اعداد و شمار کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں کم عمری کی شادی کا تناسب 29فی صد ، پنجاب 20فی صد، بلوچستان 22فی صد اور سندھ میں سب سے زیادہ یعنی 33فی صد تک ہے، یہاں تک کہ کم عمر لڑکیوں کی شادی عمر رسیدہ مردوں کے ساتھ ہونا بھی عام ہے۔کم سِنی کی شادی کے خلاف قوانین پاس ہونے کے باوجود عملی طور پر عورت کی حالت نہیں بدل پائی، وہ آج بھی انصاف کی منتظر ہے۔ برطانوی حکومت اپنے ملک میں موجود جنوبی ایشیائی تارکینِ وطن میں کم عمری کی شادی روکنے کے لیے قانون سازی پر غور کررہی ہے، جب کہ پاکستان میں اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کو پہلے ہی غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے، تاہم اس پر عمل درآمد ایک بڑا سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔ چھوٹی بچیوں کی شادیاں پاکستان کے دیہی علاقوں میں ایک روایت بنتی جا رہی ہے۔ خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی نجی تنظیم وائٹ ربن کمپئن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کا کہنا تھاکہ اسمبلیوں اور سینیٹ میں موجود سیکڑوں خواتین ارکان کی طرف سےعام عورت کو حقوق کی فراہمی اوراُن حالت زار سنوارنے کی جدوجہد کے بلند بانگ دعووں کے باوجود، آج بھی پاکستان کی لاکھوں لڑکیوں کی شادیاں کم عمری میں ہو جاتی ہیں، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ گڑیوں سے کھیلنے کی عمر میں بیاہی جانے والی بچیاں 15 سے 18 سال کی عمر میں ماں بن جاتی ہیں۔ وہ اپنی تعلیم مکمل بھی نہیں کر پاتیں اور ان کے ہاں کم وزن بیمار بچے بھی پیدا ہوتے ہیں، جو پہلی سالگرہ سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ کم عمری کی شادیاں زچگی کے دوران اموات کی بڑی وجہ ہیں۔ نیز کم عمر مائیں لاتعداد سماجی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔چند سال قبل ایک امریکی اخبار میں "Early Marriage Child Spouses" کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی‘جس میں کہاگیاتھا کہ‘بچوں کی شادی کا زیادہ تر رواج بھارت‘ بنگلا دیش‘افریقا میں ہے۔ان ممالک کے جن علاقوں میں بچپن میں شادی عام ہے،اس کی بڑی وجہ غربت ہے‘ والدین اخراجات کم کرنے کے لیےکم سن بچیوںکو بیاہ دیتے ہیں‘کئی جگہ تو لڑکی کو پتھر کی مانند بوجھ سمجھا جاتاہے۔رپورٹ کے مطابق شادی کے بعد کم سن دلہنوں سے وہ کام کروائے جاتے ہیں جو ایک اوسط عمر کا شخص بھی نہیں کرسکتا۔ مثلاً ان سے جانوروں کے چارے کا انتظام سنبھالنے کو کہاجاتا ہے۔دیہی علاقوں میں گھروں کی صفائی ستھرائی سے لے کر کھیتوں تک میں کام لیاجاتا ہے۔یونی سیف کی ایک اور رپورٹ کے مطابق‘ دنیا میں سالانہ 15 سے 19 برس کی مائوں کی تعداد 15 ملین ہے‘ جب کہ ناقص طبی سہولتیں کے باعث بیش تربچیاں زچگی کے دوران مرجاتی ہیں۔ایک مغربی ادیب نے آنسوؤں کو نجات کا راستہ قرار دیا تھا، مگر رسم و رواج میں جکڑی بچیاں برسوں سے رو رہی ہیں، مگر تا حال انہیں نجات نہیں مل پائی۔ عرصۂ دراز سے نسل در نسل یہ سلسلہ چل رہا ہے، جو قوانین کے نفاذ کے باوجود بھی ختم نہیں ہو سکا۔ آخر ہوگا کیا؟
کم عمری کی شادی کے خلاف آگاہی :
