یہبات اظہر منِ الشمس ہے کہ موجودہ دور اقوامِ عالم کے لئے بالعموم اور ملت اسلامیہ کے لئے بالخصوص ایک پُر فتن اور انتشار کا دور ہے۔ سیاسی انتشار کے بین بین ملت اسلامیہ کئی طرح کے ذہنی اور فکری فتنوں کا شکار بھی نظر آتی ہے اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ان فتنوں میں پڑکر دین اسلام کی اصل روح اور اس کی اساس ( خدا شناسی وانسان دوستی )سے بڑی حدتک محروم پائے جاتے ہیں۔بقول علامہ اقبال ـ ؎
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھوگئی
اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ایمان باللہ وایمان بالرسا لۃ ایمان بالغیب کے بطن سے جنم پاتے ہیںاور اسلامی عقائدکا لبِ لباب ہیں۔اسی پر شریعت اسلامی کا پورا ڈھانچہ استادہ ہے اور قرآن و سنت کا ایک بڑا حصہ غیبات پر ہی مبنی ہیں ۔ اس میں سب سے اول اللہ تعالیٰ ہی کی ذاتِ بابرکات آتی ہے، اس کے بعد فرشتے ‘ جنت ‘ جہنم اور وحی وغیرہ عقائد شامل ہیں ۔جو شخص ایمان بالغیب کے عقیدے سے محروم ہو وہ اسلامی شریعت کا پابند ہو سکتا ہے اور نہ حق وباطل میں تفریق کر نے والا ۔ بدقسمتی سے آج ملت اسلامی میں جوذہنی وفکری فتنے پنپ رہے ہیں، اُن میں ایک عظیم فتنہ وجودیت ( Existentialism )کا بھی ہے،یعنی محض صرف اُسی چیز کو حقیقت سمجھنا جو آنکھوں سے دکھائی دیتی ہو۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ فتنہ دن بدن جڑ پکڑتا جا رہا ہے‘اورزیادہ تر عقلیت زدہ اور مغربیت پسند لوگ اس فتنے کا شکار نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ مسلمانوں کے پاس قرآن ایک کامل رہنمائی کے طور پر موجود ہے جس میں صاحبان ِایمان کے داخلی اوصاف کے بارے میںاللہ کا واضح ارشاد ہے:
’’جو ایمان رکھتے ہیں غیب پر اور نماز قائم کرتے ہیں اور اُس (مال) میں سے خرچ کرتے ہیں جو میں نے اُنہیں دیا ہے۔ اور ایمان رکھتے ہیں اُس پر جو اے نبی ؐ آپ پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو کہ آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں‘‘ البقرہ۔3‘4
لفظ ’’غیب‘‘ کی تشریح کے سلسلے میں مولانا عبدالحفیظ بلیاویؔ لکھتے ہیں:’’ الغیب ‘‘ ہر وہ چیز جوتم سے غائب ہو ۔ ساتھ ہی انہوں نے عربی کا یہ جملہ بھی رقم کیا ہے’’سَمِعْتُ صُوْتََا مِنْ وَرَا ئِ الْغَیْب‘‘ یعنی میں نے آواز ایسی جگہ سے سنی جس کو میں دیکھتا نہیں۔(مصباح الّغات۔575)
غیب سے مراد ایسی چیز ہے کہ جس کا وجود مبنی بر حقیقت ہو ‘لیکن ہماری مادی نظر اور فہم اس کا احاطہ نہ کرسکے۔ایسی چیز کے لئے سائنسی زبان میں Latent کی اصطلاح مستعمل ہے۔ آج سائنس بھی یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ اس وسیع وعریض کائنات میں بہت ساری چیزیں انسان کی عقل سے بالاتر ہیں جن کا احاطہ سائنس کے لئے فی الحال ناممکنات میں سے ہے۔ اصل میں غیب سے انکار کا فتنہ اگلے زمانوں میں بھی پایا جاتا تھالیکن اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں انبیاء کرام ؑ کے ذریعے عوام الناس کی رشدو ہدایت کے لئے احکام نازل فرمائے۔