نواب بازار کے اس اجتماع میں جب خرقہ صاحب نے چرار شریف کی رپورٹ پڑھ کر سنائی تو سب چھوٹے بڑے رفیق خوشی سے جھوم اٹھے کہ چرار شریف میں بھی جماعت کے کام کا آغاز ہو گیا ہے۔ دو دنوں تک اجتماع تھا۔ اجتماع کیا تھا؟ اسلامی کردار اور تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھا۔ سب کے سب بلکہ ایک سے بڑھ کر ایک دوسرے کے غم گسار، ہمدرد، مددگار، اور اپنے پر دوسروں کو ترجیح دینے والے تھے، لگتا تھا کہ اسلامی تہذیب کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ سید علی گیلانی صاحب کو اس زمانہ میں کشمیر کا چھوٹا مودودی کہا جاتا تھا۔ انہوںنے گائو کدل کی سڑک کنارے خطاب عام فرمایا۔ لوگ وہاں سے گزرتے گزرتے رُک جاتے اور خطاب سن کر آگے بڑھتے تھے۔ چنانچہ خطاب انہوں نے اردو میں کیا۔ ۱۹۳۱ سے۱۹۶۴ء تک تحریک حریت کشمیر کو تفصیل سے بیان کیا۔ اس مجلس میں ڈائس پر محاذ رائے شماری کی مشہور شخصیت غلام رسول کوچک بھی موجود تھا۔ خطاب کے اختتام پر موصوف اُٹھے اور بے ساختہ سید علی گیلانی کے ماتھے کو چوما۔ اجتماع کے بعد واپس گھر آیا اور خرقہ صاحب نے دوستوں سے مل جل کر ۱۹۶۴ء میں ’’دارالخلافہ ‘‘کے نام پر چرار شریف میں ایک لائبیریری کا قیام عمل میں لایا اور اس کے ذریعہ تحریکی کام کو آگے بڑھایا ۔
اس کے لیے مرحوم خرقہ صاحب نے اپنی ذاتی لائبریری کی ساری کتابیں اسی دار المطالعہ میں وقف کر دیں۔ ۱۹۶۶ء میں انہیں جماعت اسلامی میں باضابطہ رکنیت کا اعزا زحاصل ہوا۔ ۱۹۶۶ ء تا ۱۹۷۰ ء وہ امیر حلقہ چرار شریف (اس وقت تک صرف چرار شریف میں ہی جماعت کا حلقہ تھا) ۱۹۷۱ ء تا ۱۹۷۵ ء تک امیر تحصیل چاڈورہ کام کیا اور تحصیل میں حلقے قائم کئے۔ ۱۹۷۵ میں جب جماعت اسلامی جموںوکشمیر پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اسی دوران غلام محمد خرقہ نے سید مودودیؒ کو ذاتی اصلاح کے حوالے سے ایک خط ارسال کیا ، ایک ماہ کے بعد وہاں سے جوابی خط ملاجس میں بے حدشفقت اور رفاقت سے سید مودودیؒ نے خرقہ صاحب کی دل جوئی کی تھی۔ ۱۹۷۶ ء سے چرار شریف میں ہی تحریک اسلامی کا کام کیا۔ ۱۹۹۵ ء سے ستمبر ۱۹۹۹ء تک ناسازگار حالات کی وجہ سے سرینگر میں مہاجرت کی زندگی بسر کی۔ ۲۶ ؍ اپریل ۲۰۰۰ ء سے مئی ۲۰۰۵ء تک بحیثیت امیر ضلع بڈگام کام کیا ۔ جماعت اسلامی کی ضلعی شوریٰ کا ممبر ۲۰ سال تک جب کہ مرکزی شوریٰ کا ممبر ۱۲ سال تک رہے۔
پہلی بار 11؍فروری ۱۹۸۵ ء کو مقبول بٹ کے یوم ارتحال پر ناکردہ گناہوں کے جرم میں گرفتار ہوکر سنٹرل جیل سرینگر بھیج دئے گئے۔ پانچ دنوںکے بعد رہا کئے گئے، دوبارہ مئی ۱۹۹۱ ء میں آرمی کریک ڈائون میںپکڑے گئے اور ۲۳؍ دنوں تک بادامی باغ آرمی جیل میں ایک کال کوٹھری میں پابند سلاسل تھے۔ سخت ترین انٹراگیشن سے گزار کر جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو بے قصور قرار دے کر رہا کر دئے گئے۔