گزشتہ سال اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین نے کم عمری کی شادی کے خلاف ایک انوکھا طریقہ اپنایا۔عروسی ملبوسات کا فیشن شومنعقد کیا گیا،جس میں ایک کم عمر بچی کو بطور ماڈل پیش کیا گیا جس نے آرائشی کام سے لیس اسکول یونیفارم زیب تن کیا ہوا تھا۔ بچی نے دلہن کی طرح میک اپ اور زیورات پہنے ہوئے تھے۔آگاہی کی اس مہم کے لیے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ برائیڈل یونیفارم کا استعمال کیا گیا اور معروف شخصیات نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین کی جانب سے بنائی گئی پٹیشن پر دستخط بھی کیے۔اسکول یونی فارم میں ملبوس کم سن دلہن کو فیشن شو میں پیش کرنے کا مقصدوالدین میں شعور اُجاگر کرنا ہے۔
دنیا کی پہلی کم عمر خلع یافتہ یمنی بچی:
یمن کی 9سالہ نجود علی کے مقدمہ جیتنے کے بعد دنیا بھر میں ہلچل مچ گئی۔ نجود کی بہادری سے متاثر ہوکر فرانس کے پبلیشر، مائیکل لافون نے کتاب شائع کی، جس کا عنوان ہے۔ ’’میں نجود علی، عمر دس سال، خلع یافتہ‘‘ اس کتاب کے اب تک 16زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں، جب کہ 35ممالک میںلاکھوں فروخت ہوئیں۔مائیکل نے کتاب کی اشاعت کے ساتھ اعلان کیا کہ جب تک نجود 18سال کی نہیں ہوجاتی، وہ ہر ماہ اسے ایک ہزار ڈالر دے گااور اس کے تمام تعلیمی اخراجات اٹھائے گا۔ اخباری خبروں کے مطابق مائیکل نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں نجود کو ایک گھر بھی تحفے میں دیا ہے۔نجود علی کی شادی 9 سال کی عمر میں ہوئی اور اسی عمر میں اس نے خلع لے لیا۔
بھارت اور بنگلہ دیش کم سن دلہنوں میں سرفہرست:
نیشنل کمیشن فارویمن (بھارت) کی چیئرپرسن سالہ موہانی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت میں چائلڈ میرج ایکٹ 1978 کے تحت18 برس سے عمر لڑکی اور 21برس سے کم عمر لڑکے کی شادی نہیں ہوسکتی لیکن راجستھان، مدھیا پردیش، اتر پردیش، بہار اور مغربی بنگال میںکم عمر بچیوںکی شادی عام بات ہے۔ ان علاقوں کی آبادی بھارت کی آبادی کا تقریباً 40 فی صد ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک این جیو کیے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 6 کروڑ لڑکیوں کی شادیاں کم عمری میں کی جاتی ہیں، جب کہ صرف بھارت میں گزشتہ دو سال میں تقریباً 2 کروڑ 30لاکھ لڑکیوں کب شادیاں کردی گئیں،جو بھارت میں دنیا بھر میں کمر عمری میں ہونے والی شادیوں کا 40 فی صد بنتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق کم عمربچیوں کی شادی میں بھارت اور بنگلا دیش سرفہرست ہیں۔بنگلہ دیش جہاں غربت، بے روزگاری اوردیگر معاشرتی مسائل کی کمی نہیں، وہاں 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی بھی گوناگوں مسائل کا سبب بن رہا ہے۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے شعبۂ معاشرتی علوم کی ایک پروفیسر، مسعودہ راشد چوہدری نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا، خواتین میں معاشرتی تحفظ کی عدم موجودگی کا احساس، ناخواندگی اور مذہبی روایات دراصل کمسنی میں ہی لڑکیوں کو بیاہ دینے کی فرسودہ روایت کا سبب ہیں۔ 160 ملین کی آبادی پرمشتمل، اس مسلم معاشرے میں بچّیوں کو اکثر ان سے دوگنے عمر کے مردوں کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے۔ ماہرین معاشرتی امور کے خیال میں اس رجحان کے سبب معاشرتی ترقی کی رفتار بری طرح متاثر ہو ری ہے۔ یہ خواتین معاشرے کو بہت کچھ دے سکتی تھیں، تاہم اس کے لیے انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ضروری تھا۔ کم عمری میں بیاہ دی جانے والی لڑکیاں نہ تو تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، نہ ہی روزگار کی منڈی میں خاطر خواہ جگہ بنا پاتی ہیں۔ انہیں صحت کے مسائل کا بھی سامنا رہتا ہے، اکثر اپنے بچوں کی پرورش بھی مناسب انداز میں نہیں کر پاتیں۔