جموں کشمیر میں قریب تین سال گٹھ بندھن سرکار میں رہنے کے بعد بی جے پی نے اچانک حکومت سے حمایت واپس لینے کا اعلان کیا، جس کے بعد محبوبہ مفتی کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا اور صدر جمہوریہ ہند کی منظوری ملتے ہی جموں کشمیر میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ بی جے پی کے اِس یک لخت فیصلہ پر تعجب نہیں ہوا کیونکہ پی ڈی پی اور بی جے پی اتحاد والی حکومت جب سے بنی ہے تب سےدونوں جماعتوں کے لیڈروں میں ٹکراؤ ہی دیکھنے کو ملتا رہا ہے۔ محبوبہ مفتی کا وزارت داخلہ کی طرف سے جموں کشمیر میں نافذ العمل افسپا (AFSPA) اور دیگر کالے قوانین کو ہٹانے کی مانگ کرنا، پی ڈی پی کا حریت پسند لوگوں سے بات چیت کا وعدہ کرنا اور جی ایس ٹی کے نفاذ پر بھی یہ ٹکراؤ صاف نظر آ تا رہا۔ اُس پر غضب یہ کہ پولیس، فورسز اور فوج ریاستی حکومت کے ذریعے نہیں بلکہ مرکز کے ذریعہ کنٹرول کی جاتی رہی ہیں۔ یہی تضاد بی جے پی اور پی ڈی پی کی علاحدگی کی بنیادی وجہ قرار دی جاسکتی ہے۔سیاسی مبصرین کے مطابق مرکز کی جانب سے ماہ رمضان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فورسز کارروائی روکنے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا محبوبہ مفتی اس فیصلہ کو عید بعد بھی جاری رکھنا چاہتی تھیں، لیکن ان کی کابینہ میں بی جے پی کے وزراء اور خود مرکزی حکومت اس پر راضی نہیں تھی۔ اگرچہ محبوبہ مفتی سیز فائر میں توسیع دینا چاہتی تھیں تاہم مرکز نے امرناتھ یاترا پر سیکورٹی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے سخت آوپریشن کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس بات کو لے کر کہیں نہ کہیں محبوبہ مفتی ناراض تھیںاور ان کی ناراضگی بے جا نہیں تھی۔ مرکز میں مودی حکومت کے بر سراقتدار آنے کے بعد سے ہی پاکستان اور کشمیر کو لے کر ایک ڈھلمل پالیسی کی وجہ سے کشمیر کے حالات بد سے بدتر ہوتے ہوتے آخرکار اب بے قابو ہو چکے ہیں۔ جسے آئندہ انتخابات میں جموں کشمیر کے عوام ہی بہتر بنا سکتے ہیں۔آپ دیکھئےکہ بی جے پی کی نظر صرف اور صرف کشمیر کے ہندی بیلٹ میں ووٹوں پر زندہ رہتی ہے اور وہ اپنے سخت گیر ہندوتواوادی ووٹوں کیلئے ان دونوں محاذوں پر قومی مفاد کے بجائے اپنے نظریہ اور پارٹی کے حساب سے کام کر رہی ہے، جس میں عسکریت سے جنگ کے نام پر گولی کا جواب گولی سے دینے کی شدید پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ جب کبھی جموں کشمیر میں تشدد کے واقعات بڑھتے ہیں تو مرکزی حکومت سیاسی عمل شروع کرنے کی بات کرتی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ پھر یہ مہم آج تک ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکی؟بی جے پی نے وقت سے پہلے مخلوط حکومت گر کر اخلاقی طور پر بزدلی اور سیاسی موقع پرستی کا ثبوت دیا ہے جب کہ محبوبہ مفتی نے شروع دن سے ہی مذاکرات کی حمایت کی اوروہ مفاہمت اور بات چیت کی پالیسی پر یقین رکھتی تھیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کو بَروئے کار لاتے ہوئے محبوبہ مفتی پُروقار طریقے سے از خود بی جے پی کی حمایت یافتہ حکومت سے علاحدگی اختیار کرتیں مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو ا۔بہرحال بی جے پی کا کہنا ہے کہ ریاست میں بڑھتی شدت پسندی اور امن وقانون کی بگڑتی صورت حال کی وجہ سے حکومتی اتحاد’ ’غیرمستحکم‘ ‘ہوگیا تھا اور ہمارا حکومت میں بنے رہنا مشکل بن گیا تھا، اسی لئے یہ فیصلہ کیا گیا۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ اگر نوٹ بندی کی وجہ سے کشمیر میںشدت پسندی ختم ہو گئی تھی تو اتحاد توڑنے کی نوبت ہی کیوں آئی؟ دراصل، بی جے پی اقتدار میں رہنے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