بھارت میں خواتین کے ساتھ دست درازیوں کی بڑھتی ہوئی گھمبیر صورتحال پر سوشل میڈیامیں اظہار تاسف پر کشمیر کے ایک سرکردہ بیروکریٹ شاہ فیصل (آئی اے ایس ) پردلی کا تیکھا ردعمل حق بجانب ہے یا نہیں،اس سوال کا جواب 2010بیچ کے آئی اے ایس ٹاپر ڈاکٹرشاہ فیصل کاکہناہے کہ ماہانہ چند روپے کیلئے وہ اپنے ضمیر کا سودا کرسکتے ہیں اورنہ انہیں اپنی ملازمت کھونے پر کوئی ڈر نہیں ہے ۔ آئی اے ایس مسابقتی امتحان میں اول نمبر حاصل کرنے والے پہلے کشمیری نوجوان ڈاکٹرشاہ فیصل نے گذشتہ دنوں ٹویٹر پر بھارت کو’’ ریپستان‘‘ قراردیتے ہوئے ملک کی موجودہ مہیب صورت حال پراپنے دلی رنج وغم کااظہارکیاتھا۔اس پراُن کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آرڈرجاری ہوا۔اس پر اپنے ردِ عمل میں ڈاکٹر شاہ فیصل کاکہناتھاکہ انہوں نے جو کہا وہ بغیرکسی لومہ لائم اس پر قائم ہیں اورجس مقصد کے لئے وہ کھڑاہوئے،انہیں وہ مقصد ہر کام سے زیادہ عزیر ہے ۔یہ صرف ایک ملازمت ہے اور انہیںیقین ہے کہ وہ بے روزگار نہیں رہیں گے،اس عظیم دنیا میں ان کے روزگارکے وسیع امکانات ہیں ۔ خیال رہے کہ ڈاکٹرشاہ فیصل فی الوقت اسٹیڈی لیو پر ہارورڈ میںہیں۔ سال2009ء میں یونین پبلک سروس کمیشن (UPSC) کی جانب سے منعقد کئے جانے والے انڈین سول سروس (IAS) کے امتحان میںڈاکٹر شاہ فیصل ریاست جموں و کشمیر کے اولین نوجوان آئی اے ایس ٹاپر کا اعزاز حاصل کرگئے۔ڈاکٹرشاہ فیصل نے ثابت کیاتھاکہ کشمیرکے نوجوان ہرمیدان میں اپنالوہامنواسکنے کی بھرپورصلاحیت رکھتے ہیں اورکشمیرکے بیٹے ایسے ذہین وفطین، لائق و فائق اورباصلاحیت ہیں کہ امتیازی شان کے ساتھ کامیابی کے جھنڈے گاڑسکتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ فیصل ، سوگام ، ضلع کپواڑہ سے تعلق رکھتے ہیں ،ان کے والدغلام رسول شاہ مرحوم اور والدہ دونوں درس و تدریس کے پیشہ سے وابستہ رہے ہیں۔ڈاکٹرشاہ فیصل کے والد کو چند سال قبل نامعلوم بندوق برداروں نے قتل کردیا تھا۔کپواڑہ کے سرکاری اسکول سے دسویں جماعت پاس کرنے والے فیصل نے’’سکمزسری نگرسے 2008 میں ایم-بی-بی-ایس کامیاب کرتے ہوئے میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کیا تھا۔ آئی اے ایس کے اصل امتحان میں شاہ فیصل کے اختیاری مضامین میں پبلک ایڈمنسٹریشن اور اردو ادب شامل تھے۔واضح رہے کہ2009میں منعقدہ آل انڈیاسول سروس مسابقتی امتحان کے لیے4,00000سے زائد امیدواروں نے درخواست دی تھی، تاہم صرف10,9390 امیدوار ہی امتحانی ہال میں داخلے کے قابل پائے گئے۔