‘‘ کمسن لڑکیوں کی شادی کے خلاف غیر سرکاری اداروں اور حکومتی مہم کے جاری رہنے کے باوجود حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔ ’’چائلڈ پری وینشن ایکٹ‘‘ میں نابالغ لڑکیوں کی شادی کرنے والے والدین کے لیے ایک ماہ کی قید کی سزا کا قانون ہے، تاہم اس کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس امر کی تصدیق بنگلا دیش کی، ویمنز لائیر ایسوسی ایشن کی ڈائریکٹر نے بھی کی ہے۔ بنگلا دیش میں لڑکیوں کو ایک بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔ خاندان والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ لڑکی کو کسی صاحب ِثروت مرد کے حوالے کردیا جائے، تاکہ ان پر معاشی بوجھ کم ہوسکے، تاہم کچھ لڑکیاں بیوی بننے کے بعد اپنی زندگی کےمعیار کو بہتر بنانے میں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں۔
ہر تین سیکنڈ بعد ایک کم سن دلہن:
دنیا بھر میں ہر تین سیکنڈ بعد اٹھارہ برس سے کم عمر لڑکی کی شادی ہوتی ہے۔ تقریباً ایک سال میں ایک کروڑ سے زیادہ کم عمر بچیوں کی شادیاں کردی جاتی ہیں، جو زیادہ تر افریقہ، مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ 2014ء کے مطابق، اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی کی شادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جب کہ انٹرنیشنل سینٹر فار ریسرچ آن وومن کے مطابق، دنیا بھر میں سالانہ پانچ کروڑ بچیوں کی شادی کردی جاتی ہیںاور یہ تعداد آئندہ دہائی تک دس کروڑ سے تجاوز ہونے کا امکان ہے۔ نائیجریا، چاڈ اور مالی میں ستر فی صد بچیوں، جب کہ بنگلا دیش، گنی، وسطی افریقی جمہوریہ، موزمبیق، برکینا فاسو اور نیپال میں پچاس فی صد بچیوں کی شادیاں اٹھارہ سال سے کم عمر میں ہوجاتی ہیں۔ ایتھوپیا، ملاوائی، مڈغاسکر، سیر الیون، کیمرون، اریٹیریا، یوگنڈا، بھارت، نکارا گوا،زیمبیا اورتنزانیہ میں یہ شرح چالیس فی صد ہے۔ بچوں کے حقوق برائے اقوام متحدہ کے کنونشن میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچیوں کی شادی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، ۔ اقوام متحدہ کے ملینیم ترقیاتی مقاصد، جنہیں دو ہزارپندرہ تک حاصل کرنا تھا، ان میں کُل چھ کا براہِ راست تعلق چائلڈ میرج سے تھا لیکن وقت گزر گیا،کوئی کچھ نہ کرسکا۔
ایران نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے تیار کردہ اس قرار داد پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے، جس میں 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کی مخالفت کی گئی ہے۔ ایرانی اخبار ’’اعتماد‘‘ کے مطابق 21 نومبر 2014ء کو انسانی حقوق کمیٹی میں متذکرہ قانون پر رائے شماری کرائی گئی تھی، جس کی ایران نے مخالفت کی تھی۔ بعض ممالک کی سفارش پر اس قرارداد میں ایک اضافی شق بھی شامل کرائی گئی، جس میں بچیوں کی تعلیم و تربیت پر بھی زور دیا گیا ۔ ایرانی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کی جوڈیشل کمیٹی کے رکن محمد علی اسفنانی نے ایک اخباری بیان میں کہا تھاکہ ان کا ملک کم عمری کی شادی سے متعلق اقوام متحدہ کی کسی قرارداد کی حمایت نہیں کرے گا۔ اٹھارہ سال سے کم عمری کی شادی کے امتناع کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ نیز قرارداد میں بہت سی پیچیدگیاں بھی ہیں۔ کیا اٹھارہ سال سے کم عمر کے نوجوانوں کو شادی کا حق نہیں دیا جاسکتا؟ اگر اس عمر تک شادی کی حد مقرر کی جائے گی تو معاشرے میں برائیوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ ہمیں ایسی کسی قرارداد کے نتائج اور مضمرات کو سامنے رکھنا چاہیے۔ ایران میں کوئی سترہ سال کی عمر میں شادی کرنا چاہے تو ہم اسے کیسے روک سکتے ہیں۔
