایت کو اکثر وبیش تر نظر انداز کیا جاتا ہے ۔یہ اچھا اور مثبت قدم ٹریفک نظام کی طرف سے منظور شدہ ضابطہ ہے لیکن اس پر نہ ہی کہیں عمل درآمد ہوتا ہے اور نہ ہی اس جانب مذکورہ محکمہ کوئی توجہ دیتا ہے ۔ بنا بریں مسافرگاڑی میں بنت ِ حوا کے لئے مخصوص سیٹوں پر پہلے سے ہی صحیح سالم مرد قابض ہوتے ہیں۔ بیچ بیچ میں عورتیں گاڑی میں چڑھ بھی جائیں لیکن بے غیرتی کی انتہا ء دیکھئے کہ یہ بھلے چنگے حضرات جو خواتین کے واسطے ریزرو سیٹیوں پر پہلے ہی بیٹھے ہوتے ہیں، ٹس سے مس نہیں ہوتے اور اورلوڈلنگ میں دھکے کھاتیں خواتین اور دوشیزاؤں کے لئے سیٹیں خالی نہیں کر تے۔محکمہ ٹریفک نے بلاشبہ یہ قاعدہ قانون تو بنایا لیکن آج تک اس کا عملی نفاذ کرانے میں محکمانہ کارروائی کا نام ونشان نہ دیکھا گیا۔ اس میں بھی دورائے نہیں کہ طاقت یا قانون کے زور سے ایسے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ان کا حل انسانی ذہن ، سوچ اور ضمیر واخلاق میں مضمر ہوتا ہے۔ انسان جس قدر صاف و پاک ذہنیت کا مالک ہو گا، اسی قدر اس سے پاک وحسین اعمال و حرکات کا صدور ہو گا، اگر انسان با غیرت ہے تو گاڑی میں ان سیٹوں پر بیٹھ کر وہ غیرت سے منہ نہیں موڑ سکتا۔ البتہ بے غیرت انسان سے اس طرح کی اچھائی کی توقع رکھنا لاحاصل ہے۔ اس بارے میںقوم کی مجموعی صورت حال اگرچہ مایوس کن ہے لیکن ہمارے درمیان ایک بہت بڑا حصہ ایسے باشعور وغیور لوگوں کا بھی پایا جاتا ہے جن میں غیرت کا مادہ بد رجہ ٔ اتم موجود ہے۔ ان لوگوں کا فریضہ ہے کہ وہ غیرت کے انمول سرمایے کو اپنے تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ اس کو عام کرنے کے لیے آگے آئیں تا کہ بے غیرتی اور بے حمیتی کا خاتمہ ہو۔ انہیں اپنی اپنی سطح پر اور اپنے دائرہ اثر میں انسانیت کے اس اہم سبق کا عملی نمونہ بننا چاہیے اور باغیرت اور بے غیرت ہونے کے بالترتیب فوائد و نقصانات کو بڑے ہی دانش مندانہ انداز میں اُجاگر کر نا چاہیے۔یاد رکھئے بے غیرتی اور بے حمیتی قوموں کی ایک ایسی قابل علاج بیماری ہے جس کا وقت پر تدارک نہ کرنے کا نتیجہ سماج اور تہذیب وشرافت کی مکمل تباہی ہوا کرتی ہے۔