شاہ فیصل ان875؍امیدواروں کی فہرست میں اول نمبر پر تھے جنہیں یونین پبلک سروس کمیشن نے مختلف سنٹرل سروسز میں تعیناتی کا اہل قرار دیا ہے۔کامیابی پران کاکہناتھاکہ وہ کشمیریوں کو راحت پہنچانے کے لیے میں وہاں پہنچنا چاہتا تھا جہاں فیصلہ سازی ہوتی ہے لیکن اب انہیں اس بات کاخوب اندازہ ہوا ہواگا کہ ان کا قابل اور ہونہارہونا یہاں عوام کوکوئی راحت نہیںپہنچاسکتا کیونکہ یہاں اونچے عہدے اَن پڑھ یا ادھ پڑھ سیاست دانوں کے پاؤں تلے دبے ہوتے ہیں جب کہ عوام غلامی ، ہراسانی، بے حرمتی ،رسوائی ، تذلیل ،خجالت ،خوف اورموت کے سائے میں ر ہتے ہیں ۔ انہوں نے جونہی ماں بہن بیٹی کی عفت وعصمت کو پڑے لالے کی طرف ایک خفیف اشارہ کر کے اُن کا دفاع کیا تو سیاست کے خداؤں کی جبین پر دفعتاً ناگواری کی شکنین نمودار ہوگئیں اور شاہ فیصل پر غصہ ہوئے ۔
سوال یہ ہے کہ مر کزی حکومت ہراس شخص کی بات کوبراکیوں مانتی ہے کہ جو اس کے ضمیرپردستک دینے کی کوشش کرے،جو تلخ حقائق بیان کرے ،اربابِ اقتدار کوجمہوریت کا بھولا ہو اسبق پڑھانے کی مثبت کوشش کرے، عوام کو آئینہ دکھاکراپنارویہ دُرست کرنے اور ایک دوسرے پرظلم وجارحیت ترک کرنے کی فہمائش کرے؟ڈاکٹرشاہ فیصل وہی کشمیری نوجوان ہیں جس کی امتیازی پوزیشن کے ساتھ آئی اے ایس میں کامیابی پر نئی دلی نے دھمال ڈالا تھا کہ کشمیری ہونے کے باوصف اسے قومی امتحان میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنے میں کوئی روکاوٹ نہ بنا ۔اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ نے ڈاکٹر شاہ فیصل کوخصوصی طورپراپنے آفس میں مدعوکیاتھا۔آج یہی نوجوان اگر خلوص دل کے ساتھ بھارت کی اخلاقی صورت حال کا برملانقشہ کھینچتاہے توحکومت َ ہند ان کے پیچھے لٹھ لے کر کیوں پڑتی ہے ؟ ابھی شاہ فیصل بھارت کی ’’ریپستانی‘‘ صورت حال پرآدھی ادھوری بات کی ،ابھی تو حقوق ا لبشر کی بد ترین خلاف ورزیوں پر ان کا ٹوئٹر خاموش ہی ہے کہ دلی کارُخ ان کے خلاف اس قدرکڑاہوگیا۔ اگر کشمیرکایہ بیٹامبرہن اندازمیں دنیا کو یہ پورا سچ بتادے کہ افسپا کے زیر سایہ ان کے مادر وطن کشمیرمیں کس کس عنوان سے خون کی ہولیاں کھیلی جارہی ہیں تو یقیناًیہی ڈاکٹرشاہ فیصل راندہ ٔ درگاہ ٹھہریںگے اور نہ جانے ان پر کیا کیا الزمات واتہامات تھوپیں جائیں گے ۔