ہوش رُبا اعداد و شمار:
اقوام متحدہ کے ادارے برائے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کی رپورٹ کے مطابق سالانہ ایک کروڑ 42 لاکھ کم سن بچیاں شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں۔جنوبی ایشیائی ممالک کی آدھی اورافریقا کی ایک تہائی بچیوں کی شادی 18 سال کی عمرتک کردی جاتی ہے۔رپورٹ کے مطابق کم سن لڑکیوں کی شادیاں سب سے زیادہ براعظم افریقا کے ملک نائیجیریا میں ہوتی ہیں۔چاڈ اور سینٹرل افریقین ری پبلک میں یہ شرح 68 فی صد ہے‘جب کہ بنگلا دیش میں 66 فی صد‘ گوئیٹسا میں 63 فی صد‘ موزمبیق میں 56 فی صد‘ مالی 55 فی صد‘ جنوبی سوڈان 52 فی صد اور ملادی میں 50 فی صد کم عمری میں بیاہ دی جاتی ہیں۔ آبادی کو مدنظر رکھاجائے تو بھارت میں سب سے زیادہ کم عمری کی شادیاں ہوتی ہیں انٹرنیشنل سینٹر فار ریسرچ آن ویمن کے اعداد وشمار کے مطابق بنگلا دیش‘ مالی‘ موزمبیق اور نائیجیریا میں نصف سے زائد بچیوں کی شادیاں کم سنی میں کردی جاتی ہیں‘ جس کی بنیادی وجہ غربت بتائی جاتی ہے۔
’’اکھاتیج تہوار‘‘ پر کم سن بچیوں کی شادیاں:
راجستھان جو بھارت کا ایک خوبصورت صوبہ ہے،جس کی گنگا جمنی تہذیب پوری دنیا مین مشہور ہے۔جہا ں کا رنگ برنگا کلچر پوری دنیا کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے،اسی راجستھان میں ہر سال 30 اپریل کو ایک تہوار منایا جاتا ہےجسے’’اکھاتیج تہوار‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ راجستھان کا مشہور قدیم تہوار ہے، جس کا اعلان ہر سال مقامی ہندو جوتشی کرتاہے۔تہوار کے دن لوگ اپنے اپنے علاقوں کے داخلی راستوں کو گاڑیاں کھڑی کرکے بند کردیتے ہیں اور پہلے سے مقرر پنڈال میں جمع ہوجاتے ہیں‘جہاں کم سن بچوں کی مشترکہ شادیاں ہوتی ہیں۔یہ تہوار جوش وخروش سے ایک واقعہ کی یاد میں منایا جاتاہے۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ سالوں قبل ایک بیرونی حملہ آور نے ایک ہندو لڑکی سے زیادتی کی تھی۔کہاجاتا ہے کہ بیرونی حملہ آور کنواری لڑکیوں کو زبردستی اٹھاکرلے جاتے تھے‘ سو علاقے کے لوگوں نے اس کا حل یہ سوچا کہ کم سنی میں بچیوں کی شادی کردی جائے۔گزشتہ سال راجستھان کے ایک شہری، ’’شری رام‘‘ نے اپنی چارسالہ بیٹی کی شادی اکھائیج تہوار پر کی۔اس کے داماد کی عمر سات سال ہے۔شری رام کی سات بیٹیاں ہیں۔چھوٹی بیٹی کی عمر اٹھارہ ماہ اور بڑی بیٹی 14 سال کی ہے۔چھوٹی بیٹی کے سوا سب بچیوں کی اس نے اکھاتیج تہوار پر ہی شادی کی۔اب 18 ماہ کی بیٹی کا رشتہ تلاش کررہاہے۔شری رام کی خواہش ہے کہ اگلے سال چھوٹی بیٹی کارشتہ بھی طے کردیاجائے۔یہ صرف ’’شری رام‘‘ کی کہانی نہیں ہے‘ ہرسال ہی اکھاتیج تہوار پر ہزاروں کم سن بچیاں دلہن بنتی ہیں۔
’’کرمانروانا‘‘ (Karma Nirvana) گروپ:
بھارت کی جسوندر سنگھیڑا نے برطانیہ میں 1993ء میں ’’کرمانروانا‘‘ گروپ بنایا۔اس گروپ کا مقصد یہ ہے کہ والدین اپنی کم سنی بچیوں کی جبراً شادیاں نہ کریں۔یہ گروپ مظلوم لڑکیوں کی ہرقسم کی مدد کرتاہے۔گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ہرسال ہزاروں لڑکیاں اچانک اسکول کی تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔والدین انہیں زبردستی اپنے ملک لے جاکر شادی کردیتے ہیں اور انہیں شوہر کے حوالے کرکے خود واپس برطانیہ آجاتے ہیں۔’’کرمانروانا‘‘ کے تحت ایک ہیلپ لائن قائم ہے‘ جہاں کم سن بچیاں کسی بھی وقت فون کرکے اپنی شکایات درج کراسکتی ہیں۔