۴؍ اپریل ۱۹۸۴ ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر پہلے مرحوم خرقہ صاحب کے دو دکانات لوٹ لئے گئے اور کم از کم اس وقت کی قیمت کے مطابق دوکانوں میںڈیڑھ لاکھ روپے کا سودا سلف موجود تھا، پھر آگے ۵؍اپریل کو گھر کا اثاثہ لوٹ لیا گیا۔ تیسرے دن ۶؍اپریل کو مکان کے دروازوں اور کھڑکیوں اور الماریوں کو توڑ کر آگ میںجلا دیا گیا۔ پور ے مکان کو اس لیے نہیں جلا یا گیا تھا تا کہ ہمسایوں کے مکان نذر آ تش نہ ہو جائیں۔ اس دوران خرقہ صاحب کو مارنے کے لیے ڈھونڈ ا جا رہا تھا مگر اللہ نے اپنے فضل وکرم سے انہیں ان کے شر سے محفوظ رکھا کیوں کہ لوگ صرف ان کے خون کے پیاسے تھے جب کہ ان کے تمام رفقاء کو پکڑ لیاگیا تھا، ان کی داڑھیاں منڈوائی گئیں اور مار پیٹیںکی گئیں۔ خرقہ صاحب کے چھوٹے سالے کی منگنی ایک جگہ طے ہو گئی تھی۔ لوگوں نے لڑکی والوں سے وارننگ دی کہ تم مودودی ؒ نواز تو ہو نہیں، لہٰذا اگر بچنا چاہتے ہو تو رشتہ توڑ دو۔ انہوں نے انکار کیا تو اس کے تانبے کے ایک بڑے دکان کو لوٹ لیا گیا اور ان کو گھر سے مارتے پیٹتے باہر نکال لیا گیا اور سزا کے طور پر ان کی داڑھی کو بے درد ی سے کاٹ دیا گیا۔ تین دنوں کے بعد جب لوگوں کا طوفان بد تمیزی تھم گیا تو مرحوم خرقہ صاحب چرار شریف سے سرینگر آئے اور یہاں ساڑھے تین ماہ تک مہاجرت کی ندگی گزاری۔ چرار شریف کا کھڈپنچ طبقہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ چرار شریف میں رہیں۔ وہ وقت کے فرعون حکومت سے اپیل کررہے تھے کہ اگر غلام محمد خرقہ دوبارہ یہاں بسنے کے لیے آئے گا تو زیارت کو اس کے ذریعہ نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ بہر حال مرحوم پھر کن حالات میں دوبارہ چارر شریف آگئے وہ ایک بڑی داستان ہے ،تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرحوم قاری سیف الدینؒ نے اس بارے میںان کی بڑھ چڑھ کر مدد فرمائی تھی۔
۱۹۷۵ ء میں جماعت پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ قیادت میں کوئی چھوٹاتھا یا بڑا ،سب جیل میں ٹھونس دئے گئے۔ تمام دفتر اور درسگاہوں پر تالے چڑھا دئے گئے ۔ عام رفقاء حراساں تھے۔ افرا تفری کا عالم تھا۔ اس دوران مرحوم سعد الدینؒ انڈر گرائونڈ رہے مگر کہیں چھپے نہ تھے بلکہ علاقہ علاقہ اور گائوں گائوں رفقاء سے جاملتے رہے اور ان کو تسلی دیتے رہے۔ خفیہ طور نظم کو بحال رکھا ،رفقاء کی ہمت افزائی کرتے رہے، ان کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے رکھا، مروت ومودت کے اوصاف سے رفقاء کے شخصی اوصاف سنوارتے رہے۔ یہی وجہ تھی جب جماعت پر سے پابندی اٹھا دی گئی تو ایک دن کے اندر ہی جماعت کا نظم ونسق ایسا تھا جیسا کہ پہلے سے موجود تھا۔ اس پر غیر تو غیر اپنے بھی حیران وششدر ہو گئے۔
مرحوم مولانا حکیم غلام نبی ؒ بھی اپنے دورِ امارت میں ایک سنگین ترین مشکل میں گھر گئے تھے۔ ۱۹۸۸ ء میں انہوں نے جماعت کی امارت سنبھالی تھی۔ ۱۹۸۹ ء میں ریاست جموں وکشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا۔ اس دوران ۱۹۹۰ ء میں جماعت پر پابندی عائد کی گئی۔ قیادت جیل میں ٹھونس دی گئی، اس کے بعد رفقاء جماعت سوچتے رہ گئے کہ کیا کریں کیا نہ کریں۔ خیر یہ سارا قصہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ یہاں پر بتانا مقصود یہ ہے کہ مرحوم حکیم صاحب چاہیے جیل میں تھے یا جیل سے باہر تھے۔ یہ انہیں کا دل گردہ تھا کہ جماعت کو ٹوٹنے نہ دیا۔ حالانکہ وہ جسمانی طور ناتواں ہو گئے تھے۔ انہوںنے دو بلائوں کے درمیان رہ کر اندرو باہر رفقاء کو سنبھالے رکھا۔ اس دور میںان کو کوہ ہمالیہ پہاڑ جیسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان سے نبردآزما ہو کر واپس نکلنا انہیں کا کام تھا۔ جو خدا نے ان سے لیا۔ رفقاء جماعت اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتے ہیں۔ مرحوم کی زبانی وہ دور ’’حرج مرج‘‘ کا دور تھا۔ اللہ پاک ان دونوں صاحبوں پر اپنی رحمت کا نزول فرما دے۔ بہر حال غلام محمد خرقہ نے مرحوم سعد الدین کا طویل زمانہ ٔ امارت دیکھا۔ پہلے پہل ارکان جماعت کی تعداد بہت ہی قلیل تھی اور وہ بھی نامساعد حالات کی بھٹی میں کندھن بن کر آرہے تھے، اور ان کے زمانہ میں سالانہ تنظیمی کل ریاستی ارکان جماعت کا اجتماع ہوا کرتا تھا جس میں امیر ومامور کا وہ نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا کہ آدمی یہ دیکھ کر دنگ رہتا کہ جماعتی نظم کے تحت اختلافی مسائل اور غیر اختلا فی کس بہترین پیرایہ میں اور خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کئے جاتے اور نبتائے جاتے اور امیر محترم کس ایمان افروز انداز میں سوالات کا جواب دیتے۔ یہ بھی ایک حساس وباشعور آدمی کو جماعت سے قریب سے قریب تر لانے میں مدد کرتا۔ مرحوم خرقہ صاحب دور اول اور دور حاضر کے حوالے سے جماعت اسلامی کے بارے میں اپنے تاثرات ان الفاظ میں خود ہی بیان کرتے ہیں :
’’دنیا میں یہ معمول رہا ہے کہ جب کوئی تحریک چاہے خدائی ہو یا خدا بے زاری کی ہو، ابتدائی دور اس کا شاندار ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا دستور ہے، اس میں دو رائے نہیں ہیں۔ اسی طرح تحریک اسلامی جموں وکشمیر کا دورِ اول ۱۹۴۵ ء تا ۱۹۶۸ ء تک ایک انقلابی اسلامی دور تھا۔ امیر ومامور تو تھے لیکن ہر ایک بذات خود مامور ہی تصور کرتا تھا۔ ہمہ وقت ارکان تھے مگر صرف رضائے الٰہی اور فکرِ آخرت کو پیش نظر رکھ کر جدوجہد میں لگے رہتے تھے۔ تنخواہیں نہیں تھیں، صرف کفاف تھا، وہ بھی کئی کئی مہینے کے بعد ملتا تھا۔ دستور جماعت میں رکنیت کا جو معیار مقرر کیاگیا تھا کما حقہٗ ہر ایک رکن جماعت اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوششوں میں لگا رہا تھا۔ رکنیت کا فارم پُر کرنے کے وقت ایک رکن پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی تھی ،ہر ایک رکن ہر وقت ذاتی احتساب میں لگارہتا تھا۔ وہ جان جانتا تھا کہ جماعت کس نصب العین کی طرف دعوت دیتی ہے اور داعی کس قسم کا ہونا چاہیے۔ اس کو معلوم تھا کہ مجھے ہر وقت لوگوںمیں اٹھنا بیٹھنا ہے، میری کوئی ایسی حرکت نہ ہونی چاہیے جس سے دعوت دین میں رُکاوٹ پید اہو جائے۔ اس زمانے میں ہر طرف بدنام زمانہ لفظ تحریک اسلامی کے سے جڑا ہوا تھا کہ اس کو سر کرنے کے لیے ایک ہی ذریعہ تھا۔ وہ تھا صبر اور کردار۔ وہ بدنام زمانہ لفظ ’’بد اعتقادی‘‘ کا تھا۔ علم کی پیاس اس وقت کیا تھی اور کیسی تھی؟ شائد آج کل وہ عجوبہ ہی لگے گا، عام ارکان تو پہلے سے معمولی علمیت بھی نہ رکھت تھے، الا ماشاء اللہ۔ جب وہ جماعت سے منسلک ہو جاتے تھے تو قرآن بھی سیکھ جاتے تھے اور حدیث بھی یاد کرتے تھے۔ تحریک اسلامی کا لٹریچر پڑھتے تھے اور بار بار پڑھتے تھے۔ مطالعہ کی پیاس بجھنے ہی نہیں دیتے تھے۔ راقم اپنے بارے میں ہی بتا دینا چاہتا ہے۔ جب سب سے پہلے براہ راست تفہیم القرآن کو پڑھا، تو ساتھ ساتھ لٹریچر کا مطالعہ بھی شروع کیا۔ راقم نے سید مودودیؒ کی ہر ایک تحریر پڑھی ہے اور بار بار پڑھی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علماء کے لٹریچر کو بھی پڑھا ہے۔آپ خو د اندازہ لگایئے کہ راقم ایک معمولی پڑھا لکھا آدمی تھا، مگر مطالعہ نے میری آنکھیں کھول دیں ،حالاں کہ ایک طرف ملازمت تھی، دوسری طرف اہل و عیال کی فکر تھی، تیسری جانب رہنے کے لیے مکان کی ضرورت تھی۔ یہ کام بھی چلتے تھے، مگر مطالعہ بھی دن رات جاری رہتا تھا۔ گاڑیوںمیں پڑھتا تھا، راتوں کو پڑھتا تھا، بیماری کی حالت میں پڑھتا تھا، فرصت کے اوقات میں پڑھتا تھا، اس سے بڑھ کر دوسرے ارکان کا حال تھا۔ بانیان تحریک اسلامی جموں وکشمیر تو پہلے سے ہی پڑھے لکھے تھے۔ ‘‘
مرحوم غلام محمد خرقہ صاحب ۱۹۷۹ ء میںملازمت کو خیر باد کرنے کے بعد رشتہ داروں اور دوسروں کی یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بن گئے کہ ’’کتنا بڑا بے وقوف ہے۔ کامیاب ملازمت چھوڑ کر دربدر ہوگیا ہے۔‘‘ اب حلقہ میں معمولی کفاف پر کام کرتا تھا۔ دوسرا واقعہ لوٹ مار کا واقعہ ہے جو ۴؍اپریل ۱۹۷۹ ء کو پیش آیا تھا۔ تقریباً چار مہینوں تک سرینگر میں مہاجر بن کے رہا ۔ ۱۹۹۰ء سے دور آشوب نے پکڑ لیا تھا۔ ۱۹۹۵ ء میں راشٹریہ رائفلز پیچھے پڑ گئی۔ اس دوران مرحوم سرینگر میں جابسااور ساڑھے چار سال تک مہاجرت کی زندگی بسر کی۔ اس دوران بچوں کو مارا پیٹا گیا، ان کو انٹراگیشن سنٹروں میں لیا گیا۔
جماعت سے وابستگی کے بعد مرحوم اپنے قصبہ میں مسلسل مخالف لوگوںکے زیرعتاب تھے۔ ہر سال کسی نہ کسی بہانہ سے عیدین کے دن ان پراوران کے ساتھیوں پر حملے کئے جاتے تھے مگر پھر بھی وہ تحریکی کام سے پیچھے نہیں ہٹے۔ جماعت کے موجودہ کام کے حوالے سے جب ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے مثبت طور پر جواب دیتے ہوئے کہا :
’’جماعت اسلامی جموں وکشمیر کا مستقبل تب تک خد اکے فضل وکرم سے محفوظ رہے گا جب تک اقامت دین کا کام ہوتا رہے گا، اور دستور جماعت کی پاسداری ہوتی رہے گی، اگرچہ انفرادی کمزوریاں کتنی ہی کیوں نہ ہوں۔ سید مودودیؒ نے جماعت اسلامی کی اٹھان ایسی پیدا کر رکھی ہے کہ جو اختلاف کرتا ہے، باہر نکلتا ہے اور جماعت اسلامی کو آج تک نہ کوئی نقصان پہنچاہے اور نہ انشاء اللہ آئندہ پہنچے گا۔ جماعت اسلامی اپنے نصب العین کی دامنِ رحمت میں پروان چڑھتی رہے گی۔ انشاء اللہ ۔‘‘
آخر کار ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۸ء بمطابق ۲۸؍ رجب المرجب ۱۴۳۹ھ بروز اتوار جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے یہ بزرگ رکن اور سابق امیر ضلع بڈگام غلام محمد بابا المعروف خرقہ صاحب اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے، انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
(ختم شد)