اس میں دورائے نہیں کہ دامنی ( نربھیا ) المیہ سے ما قبل اور اس کے مابعد بھارت میں ستی ساوتری کہلانے والی بیٹی (ناری) کی عزت اور جان دونوں متواتر بے اَمان ہیں ، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ہم بھارت بھر میں اُن کی بے آبروئی کی ا شک بار کہانیاں نہ سنتے ہوں یا نہ دیکھتے ہوں کہ ہمارا جگر پھٹ جا تا ہے۔ اس سے بھی بدتر حال ریاست جموں و کشمیر کا بھی ہے۔ یہاں دوپانچ ماہ قبل رسانہ کھٹوعہ میں آٹھ سالہ بکروال بچی آصفہ زعفرانی بھیڑیوں کے ہاتھوں چڑھ کر اپنی عزت اور اپنی جان اس طرح گنوا بیٹھی کہ اس ٹریجڈی کے سامنے قصور پاکستان کی سات سالہ مقتولہ زینب کی ٹریجڈی ماند پڑی۔ یہ منحوس سانحہ میڈیا کی وساطت سے اور مجرموں کے حق میں نکلنے والے ترنگا بردار جلوسوں ،ان جلوسوں میں ہند وایکتا منچ کی سرکردگی میں دو بی جے پی وزراء کی زانیوں اور قاتلوں کی اعلانیہ پشت پناہی، مقامی پولیس کے جرم حامی کردار،بار ایسوسی ایشن جموںکی ننگ ِانسانیت حرکات وغیرہ چیزوںسے ہائی لائٹ ہوا ،ورنہ کشمیر کی عصری تاریخ خون کھولنے والے ایسے شرم ناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ کیا اس حوالے سے کنن پوشپورہ کا ظلم پتھری بل المیہ کی طرح لاکھ بھلا ئے بھلا یاسکتا ہے ؟ خدا را انصاف کیجئے کہ جہاں ایک جانب اٹھائیس سال سے مسلسل ظلم وجبر،بربریت ،قتل وغارت اور انسانی حقوق کی توہین کے بیچ خواتین کی بے حرمتی کانہ تھمنے والاسلسلہ جاری ہو، وہاں دوسری جانب نسوانیت کا شیشہ کس طرح فیل ہائے بدمست روندھے جارہے ہیں، قلم کو یارا نہیں کہ اسے بیان کر سکے۔کشمیر میں شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہوگا جب ایسے ناقابل بیان سانحات پیش نہیں آرہے ہوں۔ایسے میں کشمیرکی مٹی میں جنمے کسی باصلاحیت وباضمیر نوجوان کا زیادہ دیر خاموش رہنا ممکن بھی نہیں،اسی لئے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تک بندوق اٹھاتے جارہے ہیں ۔ بہر حال کلیدی عہدوں پرتعینات رہنے والے ڈاکٹرشاہ فیصل نے جب بنت حوا پر ہرسُو بلائے ناگہانی کے مہیب اورخوفناک چہرے کودیکھا اورحیوانیت کی دہلانے والی چنگاڑکوباربارسنا تو ان سے رہا نہ گیا اور اپنا مافی الضمیر بلا کم وکاست سامنے لایا تا کہ ارباب اقتدار ا س بارے میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر یں مگر بجائے اس کے یہ لوگ اُن کے خلاف چیں بہ چیں ہوگئے۔ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا سیتاماں کے دیس میں ان حوالوں سے انسانیت کی قبا چاک نہیں ہورہی ہے؟ نیز اگر کسی روشن ضمیر فرد بشر نے اس بارے میں دُکھتی رگ پر انگلی رکھ کر حق بیانی کی تو کیاعقل کا تقاضا یہ نہیں بنتا کہ اربابِ حکومت اس پر غور وتدبر کریں اور اصلاحِ احوال کی جناب قدم بڑھائیں ؟ اس کی بجائے اگر انتظامی اکابرین انسانیت کی اس نحیف آواز کا گلا گھونٹنے پر تُل جائیں تو کیا کہئے؟