ابھی تک اس گروپ میں بھارتی لڑکیاں شامل ہیں‘جو اپنی ہم وطن ان بچیوں کی بھرپور مدد کرتی ہیں‘ جن کے والدین کم سنی میں ان کی جبری شادی کردیتے ہیں۔بھارت میں جو کچھ ہورہاہے‘اس کے اثرات مغرب میں مقیم بھارتی خاندانوں پر مرتب ہورہے ہیں۔کچھ کم سن بچیاں بغاوت کررہی ہیں جب کہ بیش تر والدین کی خواہش تو پوری کردیتی ہیں لیکن شوہر کے ظلم و ستم سے تنگ آکر خود کو ختم کرلیتی ہیں۔آج کل جسوندر برطانیہ میں کم سن بچیوں کی جبری شادی کے خلاف ایک ایکٹ منظور کرانے کی مہم چلارہی ہے‘جس کے تحت والدین سے بچوں کے پاسپورٹ اپنے پاس رکھنے کا حق واپس لیے جانے کا مطالبہ ہے۔برطانوی اخبار آبزرور کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ بیش تر ایشیائی خاندان اپنا ملک چھوڑ کر برطانیہ تو آجاتے ہیں لیکن اپنی بچیوں کی شادیاں اپنے دیس میں کرناچاہتے ہیں‘اس کے لیے وہ لڑکی کے جوان ہونے کا بھی انتظار نہیں کرتے۔جسوندر کی مہم نے لڑکیوں میں شعور بے دار کردیا ہے۔اس نے کم سنی اور جبری شادیوں کے حوالے سے تین ناول بھی لکھے ہیں، جو شیم‘(Shame) ڈاٹرآف شیم‘ (Daughter of Shame) اور شیم ٹریول‘ (Shame Travel) کے نام سے شائع ہوئے۔تینوں ناول میں کم سنی اور جبراً شادیوں کے حوالے سے ہیں۔ان ناولوں نے ’’کرمانروانا‘‘ کا کام پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان میں متعلقہ قوانین :
پاکستان میں بچیوں کی شادیوں کے خلاف قوانین کےنفاذ کا مسئلہ ان کا مختلف ہونا ہے۔ پہلا قانون چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 برطانوی انتظامیہ نے متعارف کروایا تھا۔ اس میں لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر 14 سال اور لڑکوں کے لیے 18 سال رکھی گئی تھی۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا تھا۔ مسلم عائلی قوانین آرڈیننس 1961 میں لڑکیوں کے لیے یہ عمر بڑھا کر 16 سال کر دی گئی۔ دوسرا قانون تب تک عمل میں رہا جب تک وفاقی حکومت نے 2010 میں 18ویں ترمیم منظور نہیں کر دی، جس کے بعد بچیوں کی شادی ایک صوبائی مسئلہ بن گئی۔اپریل 2014ء کو سندھ اسمبلی نے کم سنی کی شادی پر پابندی کا بل اتفاق رائے سے منظور کیا۔بل کی منظوری کے بعد سندھ میں (Child Marriage Restraint Act 1929) منسوخ کردیاگیا۔نئے بل کے تحت شادی کی عمر 18 سال تجویز کی گئی ہے۔خلاف ورزی پر جرمانے اور قید کی مدت بڑھادی گئی۔پرانے قانون میں خلاف ورزی پر تین ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا تھی‘ جب کہ نئے قانون کے تحت تین سال تک قید اور 45 ہزار روپے جرمانہ ہے‘خلاف ورزی ناقابل ضمانت جرم ہوگا۔ایسی شادی کے خلاف کوئی بھی شخص فرسٹ کلاس جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں شکایت دائر کرسکتاہے۔اس طرح کے مقدمات میں عدالت کو سماعت اور کارروائی کرکے 90 روز کے اندر اندر فیصلہ دینے کا اختیار ہوگا۔واضح رہے کہ یہ بل 2013ء میں سندھ کی ثقافتی وزیر‘ شرمیلافاروقی اور سماجی بہبود‘ ترقی نسواں کی وزیر‘ روبینہ قائم خانی نے پیش کیاتھا۔پنجاب نے 2015 میں قانون نافذ کیا جس میں عمروں کی حدود 1961 کے آرڈیننس والی رکھی گئیں۔ یہ قانون پولیس کو بچوں کی شادی روکنے اور مقدمہ درج کرنے کا اختیار تو دیتا ہے، مگر خود سے گرفتار نہیں کرنے دیتا۔خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اب بھی 1929 والا قانون رائج ہے جو کہ پولیس کو مقدمہ درج کرنے تک کا بھی اختیار نہیں دیتا۔ ان میں سے کسی بھی قانون میں ایسی شادی کے فسخ کرنے کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔
(ختم شد)