اس کے باوجود بھی بہت سارے افراد اور اقوام گمراہی پر ہی قائم رہیں اور بعد میں اپنے عقل نارسا سے تراشیدہ طرح طرح کے فتنوں کو وجودبخشتے رہے ۔چنانچہ حضرت عیسیٰ ؑ کی بعثت سے کچھ صدیاں قبل ویمقراطیسؔ نامی ایک گمراہ فلسفی نے سب سے پہلے دنیا کو یہ تصور دیا کہ یہ کائنات محض مادی ذرات کے خلط ملط ہونے سے وجود میں آئی ہے ،اس کا کوئی خالق و مالک نہیں ہے۔اس باطل تصور کی بنیاد پر ہزارہا لوگوں نے اللہ تعا لیٰ کی ذات و صفات اور روحِ انسانی کی حقیقت سے صریح انکار کیا۔علامہ اقبال نے آدم کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے اس طرف ایک لطیف اشارہ کیا ہے ؎
بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم
خلافِ معنی تعلیم اہل ِدیں میں نے
وجودیت (Existentialism)کا باطل تصور آج ملت اسلامی کے لئے سمِّ قاتل بن چکا ہے جو اندر ہی اندر ہمارے مسلم معاشرے کو تباہی کی اور لے جارہا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جولوگ غیب کے منکر ہیں وہ غیب کو ’’ عدم‘‘ پر قیاس کرتے ہیںجب کہ غیب اور عدم کے معنی بالکل مختلف اورمتضادہیں۔ غیب کی تشریح اوپر ہوچکی ہے یعنی ایسی چیز جو مکمل وجود رکھتی ہو لیکن ہماری نظراور فہم میں کماحقہ نہ آسکے۔اور’’عدم‘‘ کا اطلاق’’ نیستی ‘‘ ناپید اور غیر موجود پر ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے کہ اللہ کائنات کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے[2:117] ۔یہاں غور کیجئے اللہ تعا لیٰ نے وجود(Existence)کے مدمقابل عدم(Nothing/Non existence)کو لایا ہے نہ کہ غیب (Latent/Hidden) کو۔ اس سے صاف ظاہر ہو تاہے کہ غیب اور عدم میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ غیب اور عدم کے اس فرق کو کئی غیر مسلم مفکرین نے محسوس کرتے ہوئے صدہا کتابیں تصنیف کی ہیں اور غیب کی حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے لیکن ہم قرآن جیسی عظیم اور معتبر کتاب رکھنے کے باوجود بھی اس حوالے سے قیل و قال میں اُلجھے ہیں ۔ برطانوی مفکر بریڑلیؔ (Bradley F. H) نے اِس موضوع پر’ ’Appearance and Reality ‘‘ کے زیرعنوان پانچ سو پچاس صفحات کی کتاب لکھی ہے، جس میں اُس نے ’’غیب‘‘ پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:
what we see is not the reality ' reality is beyond it
بہر حال اس ضمن میں ایک محدودالنظر انسان اگرکچھ نہ کر سکے کم سے کم اپنی ہی ذات کی پرتوں پر غوروفکر کرلے کیونکہ اپنی ذات کاانکار تو قطعی طور پر کسی سے ممکن نہیں اور انسان کی ذات خود میں ایک کائنات ہے جو اللہ تعا لیٰ کی قدرتِ کاملہ کا ایک عمدہ ثبوت ہے ۔’’ اور خود تمہارے اندر بھی (نشانیاں ہیں )کیا تم غور نہیں کرتے(ذاریات۔21)۔ اسی لئے علامہ نے فرمایا ؎
اپنے من میں ڈوب کر پاجاسراغِ زندگی
تو اگر میر ا نہیں بنتا نہ بن ‘ اپنا تو بن
…………………………..
فون نمبر8825090545