گذشتہ تین عشروں سے خاص کر کشمیر میںفوجی آوپریشن جاری ہے ۔ اس دوران کشمیر کی عفت مآب خواتین پر کتنی صدمہ خیز قیامتیں ڈھائی گئیں، الفاظ ان کا احاطہ کر سکتے ہیںاور نہ قلم ان کو بیان کر سکتے ہیں۔ بنا بریں مزاحمتی قوتیں گلا پھاڑ پھاڑ کر چلّا رہی ہیں کہ وادی ٔ کشمیر اورجموں کے مسلم بیلٹ میں آہن پوش نسوانیت کا جامہ بطور جنگی ہتھیار کے دیدہ ودانستہ تارتار کرتے جا رہے ہیں کیونکہ یہ ہرکسی جواب دہی اور مواخذے سے بالاتر خلائی مخلوق کا درجہ رکھتے ہیں ، بلکہ ان کی ہر فاش غلطی اور ہر صریح گناہ دیش بھگتی کا حکم رکھتاہے ۔ امرواقع یہ ہے کہ گزشتہ 70؍برسوں میں وردی پوشوں نے انصاف اور تکریمِ نسوانیت کی مٹی پلید کرتے ہوئے کشمیری عوام کی برحق آواز بزور بازو دبا نے میں ملت کی بیٹیوں پر دست درازی کا اوچھا حربہ بھی بڑی ڈھٹائی سے آزمایا ۔اس مکروہ پالیسی سے کشمیر کی دردناک کہانی دوآتشہ ہونا قدرتی بات ہے ۔ گذشتہ تین عشروں سے ہم لگاتاردیکھ رہے ہیں کہ کالے قوانین بالخصوص بدنام زمانہ ’’افسپا‘‘ کی موجودگی میں وردی پوشوں سے بشری حقو ق کی پامالیوں پر کوئی باز پرس نہیں ہوتی، کوئی جواب طلبی کامیکانزم سرے سے ہی موجود نہیں اورفوج ونیم فوجی دستے ہر کسی جواب طلبی یا احتساب سے مستثنیٰ ہیں۔اس کامبرہن اجمالی تذکرہ 14جون2018کو کشمیرپرجاری اقوام متحدہ کی ایک مفصل رپورٹ میں بھی کیاگیاہے بلکہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے نے سفارش کی ہے کہ جموں کشمیرمیں فورسز کو جوابدہی اور احساس ذمہ داری کی خوراک پلائی جانی چاہیے ۔ اس پر دلی نے نہ صرف برافروختہ ہوکر کشمیر رپورٹ کو مسترد کر دیا بلکہ اس رپورٹ کو سامنے لانے والے اعلیٰ یواین عہدایدار زیدالحسن کی واقعیت پسندی اور غیر جانب داری پر اسی طرح انگلی اٹھائی ہے جیسے شاہ فیصل کو معتوب کیا جانے والاہے، لیکن مقام شکر ہے کہ یواین سیکرٹری جنرل نے کشمیر رپورٹ کا دفاع کر کے دلی کے اشکالات کو بعیداز حقیقت قراردیاہے ۔ حق یہ ہے کہ یواین سرزنش کے باوجود کے باوجو المیہ یہ ہے کہ کشمیرکے طول وعرض میں ہزاروں ایسے خون آشام واقعات بدستور رونما ہورہے ہیں کہ جن کا تذکرہ کر نے سے کلیجہ منہ کو آرہاہے ۔ ناگفتہ بہ حالات کے تیکھے تیور اور آثار وقرائین یہی کہتے ہیں کہ فورسزافسپا کی مہربانی سے انسانوں کی گردنیں اُڑائیں یا مستوارت کیخلاف میجر گگو ئی کی طرح کوئی بھی ظالمانہ اقدام کر یں اُن کی جواب طلبی کا خواب دھرے کا دھرار ہے گا اور شاہ فیصل کا آدھا سچ بھی کسی سطح پر نسوانیت کی عزت ریزیوں کی پالیسیاں ترک کروانے پر منتج نہ ہوگا۔