حکام کی طرف سے روزگار کی فراہمی میں فاسٹ ٹریک بنیادوں پر بھرتی کے دعوے توبہت کئے جاتے ہیں مگر صورتحال یہ ہے کہ کئی کئی برسوںسے لسٹیں منظر عام پر ہی نہیں آتیں، جس کی وجہ سے کئی امید وارملازمت حاصل کرنے کی عمر کی آخری حد پار کرکے شدید ذہنی پریشانی کا شکار بن جاتے ہیں جبکہ سرکاری کام کاج بھی بری طرح سے متاثر ہوتاہے۔حکام کی طرف سے بھرتی عمل میں غیر ضروری تاخیر کو تسلیم کرتے ہوئے بارہا اس بات کے دعوے کئے گئے کہ اس عمل میں تیزی لائی جارہی ہے تاہم ان کی دعوئوں کی حقیقت کچھ اور ہی ہے اورکہیں بھرتی کی فہرستیں عدالتوں میں لٹک رہی ہوتی ہیں تو کہیں امتحان سے لیکر انٹرویو تک کے عمل میں برسہابرس لگ جاتے ہیں ۔بھرتی ایجنسیوں سروسز سلیکشن بورڈ اور پبلک سروس کمیشن کی طرف سے برتی جارہی غفلت کی کئی مثالیں موجود ہیں جن کو ایک ایک امتحان لینے کیلئے کئی کئی سال بیت جاتے ہیں ۔ خواہ گزیٹیڈ اسامیاں ہوں یا نان گزیٹیڈ ،ہر ایک سطح پر بھرتی ایجنسیوں کی طرف سے ضرورت سے زیادہ وقت صرف کیاجاتاہے، جس کے نتیجہ میں امیدوار ذہنی اور مالی پریشانیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔اسی طرح سے دیگر محکمہ جات میں بھی یہ عمل تعطل کاشکار ہوتارہتاہے جس کی مثال فائرو ایمرجنسی محکمہ سے لی جاسکتی ہے جس کی طرف سے پانچ سال قبل اہلکاروں کی بھرتی کیلئے اسامیاںمشتہر کرواکے فارم بھروائے گئے اور امیدواروں کے مطا بق اس کے ایک سال بعد یعنی 2014میں ان کے انٹرویو بھی لئےگئے مگر آج تک انہیں اس سلسلے میں لسٹ کے جاری ہونے کا انتظار ہے، جس کے چکر میں کئی امیدوارملازمت کیلئے عمر کی آخری حد پار کرچکے ہیں اوراگر خدانخواستہ یہ لسٹ جاری نہ ہوئی یا ان کے نام اس میں شامل نہ ہوئے تو ان کا مستقبل تباہ ہوکر رہ جائے گا۔فائر و ایمرجنسی سروس کی طرح دیگر کئی محکمہ جات میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے یہ پتہ چلتاہے کہ ہماری ریاست میںبیروزگاری کی مار جھیل رہے اعلیٰ تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں جبکہ سرکاری محکمہ جات میں ہزاروں اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں جس کے نتیجہ میں ان محکمہ جات کا کام کاج بھی متاثر ہوتاہے ۔حکام کی طرف سے ان اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو یہ مشورے تو دیئے جاتے ہیں کہ وہ سرکاری ملازمت پر انحصار کم کرتے ہوئے نجی شعبے کی طرف ہاتھ بڑھائیں اور خود روزگارسکیموں سے جڑ کر اپنے مستقبل کو سنواریں ،جس کیلئے انہیں بنکوں سے سبسبڈی پر قرضے بھی فراہم کئے جاتے ہیں لیکن جس قدر مواقع موجود ہیں ان کو بھی بروئے کار نہیں لایاجارہا اور نوجوان طبقہ ظلم کی چکی میں پستاجارہاہے ۔ ہر سال یہ سننے میں آتاہے کہ محکمہ جات میں ہزاروں اسامیاں خالی ہیں جن کو فاسٹ ٹریک بنیادوں پر پُر کیاجارہاہے اور یہ بھی کہاگیاکہ حکومت اس عمل میں تیزی لانے کیلئے ریکروٹمنٹ رولز میں تبدیلی لارہی ہے تاہم صورتحال جوں کی توں ہے اور کے اے ایس جیسے مسابقتی امتحان سے لیکر درجہ چہارم تک کی اسامیوں کی بھرتیوں میں سالہاسال بیتتے جارہے ہیں ۔بھرتی کے عمل میں ایک پریشانی یہ بھی رہتی ہے کہ متعلقہ ایجنسیوں کی جانب سے جانے انجانے میں برتی جانے والی کوتاہیوں کے سبب نتائج عدالتوں میں چیلنج ہوجاتے ہیں اور پھر برسہا برس کی طوالت کے بعد اکثر ان نتائج کو کالعدم قرار دے کر امتحانات از سر نو منعقد کرنے کافیصلہ ہوتاہے ۔حالیہ برسوں میں متعدد فہرستوں کا ایسا ہی حال ہواہے اور کئی مرتبہ امتحانات یاتو دوبارہ لینے پڑ ے ہیں یاپھر انہیں منسوخ کرکے مقررہ مدت سے آگے بڑھادیاگیاہے ۔مجموعی طور پر اس پورے عمل میں ایسی غیر ضروری تاخیر برتی جارہی ہے جو بیروزگاری کی مار جھیل رہی ریاست جموں و کشمیر کیلئے انتہائی تشویشناک اور نوجوانوں کے مستقبل کیلئے تباہ کن ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھرتی عمل میں سرعت لاکر خالی پڑی تمام اسامیوں کوپُر کیاجائے اور کئی کئی برس سے التوا میں پڑی فہرستیں منظر عام پر لائی جائیں ۔امید کی جانی چاہئے کہ گورنر راج کے دوران اس عمل میں یقیناتیزی لائی جائے گی تاکہ بیروزگار نوجوانوں کوکچھ راحت مل سکے۔